Tafseer-e-Haqqani - An-Nisaa : 31
اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا
اِنْ : اگر تَجْتَنِبُوْا : تم بچتے رہو كَبَآئِرَ : بڑے گناہ مَا تُنْهَوْنَ : جو منع کیے گئے عَنْهُ : اس سے نُكَفِّرْ : ہم دور کردیں گے عَنْكُمْ : تم سے سَيِّاٰتِكُمْ : تمہارے چھوٹے گناہ وَنُدْخِلْكُمْ : اور ہم تمہیں داخل کردیں گے مُّدْخَلًا : مقام كَرِيْمًا : عزت
اگر تم ممنوعات میں سے بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو گے تو ہم تمہارے گناہ (صغائر) دور کردیں گے اور (علاوہ اس کے) تم کو عزت کے مقام میں داخل کریں گے۔
ترکیب : مابمعنی الذی یا نکرہ موصوفہ اور عائد۔ بہ میں ضمیر ہے بعضکم مفعول ہے ‘ فضل کا ‘ نصیب مبتداء للرجال خبر مقدم مما کامن نصیب سے متعلق ہے۔ ولکل کا مضاف الیہ محذوف ای لکل احد ‘ جعل کا مفعول اول موالی جمع مولی ہے اور ثانی لکل ای جعلنا وارثا لکل احد مما ترک یا تو مال محذوف کی صفت ہے ای من مال ترک الوالدان یا متعلق ہے یرثون محذوف سے۔ والذین عقدت الخ مبتداء فاتوھم خبر جملہ کا عطف کلام سابق پر ہے۔ : احکام کے بعد معاملات جو برے نتائج پیدا ہوجاتے ہیں دغا فریب سے مال اور کسی کی بیوی پر دست تطاول دراز کرنا جس کا آخری نتیجہ مارپیٹ اور آخر قتل تک نوبت پہنچتی ہے اس انجام کی خرابی جتا کر ان آیات میں کن تہدید آمیز الفاظ سے روکا جاتا ہے۔ 12 منہ 1 ؎ حالانکہ وہ عیال و اطفال سب سے پاک ہے۔ لم یلد ولم یولد 12 منہ تفسیر : پہلی آیت میں قتل کرنے اور ناحق کسی کے مال کھانے سے منع فرمایا تھا اور عجیب لطف کے ساتھ ممانعت کی تھی۔ اس جگہ نفوس کی اصلاح اور اس قتل و ناحق مال خوری کے مادہ کو کہ جو اکثر حسد و رشک ہے قطع کرتا ہے کیونکہ پیشتر انسان جب کسی مال کی طرف یا اس کے رتبہ و منصب خداداد کی طرف دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو کم مایہ جان کر ان کے دل میں لالچ اور حسد کا شعلہ بھڑکا کرتا ہے جو اس کو اس کے قتل کرنے یا مال مارنے پر آمادہ کرکے دنیا اور آخرت کی سعادت سے محروم کردیا کرتا ہے۔ اس لئے اس مرض کی دوا تعلیم فرماتا ہے کہ تم ہر ایک فضیلت و منصب مختصہ کی دل میں ہوس نہ کیا کرو جو ہر وقت سوخت و گداز اور غمگینی اور خدا کی ناشکری کا باعث ہوجاتی ہے اور انجام کار حسد و لالچ پیدا کرکے قتل اور ناحق مال مارنے وغیرہ فسادات میں مبتلا کردیتی ہے بلکہ رضائے الٰہی اور قسمت ازلی پر راضی و شاکر ہو کر اس سے اس کی عنایت اور فضل کا سوال کیا کرو۔ وہ دے گا اور یہ جان لو کہ ہر مرد و عورت کو اس کی جو کچھ تقدیر میں ہے وہی ملتا ہے اور ہر ایک کو جو خدا تعالیٰ ویسا مال و نعمت نہیں دیتا تو اس میں مصلحت و حکمت ہے جس کو وہی جانتا ہے بکل شیء علیما واضح ہو کہ جب انسان کسی کو مال و نعمت اولاد و تندرستی میں اپنے سے فائق دیکھتا ہے تو اس کے لئے دو باتیں پیدا ہوتی ہیں یا تو یہ اس کی نعمت کا زوال چاہتا ہے اس کو حسد کہتے ہیں سو یہ حرام ہے کیونکہ یہ تمام فسادات قطع محبت و مؤدت کی جڑ ہونے کے علاوہ خود اس کے لئے بھی ہر وقت جلنے کا باعث ہوتا ہے یا یہ کہ زوال تو نہیں چاہتا مگر ویسا اپنے لئے بھی چاہتا ہے اس کو غبطہ کہتے ہیں گرچہ یہ حرام نہیں مگر انجام کار ایسی آرزئوں کا دل میں رکھنا بھی خدا سے ناراضی اور ناشکری اور دنیا میں ہر وقت قلق و اضطراب کا باعث ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کون ہے کہ جس کی تمام آرزوئیں حاصل ہوگئی ہیں ؟ بلکہ ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ اس لئے کسی عارف نے نفس کو ان باتوں میں ہر وقت خدا سے لڑائی اور ناراضی کرتے دیکھ کر یہ کہا ہے سرمد گلہ اختصارمے باید کرد یک کارازیں دو کار می باید کرد یا تن برضائے دوست مے باید داد یا قطع نظر زیار مے باید کرد احادیث میں بھی ایسے مضامین بکثرت ہیں اس لئے ان سب رنجوں سے نجات پانے کے لئے یہ فرما دیا ولا تتمنوا یا یوں کہو میراث کے بارے میں لوگوں کے خدا نے کم زیادہ حسب مصلحت حصے مقرر کئے تھے۔ اس پر کم حصے والے کہتے تھے کہ ہم کو کم کیوں دیا بلکہ مجاہد نے روایت کیا ہے کہ ام سلمہ ؓ نے حضرت ﷺ سے عرض کیا کہ ہم سے مردوں کو دو چند میراث دلائی کاش ہم پیدا ہی نہ ہوتیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ پھر اس کے بعد فرمایا کہ ہر میت کے لئے ہم نے اس کی وارث موالی مقرر کئے ہیں۔ اس کی مصلحت ہم خوب جانتے ہیں یا یوں کہو کہ عورت و مرد کے حقوق بیان فرما کر مردوں کو فضیلت دی تھی جس سے عورتوں کے دل میں مساوات کی آرزو پیدا ہونا ممکن تھا۔ اس لئے اس خیال سے روک دیا کیونکہ ایک کو دوسرے پر برتری نہ ہو تو انتظام عالم درہم برہم ہوجائے۔ موالی جمع مولی جس کے معنی آزاد کرنے والے اور آزاد کئے گئے کے ہیں اور ابن عم اور عصبہ کو بھی کہتے ہیں۔ یہاں عصبات مراد ہیں یا عموماً وارث۔ والذین عقدت الخ اسلام میں پہلے جن میں بھائی چارہ ہوجاتا تھا۔ وہی وارث ہوتے تھے پھر جبکہ آیات میراث نازل ہوئیں تو اقارب کے لئے میراث رہ گئی اور بھائی چارہ والے لوگوں کو کہ جن سے عقد ایمان یعنی باہم ہم قسمی ہوگئے کچھ بھی نہیں دیتے تھے اس لئے یہاں یا تو بطور صلہ محبت ان کے لئے دینا فرمایا کہ جو ان کی تقدیر میں ہے وہ دے دو (نصیبہم کے یہ معنی ہیں) یا اور صورت نہ ہونے اقارب کے وہ وارث ہیں۔
Top