Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
(60 تا 82) اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں حضرت موسیٰ ؑ کے دل میں یہ بات آئی کہ روئے زمین پر میرے سے بڑا کوئی عالم نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ؑ آپ سے بڑھ کر عابد اور عالم میرا ایک بندہ خضر ؑ موجود ہے، موسیٰ ؑ نے فرمایا پروردگار میری ان سے ملاقات کروائیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ایک نمکین مچھلی اپنے زاد راہ کے طور پر لے کر سمندر کے کنارہ پر چل دو ، ایک چٹان کے پاس جہاں عین حیات ہے اس مقام پر جاکر مچھلی زندہ ہوجائے گی اور وہیں تمہیں خضر ؑ ملیں گے، چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ وقت یاد کرو جب کہ موسیٰ ؑ نے یوشع بن نون سے فرمایا یہ بنی اسرائیل کے شرفاء میں سے تھے اور حضرت موسیٰ ؑ کی خدمت اور ان کی اتباع کیا کرتے تھے کہ میں مسلسل چلتا جاؤں گا یہاں تک کہ اس جگہ پر پہنچ جاؤں گا جہاں دو دریا شیریں اور نمکین، بحر فارس اور روم آپس میں ملتے ہیں، چناچہ جب چلتے چلتے دونوں دریاؤں کے جمع ہونے کے جگہ پر پہنچے اور کسی پتھر کے ساتھ لگ کر سو گئے اور اٹھنے کے بعد اس اپنی مچھلی کو دونوں بھول گئے مچھلی نے دریا میں اپنی ایک لکیر کی طرح راہ لی اور چل دی پھر جب دونوں اس پتھر سے آگے بڑھ گئے تو حضرت موسیٰ ؑ نے شاجردہ یعنی یوشع بن نون سے فرمایا ہمارا نانشتہ لاؤ ہمیں تو اس سفر میں بڑی تکلیف اور تھکان ہوئی ہے یوشع بن نون نے کہا موسیٰ ؑ لیجیے دیکھیے جب ہم اس پتھر کے قریب ٹھہرے تھے تو میں مچھلی کا عجیب واقعہ ذکر کرنا ہی آپ سے بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے بھلا دیا مچھلی نے تو اس مقام پر دریا میں عجیب راہ لی۔ موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ اس موقع کی تو ہمیں تلاش تھی کیوں کہ خضر ؑ سے ملاقات کی اللہ کی طرف سے یہی نشانی بیان کی گئی تھی، سو دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے اور واپس ہوئے اور اس پتھر کے پاس خضر ؑ کو پایا جن کو ہم نے نبوت کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا اور ان کو علم اسرار کونیہ عطا کیا تھا، حضرت موسیٰ ؑ نے خضر ؑ سے فرمایا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں کہ جو علم مفید آپ کو اللہ کی جانب سے سکھلایا گیا ہے اس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلا دیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ موسیٰ ؑ آپ سے میرے ساتھ رہ کر میرے افعال پر صبر نہیں ہو سکے گا حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا میں صبر کروں گا خضر ؑ نے فرمایا موسیٰ ؑ آپ بھلا ایسے امور پر صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ علم سے باہر ہیں موسیٰ ؑ نے فرمایا انشاء اللہ آپ سے جو افعال ظہور پذیر ہوں گے آپ مجھے ان پر صابر پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کے حکم سے اختلاف نہیں کروں گا۔ خضر ؑ نے فرمایا موسیٰ ؑ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ سوال نہ کرنا جب تک کہ میں اس کے متعلق خود ہی آپ سے ذکر نہ کروں، غرض کہ حضرت موسیٰ ؑ اور خضر ؑ دونوں ایک طرف چل دیے، جب عبر کے قریب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو خضر ؑ نے کشتی کا ایک تختہ نکال دیا، حضرت موسیٰ ؑ نے حضرت خضر ؑ سے فرمایا کشتی والوں کو غرق کرنے کے لیے ایسا کیا ہے یہ قوم کو بہت ہی مشکل میں ڈال دیا ہے، خضر ؑ نے فرمایا، موسیٰ ؑ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ سے صبر نہ ہوسکے گا، حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا آپ کے قول وقرار میں جو مجھ سے بھول چوک ہو اس پر گرفت نہ کیجیے اور نہ میرے معاملہ میں زیادہ سختی کیجیے، پھر دونوں کشتی سے اتر کر آگے چلے دو بستیوں کے درمیان ایک کمسن لڑکا ملا، خضر ؑ نے اس کو مار ڈالا، موسیٰ ؑ گھبرا کر کہنے لگے کہ آپ نے ایک بےگناہ معصوم بچے کو مار ڈالا اور وہ بھی کسی جان کے بدلے نہیں بیشک آپ نے یہ تو بڑی بےجا حرکت کی۔ حضر ؑ نے فرمایا موسیٰ ؑ میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ سے میری باتیں دیکھ کر صبر نہ ہو سکے گا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اگر اس مرتبہ کے بعد میں آپ پر کسی بات کے متعلق دریافت کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیے کیوں کہ اس کے بارے میں آپ میری طرف سے عذر کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں، پھر دونوں آگے چلے، یہاں تک کہ جب انطاکیہ شہر پر سے گزر ہوا تو وہاں کے رہنے والوں سے کھانے کو مانگا، سو انہوں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کردیا، اتنے میں ان کو ایک جھکی ہوئی دیوار ملی جو گرنے والی تھی تو حضرت خضر ؑ نے اس کو سیدھا کردیا، حضرت موسیٰ ؑ بولے خضر ؑ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے کہ اس کا کھانا لے کر کھالیتے۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا یہ وقت ہماری اور آپ کی علیحدگی کا ہے، باقی میں ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔ وہ کشتی جس کا میں نے تختہ نکالا تھا وہ چند غریب آدمیوں کی تھی کہ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو کرایہ پر دریا سے پار کرتے تھے سو میں نے اس لیے عیب ڈالا کیوں کہ ان کے آگے ظالم جلندی نامی بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا اور رہا وہ لڑکا اس کے والدین ایماندار اور اس بستی کے شرفاء میں سے تھے اور آپ کے پروردگار کو معلوم تھا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی وکفر اور جھوٹی قسموں سے اپنے والدین کو بڑے ہو کر تکلیف پہنچائے گا اس بنا پر میں نے اس کو مار ڈالا۔ سو ہمیں یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے جو اس سے زیادہ نیکوکار اور زیادہ صلہ رحمی کرنے والی ہو۔ چناچہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان والدین کو لڑکی عطا کی اور پھر اس لڑکی سے انبیاء کرام میں سے ایک نبی نے شادی فرمائی اور پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بنی پیدا فرمایا جس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو ہدایت فرمائی، اور اس لڑکے کا نام جیسود تھا اور یہ کافر اور بڑا ڈاکو تھا اس واسطے خضر ؑ نے بحکم خداوندی اس کو قتل کیا۔ اور جہاں تک دیوار کا تعلق ہے تو وہ احرم، صریم دو یتیم لڑکوں کی تھی جو انطاکیہ شہر میں رہتے تھے اس دیوار کے نیچے ایک سونے کی تختی تھی جس میں علم اور حکمت کی باتیں مکتوب تھیں اور اس میں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی، بسم اللہ الرحمن الرحیم“۔ تعجب ہے ایسے شخص پر جو موت کے یقین کے بعد پھر کیسے خوش رہتا ہے اور تعجب ہے۔ ایسے شخص پر جو تقدیر پر یقین رکھنے کے بعد کی سے غمگین رہتا ہے اور تعجب کے قابل ہے وہ شخص جو دنیا کے زوال اور دنیا والوں کے تبدل احوال پر یقین کرتے ہوئے پھر کیسے اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ اور ان کا باپ کاشح ایک امانت دار آدمی تھا سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں بالغ ہو کر اپنی اس تختی کو نکال لیں اور آپ کے پروردگار کی وحی کے مطابق میں نے ایسا کیا ہے اور ان میں سے کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا یہ حقیقت ہے ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہوسکا۔
Top