Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
موسیٰ کے پیچھے 106اس کی قوم کےلوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پُتلا بنایا جس میں سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ کیا اُنہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی اُنہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔107
سورة الْاَعْرَاف 106 یعنی ان چالیس دنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ ؑ اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدان الرَّاحَہ میں ٹھیری ہوئی تھی۔ سورة الْاَعْرَاف 107 یہ اس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہوچکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ۔ یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا، فرعون کا غرق ہونا، ان لوگوں کا بخیریت اس بند غلامی سے نکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی امید نہ تھی، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے، کسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرائیل نے اپنی قوم کو اس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بےوفائی سے نہ چوکی ہو۔
Top