Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 28
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١٘ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : (یاد کرو) جب قَالَ : اس نے کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم کو اِنَّكُمْ : بیشک لَتَاْتُوْنَ : تم کرتے ہو الْفَاحِشَةَ : بےحیائی مَا سَبَقَكُمْ : نہیں پہلے کیا تم نے بِهَا : اس کو مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور (بیان کرو) لوط کا (حال) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم تو وہ بےحیائی کرتے ہو کہ جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے بھی نہیں کی،
ترکیب : ولوطا معطوف علی نوح و ابراہیم۔ المنکر مفعول تاتون، منجوک و اھلک الکاف فی الموضع خبر عند سیبویہ۔ من الغابرین الباقین فی العذاب اومن الماضین ذکر ہم اومن مضی زمانہ و یفنی، سیء بہم حزن بسببہم وضاق بہم ذرعًا صدرا۔ اوضاق بشانہم و تدبیرا مرھم ذرعہ ای طاقۃ ان جات ان صلتہ لتاکید الفعلین۔ تفسیر : یہ تیسرا قصہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کا ہے۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حقیقی بھتیجے تھے جو ان کے ساتھ بابل سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ شام میں پہنچ کر یہ قرار پایا کہ دونوں صاحب جدا جدا رہیں، کیونکہ دونوں کے چار پائے اور مویشی بکثرت تھے۔ ابراہیم (علیہ السلام) تو کنعان میں رہے اور لوط ( علیہ السلام) نے دریائے یرون کی ساری ترتی اپنے لیے پسند کی اور شہر سدوم کے پاس آکر مقام کیا۔ یہ شہر اس شور جھیل کے کنارے پر آباد تھا کہ جس کو بحر المیت کہتے ہیں، کنعان سے پورب اور جنوب میں یہاں کے لوگ بڑے بدکار اور فاسق تھے، مردوں سے بدفعلی کرتے تھے اور راہ گیر کو بھی پکڑ کر اس سے ایسی بدفعلی کرتے تھے، اس لیے اس طرف کا رستہ بند ہوگیا تھا اور رہزنی بھی کرتے تھے اور مجلس میں بیٹھ کر بےحیائی کے کام کرتے تھے، لوط ( علیہ السلام) نے منع کیا وہ کب مانتے تھے، تمسخر کے طور پر کہنے لگے کہ اللہ کے عذاب کو لے آ اگر سچا ہے، لوط نے دعا کی کہ مجھے ان بدمعاشوں پر فتح یاب کر یعنی ان کو سزا دے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوپہر کے وقت بلوطوں میں اپنے خیمے میں بیٹھے تھے کہ ان کو تین شخص نظر آئے۔ ابراہیم نے ان کی ضیافت کے لیے کچھ روٹیاں اور تلا ہوا بچھڑا تیار کروایا، اُنہوں نے کھانے سے ہاتھ روکا ابراہیم (علیہ السلام) ڈرگئے کیونکہ اس وقت جو کوئی کسی کے پاس بد ارادہ سے جاتا تھا تو اس کے ہاں کا کھانا نہ کھاتا تھا۔ فرشتوں نے کہا خوف نہ کر ہم تجھ کو بشارت دینے آئے ہیں کہ تیری بیوی سارہ کے ہاں فرزند پیدا ہوگا اور جب چلنے لگے تو کہا ہم سدوم کو غارت کرنے جاتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا وہاں تو لوط بھی ہے۔ انہوں نے کہا ہم کو معلوم ہے، اس کو اور اس کے کنبے کو بچالیں گے مگر اس کی بیوی نہ بچے گی، کیونکہ وہ پیچھے اس بستی کو مڑ کر دیکھے گی، ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوگی۔ شام کو وہ لوگ سدوم آئے اور لوط ( علیہ السلام) سدوم کے دروازہ پر بیٹھے تھے، ان کو مسافر سمجھ کر اپنے گھر لے گئے مگر دل میں ناخوش ہوئے اور بہت تنگ ہوئے، اس لیے کہ وہ خوبصورت لڑکوں کی صورت میں تھے۔ شہر کی حالت معلوم تھی، مگر مہمان نوازی ضروری تھی، یہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کو گھر میں نہ لاتے، خاطر مدارات نہ کرتے، ابھی وہ سونے کے لیے نہ لیٹے تھے کہ شہر کے مردوں نے جوان سے لے کر بوڑھے تک نے ان کا گھر آگھیرا اور کہنے لگے، ان مہمانوں کو ہمارے حوالے کر کہ ان سے بدفعلی کریں۔ لوط ( علیہ السلام) کواڑ کھول کر باہر ان کے پاس گئے اور بہت سمجھایا کہ یہ میرے مہمان ہیں، وہ بولے پرے ہٹ کیا تو یہاں گزر کرنے آیا ہے یا حکومت کرنے، تب وہ کواڑ توڑ کر اندر کو لپکے فرشتوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کے لوط ( علیہ السلام) کو تو اندر کھینچ لیا اور وہ دروازہ بند کردیا اور ان کو اندھا کردیا کہ وہ دروازہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے، تب ان مہمانوں نے لوط ( علیہ السلام) سے کہا۔ سنو جی ہم فرشتے ہیں، آپ کچھ خوف و غم نہ کیجئے، ہم اس شہر کو غارت کرنے آئے ہیں۔ آپ صبح ہونے سے پیشتر اپنے لوگوں کو لے کر باہر نکل جایئے، چناچہ لوط ( علیہ السلام) باہر نکلے اور سورج کے نکلنے کے وقت خدا تعالیٰ نے سدوم اور عمورہ پر گندھک اور آگ برسائی، بیوی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا، وہ نمک کا کھنبا بن گئی اور اس شہر کے کچھ نشان عبرت کے لیے باقی رہ گئے۔
Top