Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - An-Noor : 31
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآئِهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآئِهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ١۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ١ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
وَقُلْ
: اور فرما دیں
لِّلْمُؤْمِنٰتِ
: مومن عورتوں کو
يَغْضُضْنَ
: وہ نیچی رکھیں
مِنْ
: سے
اَبْصَارِهِنَّ
: اپنی نگاہیں
وَيَحْفَظْنَ
: اور وہ حفاظت کریں
فُرُوْجَهُنَّ
: اپنی شرمگاہیں
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: زپنی زینت
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو
ظَهَرَ مِنْهَا
: اس میں سے ظاہر ہوا
وَلْيَضْرِبْنَ
: اور ڈالے رہیں
بِخُمُرِهِنَّ
: اپنی اوڑھنیاں
عَلٰي
: پر
جُيُوْبِهِنَّ
: اپنے سینے (گریبان)
وَلَا يُبْدِيْنَ
: اور وہ ظاہر نہ کریں
زِيْنَتَهُنَّ
: اپنی زینت
اِلَّا
: سوائے
لِبُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے خاوندوں پر
اَوْ
: یا
اٰبَآئِهِنَّ
: اپنے باپ (جمع)
اَوْ
: یا
اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: اپنے شوہروں کے باپ (خسر)
اَوْ اَبْنَآئِهِنَّ
: یا اپنے بیٹے
اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ
: یا اپنے شوہروں کے بیٹے
اَوْ اِخْوَانِهِنَّ
: یا اپنے بھائی
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ
: اپنے بھائی کے بیٹے (بھتیجے)
اَوْ
: یا
بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ
: یا اپنی بہنوں کے بیٹے (بھانجے)
اَوْ نِسَآئِهِنَّ
: یا اپنی (مسلمان) عورتیں
اَوْ مَا مَلَكَتْ
: یا جن کے مالک ہوئے
اَيْمَانُهُنَّ
: انکے دائیں ہاتھ (کنیزیں)
اَوِ التّٰبِعِيْنَ
: یا خدمتگار مرد
غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ
: نہ غرض رکھنے والے
مِنَ
: سے
الرِّجَالِ
: مرد
اَوِ الطِّفْلِ
: یا لڑکے
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
لَمْ يَظْهَرُوْا
: وہ واقف نہیں ہوئے
عَلٰي
: پر
عَوْرٰتِ النِّسَآءِ
: عورتوں کے پردے
وَلَا يَضْرِبْنَ
: اور وہ نہ ماریں
بِاَرْجُلِهِنَّ
: اپنے پاؤں
لِيُعْلَمَ
: کہ جان (پہچان) لیا جائے
مَا يُخْفِيْنَ
: جو چھپائے ہوئے ہیں
مِنْ
: سے
زِيْنَتِهِنَّ
: اپنی زینت
وَتُوْبُوْٓا
: اور تم توبہ کرو
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کی طرف ( آگے)
جَمِيْعًا
: سب
اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ
: اے ایمان والو
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: فلاح (دوجہان کی کامیابی) پاؤ
اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچی رکھیں ذرا اپنی آنکھیں اور تھامتی رہیں اپنے ستر کو اور نہ دکھلائیں اپنا سنگار مگر جو کھلی چیز ہے اس میں سے اور ڈال لیں اپنی اوڑھنی اپنے گریبان پر اور نہ کھولیں اپنا سنگار مگر اپنے خاوند کے آگے یا اپنے باپ کے یا اپنے خاوند کے باپ کے یا اپنے بیٹے کے یا اپنے خاوند کے بیٹے کے یا اپنے بھائی کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی عورتوں کے یا اپنے ہاتھ کے مال کے یا کاروبار کرنے والوں کے جو مرد کہ کچھ غرض نہیں رکھتے یا لڑکوں کے جنہوں نے ابھی نہیں پہچانا عورتوں کے بھید کو اور نہ ماریں زمین پر اپنے پاؤں کو کہ جانا جائے جو چھپاتی ہیں اپنے سنگار اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب ملکر اے ایمان والو ! تاکہ تم بھلائی پاؤ۔
غیر محرم کی طرف نظر کرنا حرام ہے اس کی تفصیل
وَقُلْ لِّلْمُؤ ْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ الایة اس طویل آیت کے ابتدائی حصہ میں تو وہی حکم ہے جو اس سے پہلی آیت میں مردوں کو دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں پست رکھیں یعنی نگاہ پھیر لیں۔ مردوں کے حکم میں عورتیں بھی داخل تھیں مگر ان کا ذکر علیحدہ تاکید کے لئے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو اپنے محارم کے سوا کسی مرد کو دیکھنا حرام ہے بہت سے علماء کا قول یہ ہے کہ غیر محرم مرد کو دیکھنا عورت کے لئے مطلقاً حرام ہے خواہ شہوت اور بری نیت سے دیکھے یا بغیر کسی نیت و شہوت کے، دونوں صورتیں حرام ہیں اور اس پر حضرات ام سلمہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ ایک روز ام سلمہ اور میمونہ دونوں آنحضرت ﷺ کے ساتھ تھیں اچانک عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا صحابی آگئے اور یہ واقعہ احکام حجاب نازل ہونے کے بعد پیش آیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں کو حکم دیا کہ ان سے پردہ کرو۔ ام مسلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، وہ تو نابینا ہیں نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں نہ ہمیں پہچانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو ان کو دیکھ رہی ہو (رواہ ابو داؤد والترمذی وقال الترمذی حدیث حسن صحیح) اور دوسرے بعض فقہاء نے کہا کہ بغیر شہوت کے غیر مرد کو دیکھنے میں عورت کے لئے مضائقہ نہیں۔ ان کا استدلال صدیقہ عائشہ کی اس حدیث سے ہے جس میں مذکور ہے کہ مسجد نبوی کے احاطہ میں کچھ حبشی نوجوان عید کے روز اپنا سپاہیانہ کھیل دکھا رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ اس کو دیکھنے لگے اور صدیقہ عائشہ نے آپ کی آڑ میں کھڑے ہو کر ان کا کھیل دیکھا اور اس وقت تک دیکھتی رہیں جب تک کہ خود ہی اس سے اکتا گئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے نہیں روکا اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ نظر شہوت تو حرام ہے اور بلا شہوت نظر کرنا بھی خلاف اولی ہے اور ایک عورت کو دوسری عورت کے مواضع ستر کو دیکھنا بغیر خاص ضرورتوں کے یہ بھی اسی آیت کے الفاظ سے حرام ہے کیونکہ جیسا اوپر بیان ہوچکا ہے کہ موضع ستر یعنی مردوں کا ناف سے گھٹنوں تک اور عورتوں کا کل بدن بجز چہرہ اور ہتھیلیوں کے، یہ مواضع ستر ہیں ان کا چھپانا سب سے فرض ہے نہ کوئی مرد دوسرے مرد کا ستر دیکھ سکتا ہے نہ کوئی عورت دوسری عورت کا ستر دیکھ سکتی ہے اور مرد کسی عورت کا یا عورت کسی مرد کا ستر دیکھے یہ بدرجہ اولی حرام ہے اور آیت مذکورہ کے حکم غض بصر کے خلاف ہے کیونکہ آیت کا مطلب جو اوپر بیان ہوچکا ہے اس میں ہر ایسی چیز سے نظر پست رکھنا اور ہٹا لینا مراد ہے جس کی طرف دیکھنے کو شرع میں ممنوع کیا گیا ہے اس میں عورت کے لئے عورت کا ستر دیکھنا بھی داخل ہے۔
وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ الایة، زینت لغوی معنے کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان اپنے آپ کو مزین اور خوش منظر بنائے۔ وہ عمدہ کپڑے بھی ہو سکتے ہیں، زیور بھی۔ یہ چیزیں جبکہ کسی عورت کے بدن پر نہ ہوں علیحد ہوں تو باتفاق امت ان کا دیکھنا مردوں کے لئے حلال ہے جیسے بازار میں بکنے والے زنانہ کپڑے اور زیور کہ ان کے دیکھنے میں کوئی مضائضہ نہیں اس لئے جمہور مفسرین نے اس آیت میں زینت سے مراد محل زینت یعنی وہ اعضاء جن میں زینت کی چیزیں زیور وغیرہ پہنی جاتی ہیں وہ مراد لئے ہیں اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ عورتوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی زینت یعنی مواقع زینت کو ظاہر نہ کرے (کذا فی الروح) اس آیت میں جو عورت کے لئے اظہار زینت کو حرام قرار دیا ہے آگے اس حکم سے دو اسثناء بیان فرمائے گئے۔ ایک منظور کے اعتبار سے ہے یعنی جس کی طرف دیکھا جائے دوسرا ناظر یعنی دیکھنے والوں کے اعتبار سے۔
احکام پردہ سے استثناء
پہلا استثناء مَا ظَهَرَ مِنْهَا کا ہے یعنی عورت کے لئے اپنی زینت کی کسی چیز کو مردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان چیزوں کے جو خود بخود ظاہر ہو ہی جاتی ہیں یعنی کام کاج اور نقل و حرکت کے وقت جو چیزیں عادةً کھل ہی جاتی ہیں اور عادةً ان کا چھپانا مشکل ہے وہ مستثنیٰ ہیں ان کے اظہار میں کوئی گناہ نہیں (ابن کثیر) مراد اس سے کیا ہے اس میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس کی تفسیریں مختف ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں جس چیز کو مستثنی کیا گیا ہے وہ اوپر کے کپڑے ہیں جیسے برقع یا لمبی چادر جو برقع کے قائم مقام ہوتی ہے۔ یہ کپڑے زینت کے کپڑوں کو چھپانے کے لئے اسعتمال کئے جاتے ہیں تو مراد آیت کی یہ ہوگئی کہ زینت کی کسی چیز کو ظاہر کرنا جائز نہیں بجز ان اوپر کے کپڑوں کے جن کا چھپانا بضرورت باہر نکلنے کے وقت ممکن نہیں جیسے برقع وغیرہ اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں کیونکہ جب عورت کسی ضرورت سے باہر نکلنے پر مجبور ہو تو نقل و حرکت اور لین دین کے وقت چہرے اور ہتھیلیوں کو چھپانا مشکل ہے۔ اس لئے حضرت عبداللہ بن مسعود کی تفسیر کے مطابق تو غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کو چہرہ اور ہاتھ کھولنا بھی جائز نہیں صرف اوپر کے کپڑے برقع وغیرہ کا اظہار بضرورت مستثنی ہے اور حضرت ابن عباس کی تفسیر کے مطابق چہرہ اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھی غیر محرموں کے سامنے کھولنا جائز ہے اس لئے فقہاء امت میں بھی اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں پردے سے مستثنیٰ اور ان کا غیر محرموں کے سامنے کھولنا جائز ہے یا نہیں ؟ مگر اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر ڈالنے سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو ان کا دیکھنا بھی جائز نہیں اور عورت کو ان کا کھولنا بھی جائز نہیں اسی طرح اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ ستر عورت جو نماز میں اجماعاً اور خارج نماز علی الاصح فرض ہے اس سے چہرہ اور ہتھیلیاں مستثنیٰ ہیں اگر ان کو کھول کر نماز پڑھی تو نماز باتفاق صحیح و درست ہوجائے گی۔
قاضی بیضاوی اور خازن نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مقتضا آیت کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لئے اصل حکم یہ ہے کہ وہ اپنی زینت کی کسی چیز کو بھی ظاہر نہ ہونے دے بجز اس کے جو نقل و حرکت اور کام کاج کرنے میں عادةً کھل ہی جاتی ہیں ان میں برقع اور چادر بھی داخل ہیں اور چہرہ اور ہتھیلیاں بھی کہ جب عورت کسی مجبوری اور ضرورت سے باہر نکلتی ہے تو برقع چادر وغیرہ کا ظاہر ہونا تو معتین ہی ہے لیکن دین کی ضرورت میں بعض اوقات چہرہ اور ہاتھ کی ہتھیلیاں بھی کھل جاتی ہیں تو وہ بھی معاف ہیں گناہ نہیں۔ لیکن اس آیت سے یہ کہیں ثابت نہیں کہ مردوں کو چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھنا بھی بلا ضرورت جائز ہے بلکہ مردوں کا تو وہی حکم ہے کہ نگاہ پست رکھیں اگر عورت کہیں چہرہ اور ہاتھ کھولنے پر مجبور ہوجائے تو مردوں کو لازم ہے کہ بلا عذر شرعی اور بلا ضرورت کے اس کی طرف نہ دیکھیں اس توجیہ میں دونوں روایتیں اور تفسیریں جمع ہوجاتی ہیں۔ امام مالک کا مشہور مذہب بھی یہی ہے کہ غیر محرم عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر کرنا بھی غیر ضرروت مبیحہ کے جائز نہیں اور زواجر میں ابن حجر مکی شافعی نے امام شافعی کا بھی یہی مذہب نقل کیا ہے کہ اگرچہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ستر عورت کے فرض میں داخل نہیں ان کو کھول کر بھی نماز ہوجاتی ہے مگر غیر محرم مردوں کو ان کا دیکھنا بلا ضرورت شرعیہ جائز نہیں اور یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ جن فقہاء نے چہرہ اور ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز قرار دیا ہے وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو چہرہ وغیرہ دیکھنا بھی ناجائز اور یہ ظاہر ہے کہ حسن اور زینت کا اصل مرکز انسان کا چہرہ ہے اور زمانہ فتنہ و فساد اور غلبہ ہوٰی اور غفلت کا ہے اس لئے بجز مخصوص ضرورتوں کے مثلاً علاج معالجہ یا کوئی خطرہ شدیدہ وغیرہ عورت کو غیر محارم کے سامنے قصداً چہرہ کھولنا بھی ممنوع ہے اور مردوں کو اس کی طرف قصداً نظر کرنا بھی غیر ضرورت شرعیہ کے جائز نہیں۔
آیت مذکورہ میں زینت ظاہرہ کے استثناء کے بعد ارشاد ہے وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ یعنی آنچل مار لیا کریں اپنے دوپٹوں کا اپنے سینوں پر خُمُر، خمار کی جمع ہے اس کپڑے کو کہتے ہیں جو عورت سر پر استعمال کرے اور اس سے گلا اور سینہ بھی چھپ جائے۔ جیوب جیب کی جمع ہے جس کے معنی ہیں گریبان۔ چونکہ زمانہ قدیم سے گریبان سینہ ہی پر ہونے کا معمول ہے اس لئے عیوب کے چھپانے سے مراد سینہ کا چھپانا ہے شروع آیت میں اظہار زینت کی ممانعت تھی اس جملہ میں اخفاء زینت کی تاکید اور اس کی ایک صورت کا بیان ہے جس کی اصل وجہ ایک رسم جاہلیت کا مٹانا ہے زمانہ جاہلیت میں عورتیں دوپٹہ سر پر ڈال کر اس کے دونوں کنارے پشت پر چھوڑ دیتی تھیں جس سے گریبان اور گلا اور سینہ اور کان کھلے رہتے تھے اس لئے مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں بلکہ دوپٹے کے دونوں پلے ایک دوسرے پر الٹ لیں تاکہ یہ سب اعضاء چھپ جائیں (رواہ ابن ابی حاتم عن ابی جبیر روح) آگے دوسرا استثناء ان مردوں کا بیان کیا گیا ہے جن سے شرعاً پردہ نہیں جس کے دو سبب ہیں اول تو جن مردوں کو مستثنی کیا گیا ہے ان سے کسی فتنہ کا خطرہ نہیں وہ محارم ہیں جن کی طبائع کو حق تعالیٰ نے خلقۃً ایسا بنایا ہے کہ وہ ان عورتوں کی عصمت کے محافظ ہوتے ہیں ان سے خود کوئی فتنہ کا احتمال نہیں۔ دوسرے ہر وقت ایک جگہ رہنے سہنے کی ضرورت بھی سہولت پیدا کرنے کی مقتضی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ شوہر کے سوا دوسرے محارم کو جو مستثنی کیا گیا ہے وہ احکام حجاب و پردہ سے استثناء ہے، ستر عورت سے استثناء نہیں عورت کا جو بدن ستر میں داخل ہے جس کا کھولنا نماز میں جائز نہیں اس کا دیکھنا محارم کے لئے بھی جائز نہیں۔
اس آیت میں آٹھ قسم کے محرم مردوں کا اور چار دوسری اقسام کا پردہ سے استثناء کیا گیا ہے اور سورة احزاب کی آیت جو نزول میں اس سے مقدم ہے اس میں صرف سات اقسام کا ذکر ہے پانچ کا اضافہ سورة نور کی آیت میں کیا گیا ہے جو اس کے بعد نازل ہوئی ہے۔
تنبیہ
یاد رہے کہ اس جگہ لفظ محرم عام معنی میں استعمال ہوا ہے جو شوہر پر بھی مشتمل ہے فقہاء کی اصطلاح میں محرم کی جو خاص تفسیر ہے کہ جس سے کبھی نکاح جائز نہ ہو وہ یہاں مراد نہیں۔ تفصیل ان بارہ متشنیات کی جو سورة نور کی مذکورہ آیت میں ہے یہ ہے۔ سب سے پہلے شوہر ہے جس سے بیوی کے کسی عضو کا پردہ نہیں اگرچہ اعضاء مخصوصہ کو بلاضرروت دیکھنا خلاف اولی ہے حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا ما رای منی ولا رایت منہ یعنی نہ آپ نے میرے خاص عضو کو دیکھا نہ میں نے آپ کے۔
دوسرے اپنے باپ ہیں، جس میں دادا، پردادا سب داخل ہیں۔ تیسرے شوہر کا باپ ہے اس میں بھی دادا، پردادا سب داخل ہیں۔ چوتھے اپنے لڑکے جو اپنی اولاد میں ہیں۔ پانچویں شوہر کے لڑکے جو کسی دوسری بیوی سے ہوں چھٹے اپنے بھائی، اس میں حقیقی بھی داخل ہیں اور باپ شریک یعنی علاتی اور ماں شریک یعنی اخیافی بھی لیکن ماموں، خالہ یا چچا، تایا اور پھوپھی کے لڑکے جن کو عام عرف میں بھائی کہا جاتا ہے وہ اس میں داخل نہیں وہ غیر محرم ہیں۔ ساتویں بھائیوں کے لڑکے یہاں بھی صرف حقیقی یا علاتی یا اخیافی بھائی کے لڑکے مراد ہیں دوسرے عرفی بھائیوں کے لڑکے شامل نہیں۔ آٹھویں بہنوں کے لڑکے۔ اس میں بھی بہنوں سے حقیقی اور علاتی اخیافی بہنیں مراد ہیں۔ ماموں زاد چچا زاد بہنیں داخل نہیں یہ آٹھ قسمیں تو محارم کی ہیں۔
نویں قسم اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ یعنی اپنی عورتیں جس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں کہ ان کے سامنے بھی وہ تمام اعضاء کھولنا جائز ہے جو اپنے باپ بیٹوں کے سامنے کھولے جاسکتے ہیں اور یہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ یہ استثناء احکام حجاب و پردہ سے ہے۔ احکام ستر سے نہیں۔ اس لئے جو اعضاء ایک عورت اپنے محرم مردوں کے سامنے نہیں کھول سکتی ان کا کھولنا کسی مسلمان عورت کے سامنے بھی جائز نہیں۔ علاج معالجہ وغیرہ کی ضرورتیں مستثنیٰ ہیں۔
نِسَاۗىِٕهِنَّ مسلمان عورتوں کی قید سے یہ معلوم ہوا کہ کافر مشرک عورتوں سے بھی پردہ واجب ہے وہ غیر محرم مردوں کے حکم میں ہیں۔ ابن کثیر نے حضرت مجاہد سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان عورت کے لئے جائز نہیں کہ کسی کافر عورت کے سامنے اپنے اعضاء کھولے لیکن احادیث صحیحہ میں ایسی روایات موجود ہیں جن میں کافر عورتوں کا ازواج مطہرات کے پاس جانا ثابت ہے اس لئے اس مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے بعض نے کافر عورتوں کو مثل غیر محرم مردوں کے قرار دیا ہے بعض نے اس معاملہ میں مسلمان اور کافر دونوں قسم کی عورتوں کا ایک ہی حکم رکھا ہے کہ ان سے پردہ نہیں۔ امام رازی نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ لفظ نِسَاۗىِٕهِنَّ میں تو سبھی عورتیں مسلم اور کافر داخل ہیں اور سلف صالحین سے جو کافر عورتوں سے پردہ کرنے کی روایات منقول ہیں وہ استحباب پر مبنی ہیں۔ روح المعانی میں مفتی بغداد علامہ آلوسی نے اسی قول کو اختیار فرما کر کہا ہے۔
ھذا القول اوفق بالناس الیوم فانہ لا یکاد یمکن احتجاب المسلمات عن الذمیات (روح المعانی)
یہی قول آج کل لوگوں کے مناسب حال ہے کیونکہ اس زمانے میں مسلمان عورتوں کا کافر عورتوں سے پردہ تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔
دسویں قسم اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ ہے یعنی وہ جو ان عورتوں کے مملوک ہوں۔ ان الفاظ کے عموم میں تو غلام اور لونڈیاں دونوں داخل ہیں لیکن اکثر ائمہ فقہاء کے نزدیک اس سے مراد صرف لونڈیاں ہیں، غلام مرد اس میں داخل نہیں۔ ان سے عام محارم کی طرح پردہ واجب ہے۔ حضرت سعید بن مسیب نے اپنے آخری قول میں فرمایا لا یغرنکم ایة النور فانہ فی لاناث دون الذکور یعنی تم لوگ کہیں سورة نور کی اس آیت سے مغالطہ میں نہ پڑجاؤ کہ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ کے الفاظ عام ہیں۔ مرد غلاموں کو بھی شامل ہیں لیکن واقعہ ایسا نہیں یہ آیت صرف عورتوں یعنی کنیزوں کے حق میں ہے مرد غلام اس میں داخل نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حسن بصری، ابن سیرین نے فرمایا کہ غلام مرد کے لئے اپنی آقا عورت کے بال دیکھنا جائز نہیں (روح المعانی) باقی رہا یہ سوال کہ جب لفظ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ سے صرف عورتیں لونڈیاں ہی مراد ہیں تو وہ اس سے پہلے لفظ نسائھن میں یہ داخل ہیں ان کو علیحدہ بیان کرنے کی ضرورت کیا تھی اس کا جواب جصاص نے یہ دیا ہے کہ لفظ نسائھن اپنے ظاہر کے اعتبار سے صرف مسلمان عورتوں کے لئے ہے۔ اور مملوکہ باندیوں میں اگر کافی بھی ہوں تو ان کو مستثنی کرنے کے لئے یہ لفظ علیحدہ لایا گیا ہے۔
گیارہویں قسم اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ مغفل اور بد حواس قسم کے لوگ ہیں جن کو عورتوں کی طرف کوئی رغبت و دلچسپی ہی نہ ہو (ابن کثیر) اور یہی مضمون ابن جریر نے ابوعبداللہ، ابن مجبیر، ابن عطیہ وغیرہ سے نقل کیا ہے اس لئے اس سے مراد وہ مرد ہیں جو عورتوں کی طرف نہ کوئی رغبت و شہوت رکھتے ہوں، نہ ان کے اوصاف حسن اور حالات سے کوئی دلچسپی رکھتے ہوں کہ دوسرے لوگوں سے بیان کردیں۔ بخلاف مخنث قسم کے لوگوں کے جو عورتوں کے اوصاف خاص سے تعلق رکھتے ہوں ان سے بھی پردہ واجب ہے جیسا کہ صدیقہ عائشہ کی حدیث میں ہے کہ ایک مخنث ازواج مطہرات کے پاس آیا کرتا تھا اور امہات المومنین اس کو غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ جو اس آیت میں مذکور ہے داخل سمجھ کر اس کے سامنے آجاتی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جب اس کو دیکھا اور اس کی باتیں سنیں تو گھروں میں داخل ہونے سے اس کو روک دیا۔ (روح المعانی)
اسی لئے ابن حجر مکی نے شرح منہاج میں فرمایا ہے کہ مرد اگرچہ عنین (نامرد) یا مجبوب (مقطوع العضو) یا بہت بوڑھا ہو وہ اس غیر اولی الاربة کے لفظ میں داخل نہیں ان سب سے پردہ واجب ہے۔ اس میں غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ کے لفظ کے ساتھ جو التّٰبِعِيْنَ کا لفظ مذکور ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے مغفل بدحواس لوگ جو طفیلی بن کر کھانے پینے کے لئے گھروں میں چلے جائیں وہ مستثنی ہیں۔ اس کا ذکر صرف اس لئے کیا گیا کہ اس وقت ایسے مغفل قسم کے کچھ مرد ایسے ہی تھے جو طفیلی بن کر کھانے پینے کے لئے گھروں میں جاتے تھے اصل مدار حکم کا ان کے مغفل بدحواس ہونے پر ہے تابع اور طفیلی ہونے پر نہیں۔ واللہ اعلم
بارہویں قسم اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ ہے۔ اس سے مراد وہ نابالغ بچے ہیں جو ابھی بلوغ کے قریب بھی نہیں پہنچے اور عورتوں کے مخصوص حالات وصفات اور حرکات و سکنات سے بالکل بیخبر ہوں اور جو لڑکا ان امور سے دلچسپی لیتا ہو وہ مراہق یعنی قریب البلوغ ہے اس سے پردہ واجب ہے (ابن کثیر) امام جصاص نے فرمایا کہ یہاں طفل سے مراد وہ بچے ہیں جو مخصوص معاملات کے لحاظ سے عورتوں اور مردوں میں کوئی امتیاز نہ کرتے ہوں (ذکرہ عن المجاہد) پردہ سے مسثنیات کا بیان ختم ہوا۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ یعنی عورتوں پر لازم ہے کہ اپنے پاؤں اتنی زور سے نہ رکھیں جس سے زیور کی آواز نکلے اور ان کی مخفی زینت مردوں پر ظاہر ہو۔
زیور کی آواز غیر محرموں کو سنانا جائز نہیں
شروع آیت میں عورتوں کو اپنی زینت غیر مردوں پر ظاہر کرنے سے منع فرمایا تھا، آخر میں اس کی مزید تاکید ہے کہ مواضع زینت سر اور سینہ وغیرہ کا چھپانا تو واجب تھا ہی۔ اپنے مخفی زینت کا اظہار خواہ کسی ذریعہ سے ہو وہ بھی جائز نہیں۔ زیور کے اندر خود کوئی چیز ایسی ڈالی جائے جس سے وہ بچنے لگے یا ایک زیور دوسرے زیور سے ٹکرا کر بجے یا پاؤں زمین پر اس طرح مارے جس سے زیور کی آواز نکلے اور غیر محرم مرد سنیں یہ سب چیزیں اس آیت کی رو سے ناجائز ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے فقہاء نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز غیر محرموں کو سنانا اس آیت سے ناجائز ثابت ہوا تو خود عورت کی آواز کا سنانا اس سے بھی زیادہ سخت اور بدرجہ اولی ناجائز ہوگا اس لئے عورت کی آواز کو بھی ان حضرات نے ستر میں داخل قرار دیا ہے اور اسی بناء پر نوازل میں فرمایا کہ عورتوں کو جہاں تک ممکن ہو قرآن کی تعیلم بھی عورتوں ہی سے لینا چاہئے۔ مردوں سے تعیلم لینا بدرجہ مجبوری جائز ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نماز میں اگر کوئی سامنے سے گزرنے لگے تو مرد کو چاہئے کہ بلند آواز سے سبحان اللہ کہہ کر گزرنے والے کو متنبہ کر دے مگر عورت آواز نہ نکالے بلکہ اپنی ایک ہتھیلی کی پشت پر دوسرا ہاتھ مار کر اس کو متنبہ کرے۔
عورت کی آواز کا مسئلہ
کیا عورت کی آواز فی نفسہ ستر میں داخل ہے اور غیر محرم کو آواز سنانا جائز ہے ؟ اس معاملے میں حضرات ائمہ کا اختلاف ہے۔ امام شافعی کی کتب میں عورت کی آواز کو ستر میں داخل نہیں کیا گیا۔ حنفیہ کے نزدیک بھی مختلف اقوال ہیں۔ ابن ہمام نے نوازل کی روایت کی بناء پر ستر میں داخل قرار دیا ہے۔ اسی لئے حنفیہ کے نزدیک عورت کی اذان مکروہ ہے لیکن حدیث سے ثابت ہے کہ ازواج مطہرات نزول حجاب کے بعد بھی پس پردہ غیر محارم سے بات کرتی تھیں اس مجموعہ سے راجح اور صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس موقع اور جس محل میں عورت کی آواز سے فتنہ پیدا ہونے کا خطرہ ہو وہاں ممنوع ہے جہاں یہ نہ ہو جائز ہے (جصاص) اور احتیاط اسی میں ہے کہ بلا ضروت عورتیں پس پردہ بھی غیر محرموں سے گفتگو نہ کریں۔ واللہ اعلم
خوشبو لگا کر باہر نکلنا
اسی حکم میں یہ بھی داخل ہے کہ عورت جب بضرورت گھر سے باہر نکلے تو خوشبو لگا کر نہ نکلے کیونکہ وہ بھی اس کی مخفی زینت ہے غیر محرم تک یہ خوشبو پہنچے تو ناجائز ہے ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی حدیث ہے جس میں خوشبو لگا کر باہر جانے والی عورت کو برا کہا گیا ہے۔
مزین برقع پہن کر نکلنا بھی ناجائز ہے
امام جصاص نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز کو قرآن نے اظہار زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کا مدار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا اور اسی سے یہ بھی معلمو ہوا کہ عورت کا چہرہ اگرچہ ستر میں داخل نہیں مگر وہ زینت کا سب سے بڑا مرکز ہے اس لئے اس کا بھی غیر محرموں سے چھپانا واجب ہے الا بضرورت (جصاص)
وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی توبہ کرو اللہ سے تم سب کے سب اے مومن بندو۔ اس آیت میں اول مردوں کو نظریں پست رکھنے کا حکم پھر عورتوں کو ایسا ہی حکم پھر عورتوں کو غیر محرموں سے پر دوہ کرنے کا حکم الگ الگ دینے کے بعد اس جملے میں سب مرد و عورت کو شامل کر کے ہدایت کی گئی ہے کہ شہوت نفسانی کا معاملہ دقیق ہے دوسروں کو اس پر اطلاع ہونا مشکل ہے مگر اللہ تعالیٰ پر ہر ہر چھپا ہوا اور کھلا ہوا یکساں ظاہر ہے اس لئے اگر کسی سے احکام مذکورہ میں کسی وقت کوئی کوتاہی ہوگئی ہو تو اس پر لازم ہے کہ اس سے توبہ کرے گزشتہ پر ندامت کے ساتھ اللہ سے مغفرت مانگے اور آئندہ اس کے پاس نہ جانے کا عزم مصمم کرے۔
Top