Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہوجاؤ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ ، (الآیۃ) اور تم ان لوگوں کا حال تو اچھی طرف جانتے ہی ہو جنہوں نے روز شنبہ کے بارے میں حد شرع سے تجاوز کیا تھا۔ فائدہ : مچھلی پکڑنے کا واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں پیش آیا تھا، ہفتہ (شنبہ) کا دن بنی اسرائیل کے لئے عبادت کے واسطے مقرر تھا، اس روز مچھلی کا شکار ممنوع تھا، یہ لوگ سمندر کے کنارے آباد تھے، مچھلی کے شوقین تھے، ان لوگوں نے حکم کو نہ مانا اور شکار کیا اس پر اللہ نے ان پر مسخ صورت کا عذاب نازل فرمایا، یہ مسخ شدہ لوگ تین دن میں مرگئے۔ دینی معاملات میں حیلے کی حقیقت : اس آیت میں یہودیوں کے جس اعتدا کا ذکر ہے جس کی وجہ سے ان پر مسخ صورت کا عذاب نازل ہوا تھا، روایات سے ثابت ہے کہ وہ صاف طور پر حکم شرعی کی خلاف ورزی نہ تھی، بلکہ ایسے حیلے تھے، جن سے حکم شرعی کا ابطال لازم آتا تھا، مثلاً ہفتہ کے دن مچھلی کی دم میں ڈور باندھ کر سمندر میں چھوڑ دینا اور ڈور کو کنارہ پر باندھ دینا اور دوسرے روز شکار کرلینا یا کنارہ پر گڑھا کھود دینا تاکہ ممنوعہ دن میں اس میں مچھلیاں داخل ہوجائیں اور دوسرے روز اس کا شکار کرلیا جائے، یہ اس قسم کے حیلے ہیں کہ جس میں حکم شرعی کے ابطال بلکہ ایک قسم کا استہزا ہے، اس لئے ایسے حیلے کرنے والوں کو بڑا سرکش نافرمان قرار دے کر ان پر عذاب نازل فرمایا فقہی حیلے : مگر اس سے فقہی حیلوں کی حرمت ثابت ہوتی جن میں سے بعض خود رسول اللہ ﷺ نے بتلائے ہیں مثلاً ایک سیر عمدہ کھجور کے بدلے دو سیر ردی کھجور خریدنا سود میں داخل ہے، مگر اس سے بچنے کے لئے ایک حیلہ خود رسول اللہ ﷺ نے بتلایا کہ جنس کا تبادلہ جنس سے نہ کرو، قیمت کے ذریعہ خریدو فروخت کرو مثلاً دو سیر ردی کھجوریں دو درہم میں فروخت کردیں پھر ان دو درہموں سے ایک سیر عمدہ کھجور خرید لیں تو یہ جائز ہے، اس لئے کہ یہاں حکم شرعی کی تعمیل مقصود ہے، ابطال حکم مقصود نہیں ہے۔ واقعہ مسخ کی تفصیل : وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ ، علم کا لفظ خود تحقیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، پھر اس پر لام اور قد کے اضافہ سے اس کے معنی میں مزید شدت اور تاکید پیدا ہوگئی گویا قرآن بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کا کوئی واقعہ ان کے لئے خوب اچھی طرح جانا بوجھا ہوا یاد دلا رہا ہے اور ان سے کہہہ رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل ! جس واقعہ کا ذکر آگے آرہا ہے، وہ تمہاری تاریخ کا ایک مسلم اور متعارف واقعہ ہے، جس سے تم بلاشبہ بخوبی واقفیت رکھتے ہو۔ فِی السَّبْتِ ، احکام سبت کے بارے میں، سبت، ہفتہ (سنیچر) کے دن کو کہتے ہیں یہود کی شریعت میں یہ ایک مقدس دن تھا، جس طرح مسیحیوں کے نزدیک اتوار کا دن مقدس ہے، یہ دن یاد خدا کے لئے مخصوص تھا، اس روز تجارت زراعت وغیرہ ہر قسم کے دنیاوی کام ممنوع تھے، اور ممانعت بھی بڑی شدت کے ساتھ تھی، کہ جو اس حکم کی خلاف کرے، اسے قتل کردیا جائے، توریت کے الفاظ یہ ہیں۔ پس سبت کو مانو اس لئے کہ وہ تمہارے لئے مقدس ہے جو کوئی اس کو پاک نہ جانے، وہ ضرور مار ڈالا جائے۔ (خروج، 31: 14، و 15) (ماجدی) روایات میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ میں یہود کی ایک بڑی آبادی مقام ایلہ میں رہتی تھی، مچھلی کا مذکورہ واقعہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ کے یہود کا ہے، حضرت داؤد کا زمانہ 1013 ق م تا 973 ق م کا ہے۔ تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہود نے اول اول تو اس طرح کے حیلے کرکے مچھلیاں پکڑیں پھر ہوتے ہوتے عام طور پر شکار کھیلنے لگے، تو ان میں دو جماعتیں ہوگئیں، ایک جماعت ان دینداروں کی تھی جنہوں نے ایسا کرنے سے روکا مگر وہ باز نہ آئے، تو ان سے تعلقات منقطع کرکے الگ ہوگئے، اور بستی کے دو حصے کر لئے ایک میں یہ نافرمان لوگ رہ گئے، اور دوسرے میں دیندار اور صالح لوگ، ایک روز دینداروں کو یہ محسوس ہوا کہ جس حصہ میں نافرمان رہ رہے ہیں ادھر بالکل سناٹا ہے، تو وہاں جاکر دیکھا، تو سب کے سب بندروں کی صورت میں مسخ ہوگئے ہیں اور حضرت قتادہ نے فرمایا کہ ان کے جوانوں کو بندر اور بوڑھوں کو خنزیر کی صورت میں مسخ کردیا گیا یہ مسخ شدہ لوگ اپنے رشتہ داروں اور شناساں لوگوں کو پہچانتے تھے اور ان کے قریب جا کر روتے تھے۔ ممسوخ قوم کی نسل نہیں چلی : اس بارے میں صحیح بات وہ ہے جو خود رسول اللہ ﷺ سے بروایت عبد اللہ بن مسعود ؓ صحیح مسلم میں منقول ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کے بندروں اور خنزیروں کے بارے میں آپ سے دریافت کیا کہ کیا یہ وہی مسخ شدہ یہودی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم میں مسخ صورت کا عذاب کرتے ہیں، تو ان کی نسل نہیں چلتی اور پھر فرمایا کہ بندر اور خنزیر دنیا میں پہلے سے بھی موجود تھے اور آج بھی موجود تھے اور آج بھی ہیں مگر مسخ شدہ بندروں اور خنزیروں سے ان کو کوئی تعلق نہیں۔
Top