Tafseer-e-Jalalain - Hud : 111
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آوازیں نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ انکو راستہ دکھا سکتا ہے ؟ اسکو انہوں نے (معبود) بنا لیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا۔
آیت نمبر 148 تا 151 ترجمہ : اور موسیٰ کی قوم (بنی اسرائیل) نے موسیٰ کے مناجات کیلئے جانے کے بعد ان زیورات سے جن کو وہ فرعون کی قوم (قبطیوں) سے شادی کے بہانے عاریۃً لے آئے تھے، پھر وہ ان ہی کے پاس رہ گئے تھے، گوشت پوست (خون) کے بچھڑے کا ایک پتلا (معبود) سامری نے ان کیلئے اس زیور کا بنادیا، جَسَدًا، عجلاً سے بدل ہے معنی میں گوشت اور خون کے ہے اس کی بیل کے جیسی آواز تھی جو سنی جاتی تھی، اس طرح قلب ماہیت پتلے کے منہ میں اس مٹی کے ڈالنے کی وجہ سے ہوگئی جس کو سامری نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدم کے نیچے سے لے لیا تھا، اس مٹی کا اثر زندگی ہر اس شئ پر ظاہر ہوتا تھا، جس میں وہ ڈالدی جاتی، اتخذ کا مفعول محذوف ہے اور وہ اِلٰھاً ہے، کیا انھیں نظر نہیں آتا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے ؟ نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے اس کو کس طرح معبود بنایا جاسکتا ہے، مگر پھر بھی انہوں نے اس کو معبود بنا لیا، اس کو معبود بنا کر بڑی ناانصافی کا کام کیا، اور جب وہ بچھڑے کی بندگی پر نادم ہوئے اور ان کی سمجھ میں آگیا کہ وہ درحقیقت اس کی وجہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ موسیٰ (علیہ السلام) کے واپس آنے کے بعد ہوا، تو کہنے لگے، اگر ہمارے رب نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم یقیناً زیاں کاروں میں ہوجائیں گے، اور (ادھر) جب موسیٰ (علیہ السلام) ان پر غصے اور شدید غم میں بھرے ہوئے اپنی قوم کی طرف واپس ہوئے تو ان سے فرمایا تم لوگوں نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تمہاری یہ جانشینی کہ تم شرک میں مبتلا ہوئے کیا تم سے اتنا صبر نہ ہوسکا کہ اپنے رب کے حکم کا انتظار کرلیتے ؟ اور جلدی سے تختیاں ایک طرف رکھیں، (یعنی) خدا کے لئے غصہ میں تورات کی تختیاں (ایک طرف رکھ دیں) جو ٹوٹ گئیں، اور اپنے بھائی کے سر کے بال دائیں ہاتھ سے اور ان کی داڑھی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر غصہ میں اپنی طرف کھینچتے (ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے بھائی ان لوگوں نے مجھے کمزور پایا (یعنی مجھے دبا لیا) اور قریب تھا کہ مجھے قتل کر ڈالیں پس تم اپنی طرف سے میری توہین کرکے دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دو ، اور مجھ کو بچھڑے کی بندگی کرنے کی وجہ سے مواخذہ میں ظالم لوگوں میں شمار نہ فرمائیں، (موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کیا اسے معاف فرما اور میرے بھائی کو معاف فرما، دعاء میں اپنے بھائی کو ان کو خوش کرنے اور دشمنوں کی خوشی کو دفع کرنے کیلئے شریک کرلیا، اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : حُلِیِّھم، حُلِیُّ ، حَلْیٌ کی جمع ہے، جیسا کہ ثُدِیٌّ ثَدْیٌ کی جمع ہے، حُلِیٌّ اصل میں حُلُوْیٌ تھا، واو اور یاء ایک جگہ جمع ہوئے ساکن واؤ کو یاء کو یاء میں ادغام کردیا، اور یاء کی رعایت سے لام کے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا، حُلِیٌّ ہوگیا۔ قولہ : صَاغَہٗ لھم السامریُ ، سامریُ صاغ کا فاعل ہے اور ہٗ ضمیر عجلاً کی طرف راجع ہے لھم کی ضمیر قوم کی طرف راجع ہے اور منہ کی ضمیر سونے کے زیورات کی طرف راجع ہے، مطلب یہ ہے کہ سامری نے سونے کے زیورات سے قوم بنی اسرائیل کیلئے ایک بچھڑا ڈھال دیا۔ تنبیہ : جلالین کے نسخوں میں صَاغہٗ کے بجائے صَاغَھُمْ ہے جو زلت قلم معلوم ہوتی۔ قولہ : جسداً ، بَدَلٌ۔ سوال : عَجَلاً کا بدل جسدًا لانے کی کیا ضرورت پیش آئی ؟ جواب : اس بدل سے یہ شبہ دور کر ہوسکتا ہے عجل نقش علی الحائط کے طور پر بنایا ہو اور جب اس کا بدل جسدًا آگیا تو معلوم ہوا گیا پتلا بنایا تھا نہ کی نقش بر دیوار۔ قولہ : لحمًا ودمًا اس میں اشارہ ہے کہ یہ بچھڑا حقیقی بچھڑے کے مانند گوشت پوست اور خون وغیرہ سے مرکب تھا، (مگر یہ تفسیر مرجوع ہے) ۔ قولہ : ومَفْعُولُ اِتَّخَذَ الثَّانِی مَحْذُوْفٌ ای اِلٰھاً اس میں اشارہ ہے کہ اتخذ بمعنی صَنَعَ نہیں ہے کہ ایک مفعول پر اقتصار جائز ہو اسلئے کہ مطلق صنع اس کو معبود بنائے بغیر سزائے مذکور کا مستحق نہیں ہوسکتا لہٰذا اخذ کا مفعول ثانی جو کہ الٰھا ہے محذوف ہے۔ قولہ : ای نَدِمُوْا، ولَمَّا سُقِطَ فِیْ اَیْدِیھم، محاورہ میں اس کے معنی نادم ہونے کے ہیں، سُقِطَ فِیْ اَیْدِیھم، ای ندموا، (جوھری) تَقُوْلُ ، العرب لکل نادم علی امر، قد سُقِطَ فی یدہٖ (معالم) ۔ قولہ : بئسَ خلافۃً یہ بئسَما میں ما نکرہ کی تمیز ہے۔ قولہ : خ۔ فْتُمُوْنِی ھَا۔ سوال : ھا، مقدر ماننے کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب : یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ ما، موصولہ یا موصوفہ ہے اور خلفتمونی اس کا صلہ یا صفت ہے حالانکہ صلہ اور صفت جب جملہ ہو تو عائد کا ہونا ضروری ہوتا ہے، ھا، مقدر مان کر اشارہ کردیا کہ عائد محذوف ہے۔ قولہ : خِلاَفَتُکُم ھٰذِہٖ ، یہ مخصوص بالذم محذوف ہے۔ قولہ : غضبًا لربّہ یہ غضب ممنوع سے اعتذار ہے، یعنی مطلقاً غضب ممنوع ہے مگر اللہ کیلئے عداوت محبوب ہے کہا جاتا ہے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ خدا ہی کیلئے محبت اور خدا ہی کے لئے عداوت۔ قولہ : ذِکْرُھَا اَعْطفُ لِقَلْبِہٖ ، یہ اس سوال کا جواب ہے کہ، یا بن اُمّ ، سے معلوم ہوتا ہے حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی نہیں ہیں، حالانکہ دونوں حقیقی بھائی ہیں، اس کا جواب دیا کہ ماں جائے کہنا دل کو زیادہ نرم کرنے والا ہے بہ نسبت اس کے عکس کے یعنی یا ابن ام میں زیادہ قربت و شفقت معلوم ہوتی ہے بہ نسبت یا بن ابی کے۔ تفسیر و تشریح واتخذ قوم۔۔۔۔ لہ خوار، یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا کی طلبی پر کوہ سینا پر گئے ہوئے تھے، اور حضرت موسیٰ تیس دن میں واپسی کا وعدہ کرکے گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے مزید دس دن کا اضافہ فرما دیا، قوم بنی اسرائیل پہاڑ کی تلیٹی میں میدان راحہ میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ابھی موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور ہی پر تھے کہ پیچھے سامری نامی ایک شخص نے جسکا نام بھی موسیٰ تھا اور منافق تھا قوم کا سونا جمع کرکے ایک زرین گؤ سالہ بنا لیا جس میں اس نے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے سم کے نیچے کی مٹی ڈالدی، اس معبود زریں کی یہ کیفیت تھی یہ وہ محض ایک جسد تھا بےجان، ایک قالب تھا بےروح، ایک جسم تھا نے حیات، اس سے ایک آواز نکلتی تھی بچھڑے کی آواز کے مشابہ، کہتے ہیں کہ اس مٹی کے اثر سے اس میں کچھ حیات کے آثار نمودار ہوگئے تھے جس کی وجہ سے وہ بھیں بھیں کرنے لگا تھا، نہ اس میں حس تھی اور نہ حرکت، ایسی آواز تو مٹی کے کھلونوں میں بھی معمولی صنعت گری سے پیدا ہوجاتی ہے، آجکل صنعتی اور تکنیکی دور میں تو کھلونے نہ صرف مختلف قسم کی آواز نکلالتے ہیں بلکہ عجیب و غریب حرکت بھی کرتے اور چلتے پھرتے ہیں مطلب یہ کہ وہ زرین بچھڑا واقعی جاندار نہیں تھا بعض محققین نے اسکی صراحت کی ہے کان۔۔۔۔۔ منہ صوت (معالم) بعض مفسرین نے یہاں ایک بحث یہ چھیڑ دی ہے کہ یہ بچھڑا حرکت بھی کرتا تھا یا نہیں اللہ جزائے خیر عطا فرمائے صاحب روح المعانی کو کہ انہوں نے یہ خوب لکھ دیا کہ لیست ہذہ المسئلہ من المہمات، یہ سرے سے کوئی اہم بات ہی نہیں، سامری نے اس بچھڑے کے ذریعہ بنی اسرائیل کو گمراہ کردیا اور قوم کو یہ سمجھا دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں اور معبود یہاں آگیا ہے۔ سقط فی ایدیھم، یہ عربی محاورہ ہے اس کے معنی نادم ہونا ہے، یہ ندامت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو زجر و توبیخ کی جیسا کہ سورة توبہ میں ہے یہاں اسے مقدم اس لئے کردیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول جمع ہوجائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر دیکھا کہ قوم گؤ سالہ پرستی میں لگی ہوئی ہے تو سخٹ غضبناک ہوئے، گو بنی اسرائیل کے گمراہ ہوجانے کی خبر بذریعہ وحی پہاڑہی پر دیدی گئی تھی، مگر جب اپنی نظروں سے قوم کی گمراہی کو دیکھا تو دینی غیرت اور ایمانی حرارت بھڑک اٹھی اور بےخودی کی کیفیت میں تورات کی تختیاں جو کوہ طور سے اپنے ہمراہ لائے تھے عجلت میں اس طور پر رکھیں کہ دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے نیچے پھینک دیں، جس کے لئے قرآن نے القیٰ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی ڈال دینے کے ہیں اور اگر ڈال بھی دیں ہوں تو اس میں بےادبی کی کوئی بات نہیں اسلئے کہ وہ واقعہ دینی حمیت اور غیرت کی وجہ سے بےخودی اور بےاختیاری کے عالم میں پیش آیا۔ فائدہ : حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی تھے لیکن یہاں حضرت ہارون (علیہ السلام) نے ماں جائے اسلئے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عذر : حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنا یہ عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ اپنی قوم کو شرک میں مبتلا ہونے سے باز رکھنے میں ناکام رہے، حضرت ہارون (علیہ السلام) فرماتے ہیں، اے میرے پیارے ماں جائے بھائی میری بات تو سن لیجئے، میں نے تو اپنی والی بہت کوششیں کی لیکن یہ ظالم و سرکش جب خدا کے خلاف گردن کشی میں باک نہیں رکھتے ؟ تو میری پرواہ کب کرتے ؟ میری ایک نہ چلی اور جب میں نے زیادہ روک ٹوک کرنی چاہی تو بغاوت پر آمادہ ہوگئے، میری جان بچ گئی یہی بہت ہے۔ توریت میں حضرت ہارون (علیہ السلام) پر گو سالہ سازی کا الزام : کہاں عصمت انبیاء کا یہ قرآنی مقام اور کہاں توریت کی تصریحات کہ اس بت پرستی کے بانی اور باعث ہی معاذ اللہ حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے۔ قرآن کی براءت : یہاں قرآن نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کی ایک بہت بڑے الزام سے براءت کی ہے جس کو یہود نے زبردستی حضرت ہارون (علیہ السلام) پر چسپاں کر رکھا تھا بائبل میں بچھڑے کی پرستش کا واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ جو موسیٰ کو پہاڑ سے اترنے میں دیر لگی تو بنی اسرائیل نے بےصبر ہو کر حضرت ہارون سے کہا کہ ہمارے لئے ایک معبود بنادو اور حضرت ہارون نے ان کی فرمائش کے مطابق سونے کا ایک بچھڑا بنادیا، جسے دیکھتے ہی بنی اسرائیل پکار اٹھے کہ اے بنی اسرائیل یہی تیرا وہ خدا ہے جو تجھے ملک مصر سے نکال لایا ہے پھر حضرت ہارون نے اس کیلئے ایک قربان گاہ بنائی اور اعلان کرکے دوسرے روز تمام بنی اسرائیل کو جمع کیا اور اس کے آگے قربانیاں چڑھائیں۔ (خروج باب 32 آیت 1۔ 6) قرآن مجید میں متعدد جگہ پر اس غلط بیانی کی تردید کی گئی ہے۔ یہاں بھی گؤسالہ سازی اور گؤسالہ پرستی کی نسبت بنی اسرائیل کی طرف کرتے ہوئے فرمایا ” وَاتخذ قوم موسیٰ من حلیھم عجلاً جسدًا لَہٗ خُوار “۔ بظاہر یہ بات بڑی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل جن لوگوں کو پیغمبر مانتے ہیں ان میں کسی کو انہوں نے داغدار کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے اور دماغ بھی ایسے سخت لگائے ہیں جو اخلاق و شریعت کی نگاہ میں بدترین جرائم شمار ہوتے ہیں مثلاً شرک، جادوگری، زنا، جھوٹ، دغا بازی اور ایسے دوسرے شدید معاصی جن سے آلودہ ہونا پیغمبر تو درکنار ایک معمولی مومن اور شریف انسان کے لئے بھی سخت شرمناک ہے، یہ بات بجائے خود بڑی عجیب ہے لیکن بنی اسرائیل کی اخلاقی تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الحقیقت اس قوم کے معاملہ میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے یہ قوم جب اخلاقی و مذہبی انحطاط میں مبتلا ہوئی اور عوام سے گزر کر ان کے خواص تک کہ حتی کہ علماء و مشائخ اور دینی منصب داروں کو بھی گمراہیوں اور بداخلاقیوں کا سیلاب بہالے گیا تو ان کے مجرم ضمیر نے اپنی اس حالت کیلئے عذر تراشنے شروع کئے اور اسی سلسلہ میں انہوں نے وہ تمام جرائم جو خود کرتے تھے انبیاء (علیہ السلام) کی طرف منسوب کر ڈالے تاکہ یہ کہا جاسکے کہ جب نبی تک ان چیزوں سے نہ بچ سکے تو بھلا اور کون بچ سکتا ہے، اس معاملہ میں یہودیوں کا حال ہندؤں سے ملتا جلتا ہے ہندؤں میں بھی جب اخلاقی انحطاط انتہاء کو پہنچ گیا تو وہ لڑیچر تیار ہوا جس میں دیوی دیوتاؤں کی، رشیوں، مینوں اور اوتاروں کی، غرض جو بلند کردار آئیڈیل (نمونے) قوم کے سامنے ہوسکتے تھے ان سب کی زندگیاں بداخلاقی کے تارکول سے سیاہ کر ڈالی گئیں تاکہ یہ کہا جاسکے کہ جب ایسی ایسی عظیم ہستیاں ان قبائح میں مبتلا ہوسکتی ہیں تو بھلا ہم معمولی انسان ان میں مبتلا ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں۔
Top