Tafseer-Ibne-Abbas - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا
کیا ابی بن خلف کو معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو ایک حقیر بدبودار نطفہ سے پیدا کیا ہے اور پھر وہ کھلم کھلا باطل کی حمایت میں اعتراضات کرنے لگا۔ شان نزول : اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ (الخ) امام حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ عاص بن عائل رسول اللہ کی خدمت میں ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا پھر اسے چورا چورا کر کے کہنے لگا کہ اے محمد کیا ایسی ہڈیاں بوسیدہ ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ کی جائیں گی آپ نے فرمایا ہاں یہی ہڈیاں زندہ کی جائیں گی اور تمہیں موت دی جائے گی اور پھر دوبارہ تمہیں زندہ کیا جائے گا اور پھر تمہیں دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔ اس پر اَوَلَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ (الخ) سے آخری سورت تک یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اور ابن ابی حاتم نے مجاہد، عکرمہ، عروہ بن زبیر اور اسدی کے طریقہ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے باقی ان روایتوں میں عاص بن وائل کی بجائے ابی بن خلف نام کا ذکر کیا گیا ہے۔
Top