Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Jalalain - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِفَتٰىهُ
: اپنے جوان (شاگرد) سے
لَآ اَبْرَحُ
: میں نہ ہٹوں گا
حَتّٰى
: یہانتک
اَبْلُغَ
: میں پہنچ جاؤ
مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ
: دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ
اَوْ
: یا
اَمْضِيَ
: چلتا رہوں گا
حُقُبًا
: مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
آیت نمبر 60 تا 65 اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کہ عمران کے بیٹے ہیں اپنے خادم یوشع بن نون سے جو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت کے ساتھ ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) سے تحصیل علم بھی کرتے تھے کہا کہ میں چلتا ہی رہوں گا سفر موقوف نہ کروں گا تاآنکہ میں دونوں دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یعنی مشرقی جانب سے بحرروم اور بحر فارس کے ملنے کی جگہ اور اگر میں منزل مقصود کو نہ پاؤں تو ایک وقت یعنی زمانہ دراز تک چلتا رہوں گا چناچہ جب یہ دونوں حضرات دریاؤں کے سنگم پر پہنچے تو یہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے یوشع روانگی کے وقت مچھلی اٹھانا بھول گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) یوشع کو یاد دلانا بھول گئے تو مچھلی نے دریا میں سرنگ نما راہ بنائی یعنی مچھلی نے قدرت خداوندی سے ایسا کیا سرنگ نما راستہ ایسا لمبا سوراخ تھا جو آرپار نہیں تھا اور یہ اس سبب سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی رہ گذر سے پانی کا بہاؤ روک دیا جس کی وجہ سے پانی مچھلی کی راہ سے منقطع ہوگیا اس طریقہ سے وہ سوراخ طاق نما ہوگیا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی تک بند نہیں ہوا اور مچھلی جہاں سے گذرتی تھی پانی منجمد ہوجاتا تھا (جس کی وجہ سے رہ گذر سوراخ کی شکل اختیار کرلیتی تھی) چناچہ جب یہ دونوں حضرات اس مقام موعود سے آگے بڑھ گئے اور دوسرے دن ناشتہ کے وقت تک سفر کرتے رہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ غدا اس کھانے کو کہتے ہیں جو بوقت صبح کھایا جاتا ہے آج کے سفر میں تو ہم تھک گئے نَصَبٌ بمعنی تعبٌ ہے اور تکان منزل مقصود سے آگے بڑھنے کے بعد محسوس ہوئی تو یوشع نے کہا دیکھئے سنئے (میں آپ کو اس مچھلی کا واقعہ سنتا ہوں) جب ہم نے اس چٹان کے پاس قیام کیا تھا تو میں اس مچھلی کو بھول گیا تھا اور اس کی یاد مجھے شیطان نے بھلا دی تھی (أن أذکرہ) اَنسانیہِ کی ضمیر مفعول ہٗ سے بدل اشتمال ہے یعنی مجھے اس کا یاد رکھنا بھلا دیا اور اس مچھلی نے دریا میں عجیب طریقہ سے اپنی راہ بنا لی عَجَبًا اِتَّخَذَ کا مفعول ثانی ہے، اس واقعہ سے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے خادم تعجب میں پڑگئے، جیسا کہ واقعہ سابق میں بیان ہوچکا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مچھلی کے گم ہونے کا ہی وہ موقع ہے جس کی ہم کو تلاش تھی اور ہمارے مطلوب کے وجود کی علامت ہے چناچہ دونوں حضرات اپنے نقش قدم کو تلاش کرتے ہوئے واپس لوٹے حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچے پس ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے خضر کو پایا جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا یعنی ایک قول کے مطابق نبوت اور دوسرے قول کے مطابق ولایت سے اور اس دوسرے قول کے اکثر علماء قائل ہیں اور ہم نے اس کو ہماری جانب سے خاص علم دیا تھا عِلمًا، عَلَّمْنَاہٗ کا مفعول ثانی ہے یعنی مغیبات کی معلومات کا علم دیا تھا، امام بخاری نے ایک حدیث روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دیا تو ان سے سوال کیا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں ہوں، چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس جواب کی وجہ سے ان پر عتاب فرمایا اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس مسئلہ کو (واللہ اعلم) کہہ کر اللہ کے حوالہ نہیں کیا، چناچہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اطلاع دی کہ میرا ایک بندہ ہے جو مجمع البحرین کے پاس ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی یا الٰہ العالمین اس بندہ تک رسائی کی میرے لئے کیا صورت ہوسکتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لو اور اس کو تھیلے میں رکھ لو اور جہاں کہیں وہ مچھلی گم ہوجائے (تو سمجھ لو) کہ وہ بندہ وہیں ہے، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی لی اور اس کو تھیلے میں رکھ لیا اور سفر پر روانہ ہوگئے اور ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہوئے حتی کہ یہ دونوں حضرات ایک چٹان کے پاس پہنچے اور وہاں لیٹنے کے بعد سو گئے اور مچھلی نے تھیلے میں حرکت کی اور تھیلے سے نکل کر دریا میں جا پڑی اور اس نے دریا میں سرنگ نما اپنا راستہ بنا لیا، اور اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کی رہ گزرہ سے پانی سے کا سیلان روک دیا چناچہ وہ رہ گذر طاق کے مانند ہوگئی جب موسیٰ (علیہ السلام) کے خادم یوشع بیدار ہوئے تو مچھلی کا واقعہ حضرت موسیٰ کو بتانا بھول گئے اور بقیہ دن اور رات چلتے رہے یہاں تک کہ دوسرے دن جب ناشتہ کا وقت آیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا ہمارا ناشتہ لاؤ الیٰ قولہ واتخذ سبیلہ فی البحر عجبًا محمد ﷺ نے (اس آیت کی تفسیر میں) فرمایا کان للحوت سرَبًا ولموسیٰ ولفتاہ عجَبًا الخ (یعنی مچھلی کا پانی میں اس طرح جانا مچھلی کے لئے تو سرنگ تھی اور موسیٰ اور یوشع کے لئے تعجب خیز بات تھی) تحقیق، ترکیب وتفسیری فوائد فتٰی نواجوان، خادم، غلام (ج) فِتْیَۃ ً ، مفسرین نے یہاں عام طور پر خادم مراد لیا ہے لاَ اَبْرَحُ فعل ناقص بمعنی لاَ اَزَالُ اس کا اسم أنا اس میں وجوباً مستتر ہے اس کی خبر حتی ابلغ کے قرینہ کی وجہ سے محذوف ہے اَیْ اَسِیْرُ اور اگر اس کو فعل تام مانا جائے تو اس کو خبر کی ضرورت نہیں مفسر علام نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تفسیر ابن عمران سے کر کے بعض لوگوں کے اس قول کی تردید کردی جو کہتے ہیں کہ موسیٰ سے مراد موسیٰ ابن عمران نہیں ہیں بلکہ موسیٰ بن میشیٰ بن یوسف بن یعقوب ہیں قولہ لاَ اَبْرَحُ کی تفسیر لاَ اَزَالُ اسِیْرُ سے کر کے اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ اَبْرَحُ فعل ناقص ہے اور اس کی خبر اسیر محذوف ہے اور حذف پر قرینہ حتیّٰ ابلغَ ہے ای لا اَبْرَحُ سَائِرًا حُقُبًا حقب زمانہ دراز کو کہتے ہیں، ایک مقررہ مدت کو بھی کہتے ہیں، بعض حضرات نے ستر سال اور بعض نے اسّی سال، اور ایک قول تیس ہزار سال کا بھی ہے یہاں مجازاً مدت دراز مراد ہے سَرَب سرنگ، نالی، سوراخ سرَبًا اتخذَ کا مفعول ثانی ہے اور سبیلہ مفعول اول ہے نَصَبًا اسم ہے بمعنی تکان، کوفت، تکلیف، نصَبًا لَقِیْنًا کا مفعول بہ ہے اَرَاَیْتَ میں ہمزہ استفہامیہ تعجیبیہ ہے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ایسا واقعہ جو کہ عجیب ہونے کی وجہ سے ناقابل فراموش تھا مگر میں اس کو بھول گیا، أرأیت کا مفعول محذوف ہے أی أرأیت ما نا بنی فی ذلک الوقت محاورہ میں اخبرنی کے معنی میں مستعمل ہے جیسے اردو محاورے میں بولتے ہیں (بھلا بتلائے) چونکہ یہاں کوئی دریافت طلب بات نہیں ہے اس لئے محض اظہار تعجب کے لئے ہے اَوَینَا ماضی جمع متکلم اَویٰ یاوی (ض) اَوِیًّا واِوَاءً ٹھکانہ لینا، اترنا، اس لفظ کی پوری تحقیق سورة کہف کی آیت 16 میں گذر چکی ہے اَنْسَانیہِ اَنْسَا یُنْسِیٔ اِنسَاءًبھلا دینا نون وقایہ ی ضمیر واحد متکلم مفعول اول ہٗ ضمیر واحد مذکر غائب مفعول ثانی ہٗ میں اصل یہ ہے کہ وہ مضموم ہو مگر جب اس کے ماقبل ی ساکنہ یا کسرہ آتا ہے تو ہ کو بھی کسرہ دیتے ہیں جیسے عَلَیہِ فیہِ بہٖ مگر دو جگہ امام حفص نے اصل کے مطابق پڑھا ہے ایک یہاں اور دوسرے سورة الفتح آیت 10 میں عَلَیہُ اللہ جس کو ملا علی قاری نے شاطبیہ کی شرح میں تفصیل سے لکھا ہے ص 320، اَن اذکرہٗ میں اَنْ مصدریہ ہے جملہ اذکر بتاویل مصدر ہو کر انسانیہ کے مفعول ثانی سے بدل اشتمال ہے ای ما انسانی ذکرہٗ الا الشیطان، ذکرٌ، دل میں یاد کرنا اور کسی کے سامنے ذکر کرنے کے لئے ذَکَرَ لہٗ استعمال ہوتا ہے عَجَبًا اتخذ کا مفعول ثانی بھی ہوسکتا ہے اور مفعول مطلق بھی اس صورت میں موصوف محذوف ہوگا ای اتخاذًا عجبًا اور فی البحر بنا بر حال منصوب ہے ای کائنًا فی البحر اور اِتَّخذ سے متعلق بھی ہوسکتا تھا نَبْغِ اصل میں نَبْغِیْ تھا ی قرآنی رسم الخط میں یہاں حذف کردی گئی ہے اور سورة یوسف آیت 65 میں لکھی گئی ہے، ی کا حذف اسماء میں تو شائع ذائع ہے جیسے قاضی میں، مگر افعال میں میں شاذ اور خلاف قیاس ہے قصصًا یا تو مصدر ہے (ن) قَصَصًا پیروی کرنا ای نَقُصُّ قَصَصًا یا حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای قاصِّینَ قصصًا مِن عندنا محذوف سے متعلق ہو کر رحمۃً کا حال ہے اور من لدنا بھی محذوف سے متعلق ہو کر علمًا سے حال ہے رعایت فو اصل کی وجہ سے مقدم کیا گیا ہے۔ تفسیر وتشریح سورة کہف میں موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر کے قصہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے یہود مدینہ کے سکھانے سے آنحضرت ﷺ سے تین سوال کئے تھے اور یہ کہہ دیا تھا کہ اگر ان سوالوں کو جواب دے دیں تو نبی ہیں اور اگر لا علمی کا اظہار کریں تو سمجھنا کہ ان کا دعوہ نبوت جھوٹا ہے، گویا کہ بعض باتوں کے عدم علم کو عدم نبوۃ کی دلیل قرار دیا تھا، حضرت موسیٰ وخضر (علیہ السلام) کے قصہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ موسیٰ جن کو تم بھی نبی مانتے ہو ان کو بھی تمام چیزوں کا علم نہیں تھا بلکہ ان کو بعض چیزوں کا علم حاصل کرنے کے لئے غیر نبی (خضرعلیہ السلام) کے پاس جانا پڑا تھا، اگر محمد ﷺ بعض باتوں کا فوری جواب نہ دے سکیں تو یہ کوئی نقص کی بات نہیں ہے حتی کہ غیر نبی کو نبی پر جزوی فضیلت حاصل بھی ہو تو اس سے کلی فضیلت کی نفی نہیں ہوتی جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی بعض باتوں کا علم نہیں تھا جن کے حصول کے لئے خضر کے پاس جانا پڑا، موسیٰ وخضر (علیہ السلام) کے دلچسپ واقعہ کو سنانے سے مذکورہ مقصد کے علاوہ اور متعدد مقاصد کے پیش نظر یہ قصہ سنایا گیا ہے دراصل یہ قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تعلیمی سفر نامہ ہے جو کہ علوم و معارف کا خزینہ ہے، جب یہ واقعہ پورا ہوا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کاش موسیٰ کچھ اور صبر فرما لیتے تو دونوں کی اور خبریں معلوم ہوتیں۔ واقعہ کا آغاز : بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل کے سامنے وعظ کہا جس میں حاضرین کی آنکھیں نم ہوگئیں، اور دل نرم ہوگئے، لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دریافت کیا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا میں ہوں، اللہ تعالیٰ کو یہ جواب ناپسند آیا، اس لئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو چاہیے تھا (واللہ اعلم) کہتے، یہ جواب واقع میں صحیح تھا ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ میں اسرار شرعیہ کا علم ان سے زیادہ کس کو ہوسکتا تھا ؟ لیکن حق تعالیٰ کو ان کے الفاظ پسند نہ آئے (اس جواب پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی آئی) ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں رہتا ہے وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا خدایا مجھے اس کا پتہ، نشان بتادیا جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی تل کر اپنے تھیلے میں رکھ لو اور مجمع البحرین کی طرف سفر کرو جس جگہ مچھلی گم ہوجائے سمجھ لینا کہ اسی جگہ ہمارا وہ بندہ ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے حسب ہدایت سفر شروع کیا اور اپنے خادم یوشع بن نون کو اپنے ہمراہ لے لیا اور مچھلی والا تھیلا دے کر فرمایا مچھلی کا خیال رکھنا اور فرمایا کہ مجمع البحرین پہنچنے تک برابر سفر کرتا رہوں گا اگرچہ منزل مقصود تک پہنچنے میں ایک طویل زمانہ ہی کیوں نہ گذر جائے، مطلب یہ کہ میں منزل مقصود پر پہنچ کر ہی دم لوں گا۔ فائدہ : یہ ہے طلب صادق اور حصول علم کی سچی لگن، موسیٰ (علیہ السلام) کے اس مختصر ارشاد میں طالب علموں کے لئے بڑا سبق ہے علم کبھی سچی طلب کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور طلب علم کے لئے ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرنا سنت انبیاء ہے۔ مجمع البحرین کی تعیین یقین کے ساتھ تو مشکل ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ سفر قیام مصر کے دوران پیش آیا تھا تو ملک سوڈان کے شہر خرطوم کے پاس جہاں دریائے نیل کی دو شاخیں ملتی ہیں وہ جگہ مراد ہوسکتی ہے، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہ واقعہ وادیٔ سینا میں اسارت کے زمانہ کا ہے اگر ایسا ہے تو بحر قلزم کے شمال میں دو شاخوں کے اتصال کی جگہ مراد ہے یعنی جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز ملتی ہیں، صاحب فتح القدیر نے بحر فارس اور بحر روم مراد لیا ہے مگر یہ دونوں دریا ملتے نہیں ہیں، ملنے سے دونوں کا قرب مراد ہوسکتا ہے (فوائد عثمانی) اور بحراردن اور بحر قلزم کا احتمال بھی پیش کیا ہے۔ جب دونوں حضرات دریاؤں کے سنگم پر پہنچے وہاں ایک بڑا بھاری پتھر تھا اور اس کے نیچے چشمہ آب حیات جاری تھا، اس کے قریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سو گئے تو حضرت یوشع نے دیکھا کہ مچھلی باذن اللہ زندہ ہو کر تھیلے سے نکل کر جلدی اور عجیب طریقہ سے دریا میں سرنگ بناتی چلی گئی، حضرت یوشع کو اس واقعہ اور مچھلی کے پانی میں سرنگ سی بنانے کی کیفیت سے بڑا تعجب ہو اور سوچا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوں گے تو پورا واقعہ سناؤں گا، جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو فوراً ہی چل کھڑے ہوئے اور یوشع واقعہ سنانا بھول گئے، روایات میں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع سے کہا تھا کہ مچھلی کا خیال رکھنا تو ان کی زبان سے نکلا تھا کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں، لہٰذا مچھلی کی گمشدگی کے واقعہ کو بھلا کر اللہ تعالیٰ نے متنبہ کردیا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام کے بارے میں بھی اپنے اوپر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، ہر چھوٹے بڑے کام میں اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ یہ دونوں حضرات آگے کے لئے سفر پر روانہ ہوگئے اور یوشع مچھلی والا تھیلا اٹھا نا اور مچھلی کا واقعہ سنانا بھول گئے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو یاد دلانا بھول گئے اور باقی دن اور رات سفر کرتے رہے دوسرے روز موسیٰ (علیہ السلام) نے خادم سے ناشتہ مانگا اور یہ بھی فرمایا آج ہم بہت تھک گئے ہیں، اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان محسوس نہیں ہوئی، اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ اب وہ بےمقصد سفر کر رہے ہیں مگر نفس الامری واقعات کا قلب نبوت پر انعکاس ہوا اور طبیعت نے اس کا اثر قبول کیا جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکان محسوس ہوئی، آپ ﷺ کی زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہیں کہ نفس الامری واقعہ کا آپ کے قلب مبارک پر انعکاس ہوا ہے ایک مرتبہ کھانا کھایا جا رہا تھا آپ نے بھی ایک بوٹی لی مگر وہ چبی نہیں آپ نے پھینک دی اور فرمایا یہ گوشت مجھ سے کہہ رہا ہے کہ وہ مالک کی اجازت کے بغیر لیا گیا ہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ نے جہری نماز کے بعد مقتدیوں سے دریافت فرمایا کہ کیا کسی نے میرے پیچھے قرأت کی ؟ ایک صاحب نے عرض کیا جی ہاں، میں نے قرأت کی، تو آپ نے فرمایا میں سوچ رہا تھا کہ قرآن پڑھنے میں مجھ سے جھگڑا کیوں کیا جا رہا ہے ؟ یعنی امر منکر کا قلب نبوت پر اثر پڑا اور آپ کے لئے قرأ ت دشوار ہوگئی۔ فائدہ : موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد سے کہ ہم آج تھک گے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اپنی تکلیفوں کا اظہار جائز ہے یہ کمال کے منافی نہیں ہے البتہ بےصبری اور شکوہ و شکایت ممنوع ہے۔ (جصاص ) فائدہ : موسیٰ (علیہ السلام) کے ناشتہ طلب کرنے سے معلوم ہوا کہ نبیوں کو بھی بھوک پیاس لگتی ہے، زادہ راہ بھی ساتھ رکھتے ہیں اور تھکن بھی محسوس کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی چیز نبوت وولایت کے منافی نہیں ہے جو خوش عقیدہ مرید بزرگوں کی جانب بھوک پیاس اور دیگر بشری ضرورتوں کے انتساب کو بےادبی سمجھتے ہیں ان کے لئے اس میں بڑا سبق ہے (تفسیر ماجدی) القصہ دونوں حضرات اگلی صبح تک چلتے رہے اور اس پورے سفر میں مچھلی والے تھیلے کا دونوں میں سے کسی کو بھی خیال تک نہ آیا یہاں تک کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ مانگا تو خادم کو احساس ہوا کہ وہ مچھلی والا تھیلا تو میں وہیں بھول آیا ہوں اس وقت خادم ہی ہوتا ہے مگر مخدوم کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے اسی لئے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ وہ دونوں اپنی مچھلی بھول گئے، اور ساتھ ہی خادم نے یہ بھی کہہ دیا کہ شیطان نے مجھے بھلا دیا، شریعت کی اصطلاح میں ہر بری بات کا انتساب شیطان اور نفس کی طرف کیا جاتا ہے کیونکہ شیطان نے مجھے بھلا دیا، شریعت کی اصطلاح میں ہر بری بات کا انتساب شیطان اور نفس کی طرف کیا جاتا ہے کیونکہ شیطان ہی تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے اور نفس ہی اس کے فریب میں آتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اس موقعہ کی تو ہم کو تلاش تھی سو دونوں اپنے نشان قدم کو دیکھتے ہوئے واپس پلٹے اور اس چٹان کے پاس پہنچے وہاں ہمارے ایک خاص بندے سے ملاقات ہوئی، یہ بندہ کون تھا ؟ اس کا نام کیا تھا ؟ یہ انسان تھے یا فرشتے اور اگر فرشتے تھے تو علوی یا سفلی اور اگر انسان تھے تو نبی تھے یا ولی ؟ اس بارے میں یقین سے کچھ کہنا دشوار ہے، آراء مختلف ہیں علامہ عثمانی کی رائے یہ ہے کہ یہ نبی ہیں صحیح احادیث میں ان کو خضر کہا گیا ہے یہ ان کا وصفی نام ہے حدیث میں اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک بار حضرت خضر (علیہ السلام) ایک سوکھی سفید زمین پر بیٹھے ہوئے تھے وہ یکایک سبزہ زار ہوگئی اسی وجہ سے ان کا لقب خضر (سبزہ) ہوگیا ( رواہ البخاری والترمذی) اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر کو خصوصی رحمت سے نوازا تھا اور اسرار کو نیہ سے وافر مقدار میں حصہ عطا فرمایا تھا، جو حضرات انسان ہونے کے قائل ہیں ان میں سے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ وہ نبی ہیں اور بعض کی رائے ہے کہ وہ ولی ہیں، اور جو حضرات ان کو ملائکہ میں شمار کرتے ہیں وہ ملائکہ سفلی میں شمار کرتے ہیں جن کو اصطلاح میں رجال الغیب کہا جاتا ہے، بعض محققین کی رائے یہ بھی ہے کہ خضر ایک عہدہ ہے جس پر یکے بعد دیگرے فائز ہونے والے کو خضر کہا جاتا ہے۔
Top