Kashf-ur-Rahman - Al-Ankaboot : 11
وَ مَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْۤا اِذْ جَآءَهُمُ الْهُدٰى وَ یَسْتَغْفِرُوْا رَبَّهُمْ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا
وَمَا مَنَعَ : اور نہیں روکا النَّاسَ : لوگ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا : کہ وہ ایمان لائیں اِذْ جَآءَهُمُ : جب آگئی ان کے پاس الْهُدٰى : ہدایت وَيَسْتَغْفِرُوْا : اور وہ بخشش مانگیں رَبَّهُمْ : اپنا رب اِلَّآ : بجز اَنْ : یہ کہ تَاْتِيَهُمْ : ان کے پاس آئے سُنَّةُ : روش (معاملہ) الْاَوَّلِيْنَ : پہلوں کی اَوْ : یا يَاْتِيَهُمُ : آئے ان کے پاس الْعَذَابُ : عذاب قُبُلًا : سامنے کا
اور جب وقت لوگوں کے پاس ہدایت آچکی تو ان کو ایمان لانے اور اپنے رب سے بخشش طلب کرنے سے بجز اس انتظار کے اور کوئی مانع نہیں رہا کہ ان کو بھی گزشتہ لوگوں کا سا معاملہ پیش آئے یا عذاب آخرت ان کے روبرو آموجود ہو۔
-55 اور لوگوں کے پاس جس وقت ہدایت آچکی تو ہدایت آجانے کے بعد ان کو ایمان لانے اور اپنے پروردگار سے استغفار کرنے اور بخشش طلب کرنے سے کوئی امر مانع نہیں رہا سوائے اس انتظار کے کہ ان لوگوں کو بھی گزشتہ لوگوں کی طرح کا معاملہ پیش آئے یا یہ کہ عذاب آخرت ان کے روبرو آموجود ہو اور عذاب ان کے سامنے آجائے۔ یعنی ہدایت کا مقتضایہ تھا کہ ہدایت آنے کے بعد ایمان لے آتے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو پہلی قوموں کے ساتھ جو معاملہ ہلاکت وغیرہ کا ہو اور وہ ان کے ساتھ بھی ہو اس عذاب استیصال کا انتظار کر رہے ہیں یا شاید اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ عذاب الٰہی ان کے سامنے آکھڑا ہو۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی کچھ اور انتظار نہیں رہا مگر یہی کہ پہلوں کی طرح ہلاک ہو ویں یا قیامت کا عذاب آنکھوں سے دیکھیں۔ 12 خلاصہ یہ کہ ہدایت کے آجانے کے بعد ایمان لانے سے کوئی امر مانع تو رہا نہیں بجز اس کے کہ پہلی نافرمان قوموں کی طرح عذاب میں مبتلا کردیئے جائیں یا قیامت کے عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں جب شاید مانیں تو گویا ان دونوں باتوں میں سے کسی ایک بات کے وقوع کا انتظار ہے۔
Top