Tafseer-e-Haqqani - Al-Ankaboot : 11
وَ لَیَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ
وَلَيَعْلَمَنَّ : اور البتہ ضرور معلوم کریگا اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَيَعْلَمَنَّ : اور البتہ ضرور معلوم کریگا الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق (جمع)
اور البتہ اللہ ایمان داروں کو جانچ لے گا اور منافقوں کو بھی
ترکیب : الذین امنوا یعلمن کا مفعول اتبعوا الخ مقولہ ہے قال الذین کفروا کا ولنحمل عطف علی اتبعوا وار ادوا یجمع ہذان الامران فی الحصول ان تتبعوا طریقننا و ان نحمل خطایا کم نظیرہ لیکن منک العطاء و لیکن منی الدما انہم لکاذبون فی اخیار حمل الخطایاوان صدر فلک بلفظ الامر۔ وعندی اذا کان الوعدمن غیر صمیم القلب السمی ھذا فی العرف بالکذب فعلی ھذا لاینحصر لکذب فی الاخبار بل قدیکون فی الامنشاء وھم ظلمون حال من ضمیرھم فی اخذھم۔ تفسیر : ولیعلمن اللہ الذین امنوا ولیعلمن المنفقین یہ کلام سابق کا تتمہ ہے کہ وہ جو ایسی باتیں بناتے ہیں اللہ پر کوئی بات مخفی نہیں، وہ دلوں کے راز جانتا ہے اور آیندہ مومن اور منافق کا پورا امتیاز ہوجاوے گا۔ اللہ کو ہر چیز کا ہمیشہ سے علم ہے، پھر یہ جو قرآن میں آیا کرتا ہے تاکہ اللہ جان جاوے اور اللہ جان جاوے گا وغیرہ تو اس سے علم تفصیلی مراد ہے ؟ ایک حادثہ اور تجربہ کے بعد اس شخص کو بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ جس کا یہ معاملہ ہے اور لوگ بھی جان لیتے ہیں کہ اس کے الزام کے لیے بھی اس پر حجت ہوا کرتا ہے۔ یہاں یہ کلام ہوسکتا ہے کہ یہ سورة مکیہ ہے اور مکہ میں یا کافر تھے یا مومن منافق کہاں تھے ؟ منافق یعنی دل میں کافر ظاہر میں مومن یا کسی لالچ پر ہوتے ہیں یا کسی خوف سے اور مکہ میں تو اہل اسلام کی طرف سے کوئی توقع نفع کی تھی اور نہ کچھ خوف تھا، کیونکہ خود مسلمان مصیبت میں تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کسی شخص کا واقعہ نہیں بلکہ ایک تمثیل ہے کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ زبان سے ایمان ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں کی تکلیف سے ایسا ڈرتے ہیں کہ جیسا اللہ کے عذاب 1 ؎ سے ڈرتے ہیں اور راحت کے وقت ایمانداروں کے ساتھ رہنا بیان کرتے ہیں، یا یوں کہو کہ یہ پیشین گوئی ہے کہ ایسے لوگ بھی اسلام میں آویں گے چناچہ مدینہ میں آکر یہ بات پیش آئی اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اسلام میں فتوحات پیش آویں گی، حال کی مصیبت سے نہ ڈرو۔ وقال الذین کفروا سے ان ظالم کافروں کی ایک اور ڈھٹائی بیان فرماتا ہے۔ وہ کمبخت کافر بےکس مسلمانوں کو ازحد ستاتے تھے، اس پر ان سے یہ کہتے تھے کہ تم یہ تکالیف کس لیے اٹھاتے ہو، کس لیے اسلام نہیں چھوڑ دیتے ؟ وہ کہتے تھے کہ ہم اپنے اس گناہ سے ڈرتے ہیں، آخرت کا خوف ہے، اس کے جواب میں وہ کہتے تھے اجی تم چھوڑو دنیا کے مزے اڑاؤ تمہارے گناہ ہم اٹھالیں گے (چنانچہ آج کل فساق ایک دوسرے کو یہی کہہ کر گناہ پر آمادہ کیا کرتے ہیں کہ میری قسم شراب کی پیالی پی لو تمہارا گناہ ہمارے سر پر ‘ تمہارے عوض ہم عذاب اٹھالیں گے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وما ھم بحاملین من خطیہم من شیئٍ کہ وہ ان کا کوئی گناہ بھی نہ اٹھاسکیں گے وہ اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں، اول تو دار آخرت کی تکلیف پر کوئی اپنی تکلیف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چہ جائیکہ دوسرے کی تکلیف اور خدا تعالیٰ کا عدل کب مقتضی ہے کہ کسی کے گناہوں پر کسی اور سے مطالبہ کرے، البتہ وہ لیحملن اثقالہم اپنے گناہوں کا بار اٹھا ویں گے واثقالا مع اثقالہم اور اس کے ساتھ اپنی اس دلیری اور ان کے بہکانے کا بھی بار گناہ اٹھاویں گے اور ان کی اس افتراء پر دازی سے قیامت کو باز پرس ہوگی کہ تم کس جرأت اور بےباکی سے ایسی باتیں بناتے تھے ؟ اول سورة میں فرمایا تھا کہ تم سے پہلے لوگ بھی دینداری کے سبب بہت کچھ ستائے گئے ہیں۔ اب اس کی تصدیق کے لیے حضرت نوح ( علیہ السلام) کا حال بیان فرماتا ہے، فقال تعالیٰ ولقد ارسلنا نوحا الی قوم الخ کہ ہم نے نوح ( علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا، پھر وہ اس میں ساڑھے نو سو برس 1 ؎ تک رہا، بہت کچھ وعظ و پند کیا مگر نہ مانا اور نوح ( علیہ السلام) کو اور ان کے ساتھ چند ایمانداروں کو وہ وہ تکلیفیں دیں کہ جو بیان سے باہر ہیں۔ آخرکار فاخذھم الطوفان الخ ان کو طوفان نے آلیا اور وہ اس وقت تک ویسے ہی بدکار تھے اور ہم نے نوح ( علیہ السلام) کو اور اس کے ساتھ جو کشتی میں تھے بیوی بیٹے اور چند دینداروں کو بچالیا اور قرنوں تک اس کشتی کو اپنی قدرت کا نمونہ دکھانے کے لیے باقی رہنے دیا کہ دیکھ کر لوگ عبرت پکڑیں اور اس عہد کو یاد کریں اور اپنی سرکشی سے باز آویں، اس میں کفار مکہ کی طرف روئے سخن ہے کہ غرہ نہ ہونا جس طرح قوم نوح کو ہلاک کیا تم بھی ایک روز گرداب بلا میں آجاؤ گے۔ 1 ؎ جل فتنۃ الناس کعذاب اللہ کے یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کبعب اس کو دنیا میں اسلام پر کوئی تکلیف پہنچتی ہے کسی ظالم کی طرف سے تو اس کو وہ اللہ کی طرف کا عذاب سمجھ کر اسلام سے پھرجاتا ہے یعنی اسلام کو نامبارک سمجھتا ہے۔ 12 منہ
Top