Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 54
وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا : اور البتہ ہم نے پھیر پھیر کر بیان کیا فِيْ : میں هٰذَا الْقُرْاٰنِ : اس قرآن لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے مِنْ : سے كُلِّ مَثَلٍ : ہر (طرح) کی مثالیں وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان اَكْثَرَ شَيْءٍ : ہر شے سے زیادہ جَدَلًا : جگھڑنے والا
اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے کے) لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے
آیت نمبر 54 تا 59 ترجمہ : اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اس قرآن میں ہر قسم کے عمدہ مضامین مختلف انداز سے بیان کئے ہیں من کل مثلٍ موصوف محذوف مثلاً کی صفت ہے یعنی ہر قسم کی مثالیں تاکہ نصیحت حاصل کریں، اور کافر انسان بڑا جھگڑالو ہے یعنی خصومت میں باطل طریقہ اختیار کرتا ہے جَدَلاً کان کے اسم سے منقول ہو کر تمیز ہے، تقدیر عبارت یہ ہے وکان جَدَلُ الانسان اکثر شئ فیہ اور لوگوں کو یعنی کفار مکہ کو ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے معافی طلب کرنے سے ان کے پاس ہدایت قرآن پہنچنے کے بعد صرف اس انتظار نے روکا کہ ان کو بھی پہلی امتوں جیسا معاملہ پیش آجائے یا یہ کہ عذاب ان کے روبرو آکھڑا ہو، سنۃُ الاولین تاتِیَھُمْ کا فاعل ہے یعنی جو ہمارا قانون قدرت ان کے بارے میں ہے، اور وہ، وہ ہلاکت ہے جو ان کے حق میں مقدر ہوچکی ہے اَنْ یُؤمنوا (منع کا) مفعول ثانی ہے قِبَلاً بمعنی روبرو نظروں کے سامنے اور وہ (عذاب) یوم بدر میں قتل کی شکل میں پیش آیا، اور ایک قرأ ت میں قُبُلاً قاف اور فاء کے ضمہ کے ساتھ ہے جو کہ قبیل کی جمع ہے، انواع کے معنی میں اور ہم نے رسولوں کو مومنین کو بشارت دینے والے اور کافروں کو ڈرانے والے بنا کر بھیجا، اور کافر ایسی باتیں کہہ کر کہ کیا اللہ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے ؟ ناحق جھگڑے کھڑے کرتے ہیں تاکہ وہ اس (باطل) طریقہ سے حق قرآن کو زیر کردیں اور انہوں نے میری آیتوں قرآن اور اس عذاب نارکا جس سے ان کو ڈرایا گیا تھا مذاق اڑایا اور اس سے بڑا ظالم کون ہے کہ جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی گئی پھر اس نے منہ پھیرلیا ؟ اور وہ ان کرتوتوں کو بھول گیا جو اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا ہے یعنی وہ کفرو معصیت کے اعمال جن کو وہ کرچکا ہے بلاشبہ ہم نے ان کے قلوب پر پردے ڈال دئیے ہیں، اس بات سے کہ وہ قرآن کو سمجھیں اس وجہ سے وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکتے اور ان کے کانوں کو بہرا کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ قرآن کو سنتے نہیں ہیں اور اگر آپ ان کو ہدایت کی طرف بلائیں تو وہ اس وقت ہرگز راہ راست پر نہ آئیں گے یعنی جعل مذکور کی وجہ سے اور وہ قلوب پر پردے اور کانوں میں ثقل (بہرا پن) ہے اور آپ کے پروردگار بڑے ہی درگذر کرنے والے رحم کرنے والے ہیں اور اگر وہ دنیا میں ان کے کرتوتوں کے سبب مؤاخذہ کرنے لگے تو فوراً ہی ان پر دنیا ہی میں عذاب بھیج دے بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ ہے اور وہ قیامت کا دن ہے اور وہ اس کے علاوہ کوئی پناہ گاہ ٹھکانہ نہ پائیں گے اور ہم نے ان بستیوں یعنی ان کے باشندوں مثلاً عاد وثمود وغیرہ کو اس وقت ہلاک کردیا جب انہوں نے ناانصافی کی (کفر کیا) اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا تھا یعنی ان کو ہلاک کرنے کیئے اور ایک قرأت میں میم کے فتحہ کے ساتھ ہے یعنی ان کی ہلاکت کیلئے۔ تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد قولہ لقد صَرَّفْنَا صَرَّفَ تصریفًا مختلف طریقوں سے بیان کرنا اور مختلف انداز سے سمجھانا، مِنْ کُلِّ مثلٍ میں مِنْ زائدہ ہے، مِنْ کلِّ مثلٍ ، مثلاً محذوف کی صفت ہو کر صرّفنا کا مفعول بہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے صرَّفْنَا فی ھٰذا القرآن مثلاً کائنًا من کلِّ مثلٍ قولہ جَدَلاً اکثرَ شئ کی نسبت سے تمیز ہے، کان کے اسم سے منقول ہے، ای کان جدال الانسان اکثر شئ فیہ ای جدالہ اکثر من کل مجادلٍ مَنَعَ فعل ماضی (ف) الناس مفعول اول اور ان یومنوا جملہ بتاویل مصدر ہو کر مفعول ثانی ان سے پہلے مِنْ محذوف ہے قولہ اذ جاء ھم یومنوا کا ظرف ہے یستغفروا کا عطف یومنوا پر ہے قولہ اَنْ تأتِیَھم بتاویل مصدر ہو کر مَنَعَ کا فاعل ہے انتظار مضاف محذوف ہے اور أن تاتِیَھُمْ مضاف الیہ ہے جو کہ مضاف کے قائم مقام ہے اور یاتِیَھم کا عطف تاتیھُمْ پر ہے قولہ قِبَلاً ، العذابَ سے حال ہے بمعنی سامنے، روبرو اور ایک قرأ ت میں قُبُلاً ہے جو قبیل کی جمع ہے اس کے معنی انواع و اقسام کے ہیں جیسے سُبُلٌ سبیلٌ کی جمع ہے بمعنی انواع قولہ مبشرین ومنذرین مرسلین سے حال ہیں یجادل کا مفعول المرسلین محذوف ہے لِیُدْحِضُوْا یجادل سے متعلق ہے ادحاض (افعال) پھسلانا، ٹلانا، قولہ ما اُنْذِرُوْا میں ما موصولہ ہے اور اُنْذِرُوْا میں ما موصولہ ہے اور اُنذِرُوْا جملہ ہو کر صلہ بہٖ عائد محذوف ہے یا ما مصدریہ ہے انذارھم کے معنی میں اُنذِرُوا جملہ عاطفہ ہو کر اتخذوا کا مفعول اول ہے قولہ مَنْ لفظاً مفرد ہے اور معناً جمع ہے لہٰذا اس کی طرف واحد اور جمع دونوں قسم کی ضمیریں لوٹ سکتی ہیں جیسا کہ آئندہ پانچ ضمیریں مفرد اور پانچ جمع کی مَن کی طرف لوٹ رہی ہیں قولہ اَکِنَّۃ ٌ یہ کِنانٌ کی جمع ہے بمعنی پردہ یہ جملہ اعراض اور نسیان کی علت ہے قولہ بالجعل المذکور اس جملہ کا اضافہ اذًا کے مفہوم کی تعیین کے لئے ہے قولہ رَبُّکَ مبتداء الغفور خبر اول ذوالرحمۃ خبر ثانی قولہ مَوْئل ظرف ہے بمعنی جائے پناہ (ض) والَ یئیلُ والاَّ ، وال الیہ، پناہ لی قولہ تلک القریٰ مبتداء اَھْلکناھُمْ خبر تلک القریٰ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب بھی ہوسکتا ہے اس صورت میں باب اشتغال سے ہوگا تقدیر عبارت یہ ہوگی اھلکنا تلک القریٰ اَھلکنَاھُمْ قولہ مَھْلک مصدر میمی ہے، ہلاک کرنا یا ظرف زمان ہے ہلاک ہونے کا وقت جمع مھالک، مھلک میں تین قرأتیں ہیں (1) میم کا ضمہ اور لام کا فتحہ مُھْلَک (2) میم اور لام دونوں کا فتحہ مَھْلَکَ (3) میم کا فتحہ اور لام مکسور مَھلِک۔ تفسیر وتشریح ولَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ھٰذا القرآن الخ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گمراہ لوگوں کی ہدایت کے لئے قرآن پاک میں کیسے کیسے قیمتی مضامین بیان فرمائے اور مختلف قسم کی مثالوں اور عبرت آموز واقعات کے مضامین کو ذہن نشین کرانے کی کوشش فرمائی مگر جن لوگوں کی مت ہی ماری گئی ہو ان کا کیا علاج ؟ وہ ہر خیر خواہی کو بدخواہی سمجھتے ہیں کفار کے رویہ سے ان کی ہٹ دھرمی اور ضد روز روشن کی طرح واضح ہوگئی ہے ورنہ جہاں تک دلیل کا تعلق ہے قرآن کریم نے حق واضح کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر کفار ٹس سے مس نہ ہوئے، غالبًا اب صرف انہیں عذاب الٰہی کا ہی انتظار ہے جیسا کہ عذاب الٰہی نے پہلی قوموں کو بالکل تباہ و برباد کر ڈالا، مذکورہ آیات میں تین باتوں کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے (1) انسان بڑا ہی جھگڑالو ہے وہ جھوٹے جھگڑے کھڑا کرنے میں طاق ہے اللہ کی وعیدوں کا مذاق اڑاتا ہے مگر یاد رکھو حجت تام کردی گئی ہے، موثر انداز اور بہتر طریقہ سے بات پیش کی جا چکی ہے اب بس عذاب کا کوڑا برسنا باقی ہے، (2) کفار کی حق بیزاری اور دین دشمنی کی وجہ سے ان سے حق بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی گئی ہے لہٰذا اب ان کے ایمان لانے کی امید نہ رکھی جائے۔ (3) اللہ تعالیٰ انسانوں کی حرکتوں پر فوراً گرفت نہیں کرتے ڈھیل پر ڈھیل دیتے ہیں تاکہ انسان راہ راست پر آجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے امہال کا قانون مقرر کر رکھا ہے مگر جب عذاب کا وقت موعود آئے گا تو اس وقت کوئی راہ فرار نہ ملے گی، ارشاد خداوندی ہے : اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر قسم کے عمدہ مضامین مختلف طریقوں سے بیان کئے ہیں قرآن کریم میں مختلف عنوانوں سے اور قسم قسم کے دلائل و شواہد سے سچی باتیں سمجھائی گئی ہیں، فہمائش کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی مگر سرکش اور نافرمان انسان ماننے کے لئے تیار اور انسان بڑا جھگڑالو ہے کتنی ہی صاف اور سیدھے بات ہو وہ کٹ حجتی کے بغیر نہیں رہتا جب دلائل کا جواب نہیں بن پڑتا تو بےہودہ اور مہمل باتیں شروع کردیتا ہے، حدیث میں ایک جھگڑالو آدمی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرے گا، اسے بارگاہ خداوندی میں پیش کیا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ ہم نے جو رسول بھیجے تھے ان کے ساتھ تیرا کیا طرز عمل رہا ؟ وہ کہے گا اے پروردگار میں آپ پر بھی ایمان لایا اور آپ کے رسول پر بھی اور عمل میں بھی اس کی اطاعت کی، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ تیرا اعمال نامہ ہے اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے وہ کہے گا میں اس اعمال نامہ کو نہیں مانتا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہمارے یہ فرشتے جو تیری نگرانی کرتے تھے تیرے خلاف گواہی دیتے ہیں وہ کہے گا میں ان کی شہادت بھی نہیں مانتا اور نہ ان کو پہنچانتا ہوں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو یہ لوح محفوظ ہے اس میں بھی تیرا یہی حال لکھا ہے وہ کہے گا کہ اے پروردگار کیا آپ نے مجھے ظلم سے پناہ نہیں دی، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ بیشک تو ظلم سے ہماری پناہ میں ہے تب وہ کہے گا کہ اے میرے رب میں ایسی بن دیکھی شہادتوں کو کیسے مان لوں ؟ میں ایسے شہادت کو مان سکتا ہوں جو میرے اندر سے ہو، اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب ہم تیرے خلاف تیری ہی ذات میں سے گواہ کھڑا کرتے ہیں وہ سوچ میں پڑجائے گا کہ اس کی ذات میں سے اس کے خلاف کون گواہی دے گا ؟ پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جائے گی (اور اس کی قوت گویائی اس کے اعضاء کی طرف منتقل کردی جائے گی) اس کے ہاتھ پیر اس کے کفر وشرک کی گواہی دیں گے پھر اس کی مہر توڑ دی جائے گی اور اس کو جہنم رسید کردیا جائے گا اس کا بعض حصہ بعض پر لعنت کرے گا، وہ اپنے اعضاء سے کہے گا تمہارا بیڑا غرق ہو میں تو تمہارے ہی لئے جھگڑا کر رہا تھا اس کے اعضاء جواب دیں گے تجھ پر خدا کی مار ہو کیا تو سمجھتا تھا کہ خدا سے کوئی بات چھپائی جاسکتی ہے ؟ یہ روایت قرطبی سے لی ہے اور اس کا آخری حصہ مسلم شریف میں بروایت حضرت انس ؓ مروی ہے۔ (ماخوذ از ہدایت القرآن ) وَمَا مَنَعَ الناس ان یُومِنُوْا یعنی ہدایت پہنچ جانے کے بعد ایمان نہ لانے اور توبہ نہ کرنے کا کوئی معقول عذر ان کے پاس نہیں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس اب ان کو اس بات کا انتظار ہے کہ گذشتہ اقوام کی طرح عام تباہی ان پر ڈال دی جائے یا وہ زندہ رہیں اور مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کر دئیے جائیں اور وہ ان عذابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ وَمَا نُرْسِلُ المرسلین یعنی رسولوں کی بعثت کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو فرمانبرداری کے اچھے نتائج اور نافرمانی کے برے انجام سے خبردار کردیں ان کے پاس کوئی کوڑا نہیں ہوتا کہ وہ زبردستی لوگوں سے منوالیں اور نہ عذاب لے کر آنا ان کے اختیار میں ہے کہ جب مانگو عذاب لا کھڑا کریں، اور یہ کفار جھوٹے جھگڑے کھڑے کر کے اور کٹ حجتی کر کے چاہتے ہیں کہ حق کی آواز کو زیر کردیں اور جھوٹ کے زور سے سچائی کا قدم ڈگمگادیں مگر ایسا کبھی نہ ہوگا، آیات الٰہی اور تنبیہات خداوندی کے ساتھ ان کا برتاؤ دیکھئے، اور انہوں نے میری آیتوں کا اور اس عذاب کو جس سے ان کو ڈرایا گیا تھا مذاق اڑایا یعنی تذکیر بالعذاب کا مقتضیٰ تو یہ تھا کہ ان کے دل دہل جاتے اور بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا اور اپنی غلط روش ترک کردیتے مگر اس کے بر عکس سنگ دل منکروں نے الٹا اسی عذاب کا مذاق اڑایا اور تمسخر کے انداز میں کہنے لگے کہ خدایا اگر واقعی یہ قرآن آپ کی طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی درد ناک عذاب ڈال دے (انفال آیت 32) اور ان ظالموں سے ان کی بداعمالیوں کے سبب سے توفیق حق سلب کرلی گئی ہے اس لئے کہ ان کے ایمان سے اب مایوسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی گئی پھر اس نے اعراض کیا اور وہ اپنے ان کرتوتوں کو بھول گیا جن کو وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا ہے یعنی سب سے بڑا ظالم اور ناانصاف وہ شخص ہے جس کو اللہ کا کلام سنایا گیا اور مختلف طریقوں سے اسے نصیحت کی گئی مگر پھر بھی بات پر کان نہ دھرا اور اونٹ کی طرح سر اٹھا کر چلدیا اس کو اس بات کا خیال تک نہ آیا کہ وہ کیسی کیسی حرکتیں کر رہا ہے، آخرت میں اسے کیسی کچھ سزا بھگتنی ہوگی، اس لئے کہ بندہ جب اپنے اختیار سے عرصہ تک حق کی مخالفت کرتا رہتا ہے اور خیر خواہانہ نصیحت کے مقابلہ پر جھگڑوں پر تل جاتا ہے اور حق کا مقابلہ مکروفریب سے کرنے لگتا ہے تو اس سے حق کو سمجھنے اور سننے کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے دلوں پر پردے ڈالدئے جاتے ہیں اور کانوں میں ڈاٹ ٹھوک دی جاتی ہے۔ اور اب چونکہ ان کے کان اور دل ان کی ضد کی وجہ سے قبول حق کی استعداد کھو چکے ہیں تو اب ان بدبختوں کے راہ راست پر آنے کی کبھی توقع نہیں اس لئے آپ ان کا زیادہ غم نہ کریں۔ اور آپ ان کی فوری گرفت نہ کرنے سے یہ نہ سمجھیں کہ یہ عذاب الٰہی سے بچ جائیں گے بلکہ بات یہ ہے کہ مجرموں کی فوری گرفت ہماری سنت نہیں ہے ہم مجرموں کو سنبھلنے کی کافی مہلت دیتے ہیں، ارشاد ہے : اور آپ کے پروردگار بڑے ہی درگذر کرنے والے ہیں رحم فرمانے والے ہیں اگر وہ ان کی حرکتوں پر فور گرفت کرنے لگیں تو فوراً ہی (دنیا میں) عذاب بھیج دیں یعنی حرکتیں تو ان کی ایسی ہیں کہ عذاب بھیجنے میں لمحہ بھر کی بھی تاخیر نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جہاں کسی نے قصور کیا فوراً ہی سزا دے دی بلکہ وہ اپنی صفت غفار اور ستاری اور شان رحیمی سے مجرموں کو سنبھلنے کا خوب موقعہ دیتا ہے اور ان کے لئے عذاب کا وقت موعود ہے اس سے کوئی ہرگز بچنے کی جگہ نہ پائے گا کہ اس میں چھپ چھپا کر خود کو محفوظ کرلے۔ اور ہم نے عاد وثمود کی بستیوں کو اس وقت ہلاک کیا جب انہوں نے ناانصافی کی اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے ایک میعاد مقرر کر رکھی تھی اے کفار مکہ تمہیں اس سے سبق لینا چاہیے اگر تم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے رہے تو وقت مقررہ پر تمہیں بھی عذاب الٰہی آگھیرے گا اور اس وقت تمہارے لئے بھی کوئی راہ فرار نہ ہوگی۔
Top