Maarif-ul-Quran - Yaseen : 49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ
مَا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک تَاْخُذُهُمْ : وہ انہیں آپکڑے گی وَهُمْ : اور وہ يَخِصِّمُوْنَ : باہم جھگڑ رہے ہوں گے
یہ تو راہ دیکھتے ہیں ایک چنگھاڑ کی جو ان کو آپکڑے گی جب آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے
معارف و مسائل
(آیت) ما ینظرون الاصیحة واحدة، یہ ان کفار کا ہے جواب ہے جو استہزاء و انکار کے طور پر مسلمانوں سے پوچھا کرتے تھے کہ تم جس قیامت کے آنے کے قائل ہو وہ کب کس سال اور کس تاریخ میں آئے گی۔ (آیت) یقولون متیٰ ھذا الوعد، ان لوگوں کا یہ سوال درحقیقت کسی تحقیق واقعہ کے لئے نہیں بلکہ تمسخر و استہزاء کے تھا اور بالفرض تحقیق کے لئے بھی ہوتا تو رب العالمین کی حکمت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ قیامت کے سال اور تاریخ کا پورا یقینی علم کسی کو نہ دیں، یہاں تک کہ اپنے انبیاء و رسل کو بھی نہیں دیا۔ ان احمقوں کا یہ سوال بالفرض تحقیق طلبی ہی کے لئے ہو تو بھی لغو و مہمل تھا۔ اس لئے اس کے جواب میں قیامت کی تاریخ بتانے کے بجائے ان لوگوں کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ جو چیز یقینی طور پر آنے والی ہے عقلمند کا کام یہ ہے کہ اس کی تیاری میں لگے، نہ یہ کہ اس کے وقت اور تاریخ کی تحقیق میں وقت ضائع کرے۔ مقتضیٰ عقل کا یہ تھا کہ قیامت کی خبر سن کر ایمان لاتے اور وہ کام کرتے جس سے اس عالم میں فلاح حاصل ہو، مگر یہ لوگ اپنی غفلت میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں گویا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب قیامت آئے تو کچھ سوچیں۔ اس لئے فرمایا کہ یہ قیامت کے منتظر ہیں۔ اور قیامت کا حال یہ ہوگا کہ وہ ایک ہی زور کی آواز صور کی ہوگی جو سب کو اچانک اس طرح پکڑے گی کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں اور باہمی معاملات کے جھگڑوں میں لگے ہوئے ہوں گے سب کے سب اسی حال میں مردے رہ جائیں گے۔
حدیث میں ہے کہ دو آدمی ایک کپڑے کی خریدو فروخت میں لگے ہوئے ہوں گے، کپڑا پھیلایا ہوا ہوگا کہ اچانک قیامت آجائے گی، اور وہ کپڑا طے نہ کر پائیں گے، کوئی آدمی اپنے حوض کو مٹی سے لیپ کر درست کر رہا ہوگا، کہ اسی حال میں مرا رہ جائے گا (رواہ ابونعیم عن ابی ہریرة قرطبی)
Top