Tafseer-e-Jalalain - An-Nisaa : 34
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبرو کی) خبر داری کرتی ہے اور جن عوتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی اور (بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو۔ اگر اس پھر بھی باز نہ آئیں تو پھر زد کو ب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈوں بیشک خدا سب سے اعلی (اور) جلیل القدرر ہے
آیت نمبر 34 تا 42 ترجمہ : مردعورتوں کے حاکم ہیں ان کی تادیب کرتے ہیں اور انکو (ناپسندیدہ باتوں سے) باز رکھتے ہیں، اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر اور عقل میں اور ولایت وغیرہ میں فضیلت دے کر اور اس سے مرد عورتوں پر اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس نیک فرمانبردار عورتیں اپنے شوہروں کی اطاعت گذار خاوند کی عدم موجودگی میں بحفاظت الہٰی اپنی ناموس وغیرہ کی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اس طریقہ پر کہ شوہروں کو ان کی حفاظت کی تاکید فرمائی۔ اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں خوف ہو اس طریقہ پر کہ اس کی علامات ظاہر ہوں، تو انہیں نصیحت کرو یعنی ان کو اللہ سے ڈراؤ، اور ان کو بستروں میں (تنہا) چھوڑ دو یعنی اگر وہ نافرمانی کا مظاہرہ کریں تو ان سے بستر الگ کرلو اگر وہ بستر الگ کرنے پر بھی باز نہ آئیں تو انہیں مار کی سزادو جو (شدید) تکلیف دہ نہ ہو، اور اگر وہ ان سے تمہارے مقصود میں تمہاری اطاعت کریں تو پھر تم انکو ظلمًا زدوکوب کرنے کے بہانے مت تلاش کرو بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی والا ہے لہٰذاتم اس کی سزا سے ڈرتے رہو، اگر تم عورتوں پر ظلم کرو گے اور تمہیں خاوند اور بیوی کے درمیان کشمکش (اَن بَن) کا اندیشہ ہو (شِقَاقَ بَیْنِھِمَا) کے درمیان اضافت بطور اتساع ہے (اصل میں) شَقاقاً بَینھما ہے۔ تو ایک منصف، مردوالوں میں سے اور ایک منصف، عورت والوں میں سے ان کی رضا مندی سے ان کے پاس بھیجو، اور شوہر اپنے منصف کو طلاق اور (طلاق پر) قبول عوض کا اختیار دیدے، اور بیوی اپنے منصف کو خلع کا اختیار دیدے پھر دونوں (حکم، اصلاح) کی کوشش کریں، اور ظالم کو ظلم سے باز آنے کا حکم کریں، یا اگر مناسب سمجھیں تو ان کے درمیان جدائی کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور دونوں حَکَمْ صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ زوجین کے درمیان موافقت کرادیں گے، بایں طور کہ صلح یا فراق میں سے جو کہ طاعت ہے اس کی ان کو قدرت دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے باخبر ہے یعنی مخفی چیزوں سے ظاہر چیزوں کے مانند باخبر ہے۔ اللہ وَحْدَہ ' کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو ( یعنی) ان کے ساتھ نیکی اور فروتنی سے پیش آؤ، اور قرابت داروں کے ساتھ اور مسکینوں اور پاس والے پڑوسیوں یعنی جو تم سے پڑوس میں یا نسب میں قریب ہیں کے ساتھ اور دور والے پڑوسی کے ساتھ یعنی جو تم سے پڑوس یا نسب میں دور ہوں اور ہم مجلس کے ساتھ یعنی جو ہم سفر یا ہم پیشہ ہو اور کہا گیا ہے کہ مراد بیوی ہے، اور مسافر کے ساتھ جو سفر جاری رکھنے سے عاجز ہوگیا ہو، اور ان کے ساتھ جو تمہاری ملکیت میں ہیں (غلام اور باندیاں) یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنیوالوں اور مال وغیرہ جو ان کو عطا کیا ہے اس کی وجہ سے دوسروں پر شیخی خوروں کو پسند نہیں کرتا اور جو لوگ واجبات میں بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں الَّذِیْنَ مبتداء ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو ان کو اپنے فضل سے علم ومال وغیرہ عطا کیا ہے اس کو چھپالیتے ہیں اور وہ یہود ہیں، اور مبتداء کی خبر لَھُمْ وَعیدشدید، ہے اور کافروں کے لئے ہم نے اس وجہ سے اور اس کے علاوہ کی وجہ سے ذلت والا عذاب تیار کر رکھا ہے اور جو لوگ اپنا مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتے ہیں اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے جیسا کہ منافقین اور اہل مکہ اور جس کا رفیق شیطان ہو تو وہ اس کے حکم کے مطابق عمل کرتا ہے جیسا کہ یہ لوگ ہیں۔ تو وہ بد ترین رفیق ہے۔ بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ نے جو ان کو دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے یعنی اس میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ بلکہ نقصان اس میں ہے جو وہ کررہے ہیں۔ اللہ انہیں خوب جانتا ہے لہذا ان کے اعمال کی جزاء ان کو دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر (یعنی) صغیر ترین چیونٹی کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا بایں طور کہ اس کی نیکیاں کم کردے یا اس کے گناہوں میں اضافہ کردے اور اگر مومن کی نیکی (ایک) ذرہ کے برابر ہو تو اسے دس گنے سے سات سو گنے سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اور ایک قراءت میں حسنة رفع کیساتھ ہے تو اس صورت میں تَکُ ، تامہ ہوگا اور ایک قراءت میں ' یُضَعِّفُھا ' تشدید کے ساتھ ہے، اور خاص اپنی رحمت سے مضاعفتہ کے علاوہ بہت بڑا اجردیتا ہے کہ اس پر کسی کو قدرت حاصل نہیں، پس کفارکا کیا حال ہوگا ؟ کہ جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے کہ وہ ان پر ان کے عمل کی شہادت دے گا اور وہ اس امت کا نبی ہوگا، اور آپ کو لانے کے دن اے محمد ہم ان لوگوں پر گواہ بنا کرلائیں گے ( یومئذ سے یوم المجیٔ مراد ہے) جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش ! ان کو زمین کے ہموار کردیا جاتا (تسوّٰی) مجہول اور معروف کے صیغہ کے ساتھ ہے، اصل میں ایک تاء کو حذف کرکے، اور تاء کو سین میں ادغام کرکے، ای تُتَسَوّیٰ بھم، کہ وہ زمین کے مانند ہوجاتے، اس دن کی ہولناکی کی وجہ سے جیسا کہ دوسری آیت میں ہے، '' یقول الکافر یٰلیتنی کنت ترابا '' اور اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے یعنی اپنے اعمال میں سے کوئی عمل چھپانہ سکیں گے، اور دوسرے وقت میں چھپا سکیں گے، واللہ ربنا ما کنا مشرکین . تحقیق و ترکیب وتسہیل و تفسیری فوائد قولہ : قَوَّامُوْنَ ، یہ قَوَّام کی جمع ہے، صیغہ مبالغہ کا ہے یعنی سرپرست، مصلح۔ نگراں۔ قولہ : لِفُرُوجِھِنَّ اس میں حَافِطات کے مفعول محذوف کی طرف اشارہ ہے مفسر علام نے للغیب کی تفسیر فی غَیْبَةٍ ، سے کرکے اشارہ کردیا کہ لام بمعنی فی ہے۔ قولہ : باَنْ ظَھَرَتْ اَماراتُہ ' یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں سے اگر نافرمانی کا اندیشہ ہو تو ان کے بارے میں نصیحت اعتزال اور ضرب وغیرہ کے احکام ہیں حالانکہ احکام کا ترتب صرف اندیشہ اور خوف پر نہیں ہوتا بلکہ وقوع پر ہوتا ہے، اس کا سوال کا جواب مفسرّعلاّم نے اِن ظَھَرتْ اَمَاراتُہ ' سے دیدیا کہ عورت سے جب نافرمانی کا ظہور ہو تو اس وقت یہ احکام جاری ہوں گے۔ قولہ : ضربًاغَیْرَمُبْرِّحِ ، ای الضرب الذی لایکسر عظمًا ولایشین عضوًا، ای ضر بًا غیر شدید . قولہ : والا ضَافةُ لِلْاتّسَاعِ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے سوال : مصدر کی اضافت فاعل یا مفعول کی طرف ہوتی ہے اور یہاں شقاق کی اضافت بَیْن کی طرف ہورہی ہے جو کہ ظرف ہے۔ جواب : ظرف میں اتساع درست ہے اسلئے کہ مشہور قاعدہ ہے یجوزفی الظرف مالا یجوز فی غیرہ، نیز ظرف، مفعول کے قائم مقام ہے، جیسے یا سارق اللیل، میں۔ قولہ : وَاَحْسِنُوا . سوال : مفسرّعلّام نے اَحْسِنُوا کس فائدہ کے لئے محذوف مانا ہے ؟ جواب : اس سے ایک سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے۔ سوال : یہ ہے کہ وبلوالدین احسانا، جملہ خبر یہ ہے اس کا عظف وَاعْبُدُوا اللّٰہَ پر ہے جو کہ انشائیہ ہے عطف خبر علی الانشاء درست نہیں ہے۔ جواب : مفسرّ علام نے اَحْسِنُوا فعل امر مقدر مان کردیا کہ معطوف بھی جملہ انشائیہ ہے لہٰذا اب کوئی اعتراض نہیں ہے۔ قولہ : الجُنُب بضَمَّتَیْنِ ، بمعنی بعید پڑوسی اس کا اطلاق مذکرومؤنث وتثنیہ وجمع سب پر ہوتا ہے۔ قولہ : والصاحَب بِا لجَنْبِ بفتح الجیم و سکون النون بمعنی رفیق، کارخیرکا ساتھی، مثلاً تعلیم صنعت وحرفت وسفروغیرہ کا ساتھی قولہ : الذین الخ مبتداء ہے اس کی خبر مخدوف ہے، جس کو مفسرّعلاّم نے، لَھُم وعید شَدِیْد، سے ظاہر کردیا ہے اور بعض حضرات نے الذین کو ھُمْ مبتداء مخذوف کی خبر قرار دیا ہے۔ تفسیر وتشریح ربط آیات : عورتوں کے متعلق جو احکام گذر چکے ہیں، ان میں ان کی حق تلفی کی ممانعت بھی مذکورہ ہوئی اب آگے مردوں کے حقوق کا ذکر ہے۔ مردوں کی حاکمیت : الّرِجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ، اس میں عورتوں پر مردوں کی حاکمیت کا بیان ہے اس میں حاکمیت کی دو جہتیں بیان کی گئی ہیں، ایک وہبی ہے جو مردانہ قوت اور ذہنی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے فطری طور پر ممتاز ہے، یہ خدا داد فضیلت ہے اس میں مرد کی سعی وعمل اور عورت کی کوتاہی اور بےعملی کو کوئی دخل نہیں۔ دوسری جہت کسبی اور اختیاری ہے، جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دور رکھا ہے، عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بالکل واضح ہے، جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے '' وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہوگی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے ''۔ (بخاری، کتاب المغازی) فائدہ : آیت میں حاکمیت کی دو جہتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ کسی کو ولایت و حکومت کا استحقاق محض زورو تغلب سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ کام کی صلاحیت واہلیت ہی اس کو حکومت کا مستحق بناسکتی ہے مردوں کو عورتوں پر مذکورہ فضیلت جنسی اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے، جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی اور علمی میں کسی مرد سے فائق ہو اور صفت حاکمیت میں مرد سے بڑھ جائے، مگر حکم جنس اور مجموعہ پر ہی لگے گا۔ اسلام میں عورتوں کے حقوق اور ان کا درجہ : وَلَھُنَّ مِثلُ الَّذِی عَلَیھِنَّ بالمَعْرُوْفِ ، یعنی عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ، اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کا حکم دیکر اس کی تفصیلات کو عرف کے حوالہ کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ظالمانہ رسموں کو یکسر ختم کردیا، البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورةً بھی مماثل ہوں، بلکہ عورت پر اگر ایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے تو اس کے بالمقابل مرد پر دوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے، عورت امورخانہ داری اور بچوں کی تربیت و حفاظت کی ذمہ دار ہے، تو مرد ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کسب معاش کا ذمہ دار ہے، عورت کے ذمہ مرد کی خدمت و اطاعت ہے تو مرد کے ذمہ عورت کے اخراجات کا انتظام۔ بائبل میں عورت کے حقوق : بائبل نے عورت کو درجہ دیا ہے اس کا اندازہ بائبل کی مندرجہ ذیل عبارتوں سے بخوبی ہوسکتا ہے۔ خداوند خدا نے عورت سے کہا اپنے خصم (شوہر) کی طرف تیرا شوق ہوگا، اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔ (پیدائش 3: 16) اے بیویو ! اپنے شوہر کی ایسی تابع رہو جیسے خدا وند کی، کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے، جیسے کہ مسیح کلیسا کا سر ہے، اور وہ خود بدن کا بچا نیوالا ہے، لیکن جیسے کلیسا مسیح کے تابع ہے ایسے ہی بیویاں ہر بات میں اپنے شوہر کے تابع ہیں۔ (افسیون 5: 22: 24) قرآن خدا کا کلام ہے اور ہمیشہ حق ہی کہتا ہے، وہ کلیسا کی کونسلوں اور منوسمرتی کی طرح عورت کی تحقیر و تذلیل کا ہرگز قائل نہیں، لیکن ساتھ ہی اسے جاہلیت قدئم و جاہلیت جدید کی زن پرستی سے بھی اتفاق نہیں، وہ عورت کو ٹھیک وہی مرتبہ ومقام دیتا ہے جو نظام کائنات میں خالق نے اسے دے رکھا ہے عورت بہ حیثیت عبد اور مکلف مخلوق کے مرد کے مساوی اور ہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مرد کے تابع اور ماتحت ہے۔ اسلام سے پہلے عورت کی مظلومیت : عورت کی مظلومیت کی تاریخ اتنی ہی طویل اور قدیم ہے جتنی کہ خود ظلم کی، مطلب یہ ہے کہ جس وقت ظلم شروع ہوا اسی وقت سے عورت مظلوم رہی ہے، اسلام نے آکر نہ صرف یہ کہ عورت کی مظلومیت کو ختم کیا بلکہ اس کو اس کا جائز مقام دے کر وقار اور سر بلندی بخشی۔ عورت کے بارے میں رومن نظریہ : رومن زمانہ میں عورت مشترک قومی ملک سمجھی جاتی تھی، جس سے ہر شخص کو استفادہ کا حق ہوتا تھا۔ عورت کے بارے میں یوحنا کا نظریہ : عورت کے بارے میں یوحنا کا نظریہ یہ تھا کہ عورت شر کی بیٹی اور امن و سلامتی کی دشمن ہے۔ عورت کے بارے میں عیسائیت کا نظریہ : عیسائی نظریہ کے مطابق عورت انسان تو درکنار حیوان بھی نہیں، 586 ء میں تمام عیسائی دنیا کے علماء یورپ میں اس مسئلہ پر بحث کرنے کے لئے جمع ہوئے کہ عورت میں روح ہے یا نہیں، بہت بحث و مباحثہ اور ردوکد کے بعدیہ طے ہوا کہ عورت میں روح ہے۔ عورت کے بارے میں ہندی نظریہ : ہندو قدیم تہذیب میں شوہر کے انتقال کے بعد عورت کو اچھوت اور منحوس سمجھا جاتا تھا اور ایسے حالات پیدا کردیئے جاتے تھے کہ وہ زندگی پر جل کر مرنے کو ترجیح دیتی تھی، بیوہ عورت کا بستر الگ کردیا جاتا تھا اس کو اس بات کے اجازت نہیں تھی کہ وہ دوسرے کے بستر پر بیٹھ سکے، اس کے برتن الگ کردیئے جاتے تھے، شادی بیاہ یا کسی خوشی کی تقریب میں بیوہ عورت کی شرکت منحوس سمجھی جاتی تھی، یہی وہ حالات اور اسباب تھے کہ جن کے پیش نظر وہ ایسی ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتی تھی، اور مذہبی ٹھیکیداروں نے اسے مذہبی تقدس کا نام دے رکھا تھا، اور جو عورت حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے شوہر کے ساتھ اس کی چتا میں جل جاتی تھی اس کو شوہر کی باوفا ( پتی ور تا پتنی) شمار کیا جاتا تھا۔ نافرمان بیوی اور اس کی اصلاح کا طریقہ : قرآن کریم نے ان کی اصلاح کے تین طریقہ بیان فرمائے ہیں، وَاللّٰتی تخافون نُشُوزَ ھُنَّ فعِظُو ھُنّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِی المَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ، یعنی عورتوں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو، تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاؤ اور اگر وہ محض سمجھانے سے باز نہ آئین تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر الگ کردو تاکہ ان کو شوہر کی ناراضگی کا احساس ہو اور اپنے فعل پر نادم ہوں فی المضاجع، کے لفظ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو نہ کہ مکان میں، قومہ اس میں عورت کو رنج بھی زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی نہ بڑھے گا۔ جو عورت شریفانہ تنبیہ سے متاثر نہ ہو تو پھر معمولی ضرب تادیبی کی بھی اجازت ہے جس سے اس کے بدن پر نشان نہ پڑے، اور چہرہ پر مارنے سے مطلقا منع فرمایا، ہلکی تادیبی ما کی اگرچہ اجازت ہے مگر اس کے ساتھ ہی حدیث میں ارشاد ہے وَلَنْ یَّضْرِبَ خِیَارُ کُمْ ، بھلے مرد عورتوں کو مار کی سزا نہ دیں۔ آیت مذکورہ کا شان بزول : زید بن زبیر نے اپنی لڑکی حبیبہ کا نکاح حضرت سعد بن ربیع سے کردیا تھا آپسی کسی نزاع سے حضرت سعد نے حبیبہ کو ایک طمانچہ مار دیا حبیبہ نے اپنے والد سے شکایت کی والد ان کو لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے حکم دیا کہ حبیبہ کو حاصل ہے کہ جس زور سے سعد نے ان کو طمانچہ مارا ہے وہ بھی اتنی ہی زور سے ان کو طمانچہ ماریں۔ یہ دونوں حکم نبوی سنکر انتقام کے ارادہ سے چلے اسی وقت آیت مذکورہ نازل ہوئی، آنحضرت نے ان دونوں کو واپس بلوا کر حق تعالیٰ کا حکم سنایا اور انتقام لینے کا پہلا حکم منسوخ فرمادیا۔ اصلاح کا ایک چوتھا طریقہ : اگر گھر کے اندر مذکورہ تینوں طریقے کار گر ثابت نہ ہوں تو چوتھا طریقہ ہے حکمین اور زوجین اصلاح کے سلسلہ میں مخلص ہوں گے تو یقینا ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی، تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین کا اختیار ہے یا نہیں اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ فقہاء میں سے ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ ثالث فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے البتہ تصفیہ کی جو صورت ان کے نزدیک مناسب ہو اس کے لئے سفارش کرسکتے ہیں ماننا یا نہ ماننا زوجین کے اختیار میں ہے، ہاں البتہ اگر زوجین نے ان کو طلاق یا خلع یا کسی اور امر کا فیصلہ کرنے کا وکیل بنایا ہو تو البتہ ان کا فیصلہ تسلیم کرنا زوجین کے لئے واجب ہوگا، یہ حنفی اور شافعی علماء کا مسلک ہے، دوسرے فقہاء کا قول ہے، ایک تیسرا فریق ہے جس کا قول ہے کہ ان پنچوں کو ملانے اور جدا کرنے کے پورے اختیارات ہیں، یہ ابن عباس ؓ سعید بن جبیر وغیرہ کی رائے ہے۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی نظیر : حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ کے فیصلوں کی نظیریں جو معلوم ہوئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات پنچ مقرر کرتے ہوئے عدالت کی طرف سے ان کو حاکمانہ اختیار دیدیا کرتے تھے، چناچہ عقیل بن ابی طالب اور ان کی بیوی فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ کا مقدمہ جب حضرت عثمان ؓ کی عدالت میں پیش ہوا تو انہوں نے شوہر کے خاندان میں سے حضرت ابن عباس ؓ کو اور بیوی کے خاندان میں سے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو مقرر کیا اور ان سے کہا کہ اگر آپ دونوں کی رائے میں ان کے درمیان تفریق کردینا ہی مناسب ہو تو تفریق کردیں، اسی سے طرح ایک مقدمہ میں حضرت علی ؓ حاکم مقرر کئے گئے اور ان کو اختیار دیا چاہیں لادیں اور چاہیں جدا کردیں، اس سے معلوم ہوا کہ پنچ بطور خود تو عدالتی فیصلے کی طرح نافذ ہوگا۔ قولہ : والجَارِ الجُنُبِ یہ جملہ قرابتدار پڑوسی کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے ایسا پڑوسی کہ جو قرابتدار نہ ہو، مطلب یہ کہ پڑوسی سے بحیثیت پڑوسی کے سلوک کیا جائے خواہ رشتہ دار ہو یا نہ ہو، احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ قولہ : والصّاحب بالجَنْبِ ، اس سے مراد رفیق سفر اور شریک کار اور بیوی نیز وہ شخص ہے جو فائدہ کی امید پر کسی کی قربت یا ہمنشینی اختیار کرے۔ فخروغرور اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے، حدیث شریف میں یہاں تک آیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائیگا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھہ تکبر ہوگا۔ (صحیح مسلم کتاب الا یمان ) جو چیزیں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حائل ہوتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ مہلک خودبینی اور خود پسندی نیز نمائش اور حب جاہ۔ فخر و غرور کے بعد تیسرا بڑا مانع بخل ہے مالی بخل کا مراد ہونا ظاہر ہی ہے دولت علم دین میں بخل کو بھی حضرات نے اسی میں داخل کیا ہے۔ اللہ کے فضل کو چھپانے کی صورت : یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کو چھپانا ہے کہ آدمی اسطرح رہے کہ گویا اللہ نے اس پر فضل نہیں کیا ہے مثلا اللہ نے کسی کو دولت دی ہو اور وہ اپنی حیثیت سے گر کررہے نہ اپنی ذات پر اور نہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے اور نہ بندگان خدا کی مدد کرے نہ نیک کاموں میں حصہ لے لوگ دیکھ کر سمجھیں کہ بیچارہ بڑا خستہ حال ہے، یہ دراصل نعمت کی ناشکری ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا '' اِنّ اللہ اذَااَنْعَمَةً علی عَبْدٍ اَحَبَّ ان یَظھَرَ اَثَرُھا علَیْہِ '' اللہ جب بندے کو نعمت دیتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو، یعنی اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس اور مسکین اور اس کی دادودہش ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا ہے۔
Top