Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِفَتٰىهُ
: اپنے جوان (شاگرد) سے
لَآ اَبْرَحُ
: میں نہ ہٹوں گا
حَتّٰى
: یہانتک
اَبْلُغَ
: میں پہنچ جاؤ
مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ
: دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ
اَوْ
: یا
اَمْضِيَ
: چلتا رہوں گا
حُقُبًا
: مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
حضرت موسیٰ ؑ اور اللہ کا ایک بندہ حضرت موسیٰ ؑ سے ذکر کیا گیا کہ اللہ کا ایک بندہ دو دریا ملنے کی جگہ ہے اس کے پاس وہ علم ہے جو تمہیں حاصل نہیں آپ نے اسی وقت ان سے ملاقات کرنے کی ٹھان لی اب اپنے ساتھی سے فرماتے ہیں کہ میں تو پہنچے بغیر دم نہ لوں گا۔ کہتے ہیں یہ دو سمندر ایک تو بحیرہ فارس مشرقی اور دوسرا بحیرہ روم مغربی ہے۔ یہ جگہ طنجہ کے پاس مغرب کے شہروں کے آخر میں ہے واللہ اعلم۔ تو فرماتے ہیں کہ گو مجھے قرنوں تک چلنا پڑے کوئی حرج نہیں۔ کہتے ہیں کہ قیس کے لغت میں برس کو حقت کعتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں۔ حقب سے مراد اسی برس ہیں مجاہد ؒ ستر برس کہتے ہیں۔ ابن عباس ؓ زمانہ بتلاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کو حکم ملا تھا کہ اپنے ساتھ نمک چڑھی ہوئی ایک مچھلی لیں جہاں وہ گم ہوجائے وہیں ہمارا بندہ ملے گا۔ یہ دونوں مچھلی کو ساتھ لئے چلے مجمع البحرین میں پہنچ گئے وہاں نہر حیات تھی وہیں دونوں لیٹ گئے اس نہر کے پانی کے چھینٹے مچھلی پر پڑے مچھلی ہلنے جلنے لگ گئی۔ آپ کے ساتھ حضرت یوشع ؑ کی زنبیل میں یہ مچھلی رکھی ہوئی تھی اور وہ سمندر کے کنارے تھا مچھلی نے سمندر کے اندر کود جانے کے لئے جست لگائی اور حضرت یوشع کی آنکھ کھل گئی مچھلی ان کے دیکھتے ہوئی پانی میں گئی اور پانی میں سیدھا سوراخ ہوتا چلا گیا پس جس طرح زمین میں سوراخ اور سرنگ بن جاتی ہے اسی طرح پانی میں جہاں سے وہ گئی سوراخ ہوگیا، ادھر ادھر پانی کھڑا ہوگیا اور وہ سوراخ بالکل کھلا ہوا رہا۔ پتھر کی طرح پانی میں چھید ہوگیا جہاں جس پانی کو لگتی ہوئی وہ مچھلی گئی وہاں کا وہ پانی پتھر جیسا ہوگیا اور وہ سوراخ بنتا چلا گیا۔ محمد بن اسحقاق مرفوعا لائے ہیں کہ حضور ﷺ اس بات کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پانی اس طرح ابتداء دنیا سے نہیں جما سوائے اس مچھلی کے چلے جانے کی جگہ کے ارد گرد کے پانی کے یہ نشان مثل سوراخ زمین کے برابر موسیٰ ؑ کے واپس پہنچنے تک باقی ہی رہے اس نشان کو دیکھتے ہی حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اسی کی تلاش میں تو ہم تھے۔ جب مچھلی کو بھول کر یہ دونوں آگے بڑھے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ایک کا کام دونوں ساتھیوں کی طرف منسوب ہوا ہے۔ بھولنے والے صرف یوشع تھے۔ جیسے فرمان ہے آیت (یخرج منہما اللولو والمرجان) یعنی ان دونوں سمندروں میں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں۔ حالانکہ دو قولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لولو اور مرجان صرف کھاری پانی میں سے نکلتے ہیں جب وہاں سے ایک مرحلہ اور طے کر گئے تو حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے ساتھی سے ناشتہ طلب کیا اور سفر کی تکلیف بھی بیان کی یہ تکلیف مقصود سے آگے نکل آنے کے بعد ہوئی۔ اس پر آپ کے ساتھی کو مچھلی کا چلا جانا یاد آیا اور کہا جس چٹان کے پاس ہم ٹھیرے تھے اس وقت میں مچھلی بھول گیا اور آپ سے ذکر کرنا بھی شیطان نے یاد سے ہٹا دیا۔ ابن مسعود ؓ کی قرأت ان اذکر لہ ہے۔ فرماتے ہیں کہ اس مچھلی نے تو عجیب و غریب طور پر پانی میں اپنی راہ پکڑی۔ اسی وقت حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا لو اور سنو اسی جگہ کی تلاش میں ہم تھے تو وہ دونوں اپنے راستے پر اپنے نشانات قدم کے کھوج پر واپس لوٹے۔ وہاں ہمارے بندون میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس کی رحمت اور اپنے پاس کا علم عطا فرما رکھا تھا۔ یہ حضرت خضر ؑ ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کہا کہ حضرت نوف کا خیال ہے کہ خضر ؑ سے ملنے والے موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہ تھے۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا وہ دشمن رب جھوٹا ہے ہم سے ابی بن کعب ؓ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے انہوں نے سنا کہ حضرت موسیٰ ؑ کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ کر رہے تھے جو آپ سے سوال ہو کہ سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ میں۔ تو چونکہ آب نے اس کے جواب میں یہ نہ فرمایا کہ اللہ جانے اس لئے رب کو یہ کلمہ ناپسند آیا، اسی وقت وحی آئی کہ ہاں مجمع البحرین میں ہمارا ایک بندہ ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا پھر پروردگار میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟ حکم ہوا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی رکھ لو اسے توشے دان میں ڈال لو جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں وہ مل جائیں گے۔ تو آپ اپنے ساتھ اپنے ساتھی یوشع بن نون ؑ کو لے کر چلے پتھر کے پاس پہنچ کر اپنے سر اس پر رکھ کردو گھڑی سو رہے۔ مچھلی اس توشے دان میں تڑپی اور کود کر اس سے نکل گئی سمندر میں ایسی گئی جیسے کوئی سرنگ لگا کر زمین میں اتر گیا ہو پانی کا چلنا بہنا اللہ تعالیٰ نے موقوف کردیا اور طاق کی طرح وہ سوراخ باقی رہ گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ جب جا گے تو آپ کے ساتھی یہ ذکر آپ سے بھول گئے اسی وقت وہاں سے چل پڑے دن پورا ہونے کے بعد رات بھر چلتے رہے، صبح حضرت موسیٰ ؑ کو تھکان اور بھوک محسوس ہوئی اللہ نے جہاں جانے کا حکم دیا تھا جب تک وہاں سے آگے نہ نکل گئے تھکان کا نام تک نہ تھا اب اپ نے ساتھی سے کھانا مانگا اور تکلیف بیان کی اس وقت آپ کے ساتھی نے فرمایا کہ پتھر کے پاس جب ہم نے آرام لیا تھا وہیں اسی وقت مچھلی تو میں بھول گیا اور اس کے ذکر کو بھی شیطان نے بھلا دیا اور اس مچھلی نے تو سمندر میں عجیب طور پر اپنی راہ نکال لی۔ مچھلی کے لئے سرنگ بن گئی اور ان کے لیے حیرت کا باعث بن گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اسی کی تو تلاش تھی، چناچہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے دونوں واپس ہوئے اسی پتھر کے پاس پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب کپڑوں میں لپٹے ہوئے بیٹھے ہیں۔ آپ نے سلام کیا اس نے کہا تعجب ہے آپ کی سر زمین میں یہ سلام کہاں ؟ آپ نے فرمایا میں موسیٰ ہوں انہوں نے پوچھا کیا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے وہ سکھائیں جو بھلائی آپ کو اللہ کی طرف سے سکھائی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا موسیٰ ؑ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ مجھے جو علم ہے وہ آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے وہ مجھے نہیں اللہ تعالیٰ نے دونوں کو جداگانہ علم عطا فرما رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا انشاء اللہ آپ دیکھیں گے کہ میں صبر کروں گا اور آپ کے کسی فرمان کی نافرمانی نہ کروں گا۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا اچھا اگر تم میرا ساتھ چاہتے ہو تو مجھ سے خود کسی بات کا سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں آپ تمہیں اس کی بابت خبردار کروں۔ اتنی باتیں طے کر کے دونوں ساتھ چلے دریا کے کنارے ایک کشتی تھی ان سے اپنے ساتھ لے جانے کی بات چیت کرنے لگے انہوں نے خضر ؑ کو پہچان لیا اور بغیر کرایہ لئے دونوں کو سوار کرلیا کچھ ہی دور چلے ہوں گے جو حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا دیکھا کہ خضر ؑ چپ چاپ کشتی کے تختے کلہاڑے سے توڑ رہے ہیں حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا یہ کیا ؟ ان لوگوں نے تو ہمارے ساتھ احسان کیا بغیر کرایہ لئے کشتی میں سوار کیا اور آپ نے اس کے تختے توڑنے شروع کر دئیے جس سے تمام اہل کشتی ڈوب جائیں یہ تو بڑا ہی ناخوش گوار کام کرنے لگے۔ اسی وقت حضرت خصر ؑ نے فرمایا دیکھو میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے۔ حضرت موسیٰ ؑ معذرت کرنے لگے کہ خطا ہوگئی بھولے سے پوچھ بیٹھا معاف فرمائیے اور سختی نہ کیئجے۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں واقعی یہ پہلی غلطی بھول سے ہی تھی فرماتے ہیں کشتی کے ایک تختے پر ایک چڑیا آ بیٹھی اور سمندر میں چونچ ڈال کر پانی لے کر اڑ گئی، اس وقت حضرت خضر ؑ نے حضرت موسیٰ ؑ سے فرمایا میرے اور تیرے علم نے اللہ کے علم میں سے اتنا ہی کم کیا ہے جتنا پانی سے سمندر میں سے اس چڑیا کی چونچ نے کم کیا ہے۔ اب کشتی کنارے لگی اور ساحل پر دونوں چلنے لگے جو حضرت خضر ؑ کی نگاہ چند کھیلتے ہوئے بچوں پر پڑی ان میں سے ایک بچے کا سر پکڑ کر حضرت خضر ؑ نے اس طرح مروڑ دیا کہ اسی وقت اس کا دم نکل گیا۔ حضرت موسیٰ ؑ گھبرا گئے اور فرمانے لگے بغیر کسی قتل کے اس بچے کو آپ نے ناحق مار ڈالا ؟ آپ نے بڑا ہی منکر کام کیا حضرت خضر ؑ نے فرمایا دیکھو اسی کو میں نے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہاری ہماری نبھ نہیں سکتی اس وقت حضرت خضر ؑ نے پہلے سے زیادہ سختی کی۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا اچھا اب اگر میں کوئی سوال کر بیٹھوں تو بیشک آپ مجھے ابنے ساتھ نہ رکھنا یقینا اب آپ معذور ہوگئے، چناچہ پھر دونوں ہمراہ چلے ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، وہیں ایک دیوار دیکھی جو جھک گئی تھی اور گرنے کے قریب تھی، اسی وقت حضرت خضر نے ہاتھ لگا کر اسے ٹھیک اور درست کردیا حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا خیال تو فرمائیے ہم یہاں آئے ان لوگوں سے کھانا طلب کیا انہوں نے نہ دیا مہمان نوازی کے خلاف کیا ان کا یہ کام تھا آپ ان سے اجرت لے سکتے تھے۔ حضرت خضر ؑ نے فرمایا یہ ہے مجھ میں اور تم میں جدائی اب میں تمہیں ان کاموں کی اصلیت بتلا دوں گا۔ حضور ﷺ فرماتے ہیں کاش کہ حضرت موسیٰ ؑ صبر سے کام لیتے تو ان دونوں کی اور بھی بہت سی باتیں ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ بیان فرماتا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت میں وکان ورائہم کے بدلے وکان امامہم ہے اور سفینۃ کے بعد صالحتہ کا لفظ بھی ہے اور واما الغلام کے بعد فکان کافرا کے لفظ بھی ہیں۔ اور سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اس پتھر کے پاس حضرت موسیٰ ؑ رک گئے وہیں ایک چشمہ تھا جس کا نام نہر حیات تھا اس کا پانی جس چیز کو لگ جاتا ہے وہ زندہ ہوجاتی تھی۔ اس میں چڑیا کی چونچ کا پانی اس سمندر کے مقابلے میں، الخ۔ صحیح بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے گھر میں ان کے پاس تھا آپ نے فرمایا کہ جس کو جو سوال کرنا ہو کرلے میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے کوفے میں ایک واعظ ہیں جن کا نام نوف ہے پھر پوری حدیث بیان کی جیسا کہ اوپر گزری اس میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے اس خطبہ سے آنکھوں سے آنسو بہ نکلے اور دل نرم پڑگئے تھے، جب آپ جانے لگے تو ایک شخص آپ کے پاس پہنچا اور اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا کیونکہ انہوں نے اللہ کی طرف علم کو نہ لوٹایا اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ نے نشان طلب کیا تو ارشاد ہوا کہ ایک مچھلی اپنے ساتھ رکھ لو جس جگہ اس میں روح پڑجائے وہیں پر آپ کی اس شخص سے ملاقات ہوگئی۔ چناچہ آپ نے مچھلی لی زنبیل میں رکھ لی اور اپنے ساتھی سے کہا آپ کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ جہاں مچھلی آپ کے پاس سے چلی جائے وہاں آپ مجھے خبر کردینا انہوں نے کہا یہ تو بالکل آسان سی بات ہے۔ ان کا نام یوشع بن نون تھا۔ لفتہ سے یہی مراد ہے۔ یہ دونوں بزرگ تر جگہ میں ایک درخت تلے تھے حضرت موسیٰ ؑ کو نیند آگئی تھی اور حضرت یوشع جاگ رہے تھے جو مچھلی کود گئی انہوں نے خیال کیا کہ جگانا تو ٹھیک نہیں جب آنکھ کھلے گی ذکر کر دوں گا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ پانی میں جانے کے وقت جو سوراخ ہوگیا تھا اسے روای حدیث عمرو نے اپنے انگوٹھے اور اس کے پاس کی دونوں انگلیوں کا حلقہ کر کے دکھایا کہ اس طرح کا تھا جیسے پتھر میں ہوتا ہے۔ واپسی پر حضرت خضر سمندر کے کنارے سبز گدی بچھائے ملے ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے اس کا ایک سرا تو دونوں پیروں کے نیچے رکھا ہوا تھا اور دوسرا کنارہ سر تلے تھا، حضرت موسیٰ ؑ کے سلام پر آپ نے منہ کھولا۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر ؑ نے فرمایا کہ آپ کے ہاتھ میں توراۃ موجود ہے وحی آسمان سے آرہی ہے کیا یہ بس نہیں ؟ اور میرا علم آپ کے لائق بھی نہیں اور نہ میں آپ کے علم کے قابل ہوں۔ اس میں ہے کہ کشتی کا تختہ توڑ کر آپ نے ایک تانت سے باندھ دیا تھا۔ پہلی دفعہ کا آپ کا سوال تو بھولے سے ہی تھا دوسری مربتہ کا بطور شرط کے تھا ہاں تیسری بار کا سوال قصدا علیحدگی کی وجہ سے تھا۔ اس میں ہے کہ لڑکوں میں ایک لڑکا تھا کافر ہوشیار اسے حضرت خضر نے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا ایک قرأت میں زاکیتہ مسلمۃ بھی ہے۔ ورائہم کی قرأت امامہم بھی ہے اس ظالم بادشاہ کا نام اس میں ہدو بن بدو ہے اور جس بچے کو قتل کیا گیا تھا اس کا نام جیسور تھا کہتے ہیں کہ اس لڑکے کے بدلے ان کے ہاں ایک لڑکی ہوئی ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ خطبہ کر رہے تھے اور فرمایا کہ اللہ کو اور اس کے امر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ الخ یہ نوف کعب ؓ کی بیوی کے لڑکے کا قول تھا کہ جس موسیٰ کا ان آیتوں میں ذکر ہے یہ موسیٰ بن میشا تھے۔ اور روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جناب باری تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے اللہ اگر تیرے بندوں میں مجھ سے بڑا عالم کوئی ہو تو مجھے آگاہ فرما، اس میں ہے کہ نمک چڑھی ہوئی مچھلی آپ نے اپنے ساتھ رکھی تھی۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت خضر ؑ نے فرمایا تم یہاں کیوں آئے ؟ آپ کو تو ابھی بنی اسرائیل میں ہی مشغول کار رہنا ہے اس میں ہے کہ چھپی ہوئی باتیں حضرت خضر ؑ کو معلوم کرائی جاتی تھیں تو آپنے فرمایا کہ تم میرے ساتھ ٹھیر نہیں سکتے کیونکہ آپ تو ظاہر کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے اور مجھے راز پر اطلاع ہوتی ہے، چناچہ شرط ہوگئی کہ گو آپ کیسا ہی خلاف دیکھیں لیکن لب نہ ہلائیں جب تک کہ حضرت خضر خود نہ بتلائیں۔ کہتے ہیں کہ یہ کشتی تمام کشتیوں سے مضبوط عمدہ اور اچھی تھی، وہ بچہ ایک بےمثل بچہ تھا بڑا حسین بڑا ہوشیار بڑا ہی طرار حضرت خضر نے اسے پکڑ کر پتھر اس کا سر کچل کر اسے مار ڈالا۔ حضرت موسیٰ خوف اللہ سے کانپ اٹھے کہ ننھا سا پیارا بےگناہ بچہ اس بےدردی سے بغیر کسی سبب کے حضرت خضر نے جان سے مار ڈالا۔ دیوار گرتی ہوئی دیکھ کر ٹھہر گئے پہلے تو اسے باقاعدہ گرایا اور پھر بہ آرام چننے بیٹھے۔ حضرت موسیٰ ؑ اکتا گئے کہ بیٹھے بٹھائے اچھا دھندا لے بیٹھے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس دیوار کے نیچے کا خانہ صرف علم تھا۔ اور روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ اور آپ کی قوم مصر پر غالب آگئی اور یہاں آ کر وہ با آرام رہنے سہنے لگے تو حکم الہٰی ہوا کہ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلاؤ۔ آپ خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ کے احسانات بیان کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ یہ نعمتیں عطا فرمائیں، آل فرعون سے اس نے تمہیں نجات دی، تمہارے دشمنوں کو غارت اور غرق کردیا، پھر تمہیں ان کی زمین کا مالک کردیا، تمہارے نبی سے باتیں کیں، اسے اپنے لیے پسند فرما لیا، اس پر اپنی محبت ڈال دی، تمہاری تمام حاجتیں پوری کیں، تمہارے نبی تمام زمین والوں سے افضل ہیں، اس نے تمہیں تورات عطا فرمائی۔ الغرض پورے زوروں سے اللہ کی بیشمار اور ان گنت نعمتیں انہیں یاد دلائیں اس پر ایک بنی اسرائیل نے کہا فی الواقع بات یہی ہے اے نبی اللہ کیا زمین پر آپ سے زیادہ علم والا بھی کوئی ہے ؟ آپ نے بےساختہ فرمایا کہ نہیں ہے۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ نے حضرت جبرائیل ؑ کو بھیجا کہ ان سے کہو کہ تمہیں کیا معلوم کہ میں اپنا علم کہاں کہاں رکھتا ہوں ؟ بیشک سمندر کے کنارے پر ایک شخص ہے جو تجھ سے بھی زیادہ عالم ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت خضر ؑ ہیں پس حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ ان کو میں دیکھ لوں وحی ہوئی کہ اچھا سمندر کے کنارے جاؤ وہاں تمہیں ایک مچھلی ملے گی اسے لے لو، اپنے ساتھی کو سونپ دو ، پھر کنارے چل دو جہاں تو مچھلی کو بھول جائے اور وہ تجھ سے گم ہوجائے وہیں تو میرے اس نیک بندے کو پائے گا حضرت موسیٰ ؑ جب چلتے چلتے تھک گئے تو اپنے ساتھ سے جو ان کا غلام تھا مچھلی کے بارے میں سوال کیا اس نے جواب دیا کہ جس پتھر کے پاس ہم ٹھہرے تھے وہیں میں مچھلی کو بھول گیا اور تجھ سے ذکر کرنا شیطان نے بالکل بھلا دیا میں نے دیکھا کہ مچھلی تو گویا سرنگ بناتی ہوئی دریا میں جا رہی ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ بھی اپنی لکڑی سے پانی کو چیرتے ہوئے اس کے پیچھے ہو لئے مچھلی جہاں سے گزرتی تھی اس کے دونوں طرف کا پانی پتھر بن جاتا تھا اس سے بھی اللہ کے نبی سخت متعجب ہوئے اب مچھلی ایک جزیرے میں آپ کو لے گئی الخ۔ ابن عباس ؓ اور حر بن قیس میں اختلاف تھا کہ موسیٰ ؑ کے یہ صاحب کون تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا کر اپنا اختلاف بیان کیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہوئی وہ حدیث بیان کی جو تقریبا اوپر گزر چکی ہے۔ اس میں سائل کے سوال کے الفاظ یہ ہیں کہ کیا آپ اس شخص کا ہونا بھی جانتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم والا ہو ؟
Top