Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِفَتٰىهُ
: اپنے جوان (شاگرد) سے
لَآ اَبْرَحُ
: میں نہ ہٹوں گا
حَتّٰى
: یہانتک
اَبْلُغَ
: میں پہنچ جاؤ
مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ
: دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ
اَوْ
: یا
اَمْضِيَ
: چلتا رہوں گا
حُقُبًا
: مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا کہ جب تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں خواہ برسوں چلتا رہوں
قصہ حضرت موسیٰ باخضر (علیہما السلام) قال اللہ تعالیٰ واذ قال موسیٰ لفتہ لا ابرح .... الیٰ .... لقد جئت شیئا نکرا۔ (ربط) چونکہ قریش نے آنحضرت ﷺ کی آزمائش کے لیے روح اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق جو سوالات کیے تھے وہ یہود کے بتلانے اور سمجھانے سے کئے تھے کہ اگر آنحضرت ﷺ ان باتوں کا جواب دے دیں تو جانو کہ وہ نبی ہیں ورنہ نہیں اس لئے یہود کے سنانے کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرماتے ہیں تاکہ معلوم کریں کہ نبی کے لیے یہ شرط نہیں کہ اس کو سب چیزیں معلوم ہوں اور وہ تمام اخبار اور قصص کا عالم ہو بلکہ نبوت کے لیے وحی اور علوم ہدایت کی معرفت ضروری ہے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) باوجود کلیم ہونے کے ان علوم سے واقف نہ تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو عطا کیے تھے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کی ملاقات کے لیے سفر کیا تاکہ وہ ان سے علوم حاصل کریں جو اللہ تعالیٰ نے خاص ان کو عطا کئے ہیں معلوم ہوا کہ نبی اور رسول کے لیے تمام علوم کا عالم ہونا اور تمام واقعات اور قصص سے باخبر ہونا اور ہر قسم کے علم سے واقف ہونا ضروری نہیں البتہ نبی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان علوم ہدایت سے پوری طرح باخبر ہو جن کو رضائے خداوندی اور قرب خداوندی اور امت کی اصلاح اور تربیت میں دخل ہو اور اللہ تعالیٰ نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو جو علم دیا وہ اس قسم کا نہ تھا بلکہ دوسری قسم کا تھا اس قسم کے علوم میں خضر (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑھ کر تھے مگر عند اللہ افضلیت اور تقرب کا دارومدار علوم ہدایت اور علوم شریعت پر ہے ان علوم میں موسیٰ (علیہ السلام) سب سے اعلیٰ اور افضل اور سب سے بالا اور برتر تھے ان علوم میں روئے زمین پر ان سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) ایک بار بنی اسرائیل میں وعظ فرما رہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ ا وقت آدمیوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” میں “ مطلب یہ تھا کہ جن علوم کو ہدایت اور قرب الٰہی کے حصول میں دخل ہے ان علوم میں کوئی میرے برابر نہیں اور یہ کلام باعتبار معنی اور مقصود کے صحیح تھا کیونکہ آپ (علیہ السلام) اللہ کے اولوالعزم رسول تھے اور کلیم اللہ تھے اور صاحب تورات تھے اور صاحب معجزات عظیمہ تھے اس وقت روئے زمین پر آپ (علیہ السلام) سے بڑھ کر کسی کو علوم ہدایت کی معرفت حاصل نہ تھی۔ مگر لفظ ظاہرا مطلق تھا مقام رسالت کے مناسب یہ تھا کہ علی الاطلاق اپنے کو سب سے بڑا عالم نہ کہتے سب سے زیادہ علم کی نسبت خداوند ذوالجلال کی طرف مناسب تھی مقربین کی ادنیٰ اور ادنیٰ اور معمولی سے معمولی بات پر بھی باز پرس ہوجاتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا کہ اپنے برگزیدہ بندے کو احتیاط فی الکلام کی تعلیم دی جائے موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب اگرچہ باعتبار معنی اور مقصود کے صحیح تھا لیکن حق تعالیٰ کو یہ الفاظ پسند نہ آئے اس لئے کہ جواب کے ظاہری عموم اور اطلاق سے یہ مترشح ہوتا تھا کہ روئے زمین پر من کل الاوجوہ موسیٰ (علیہ السلام) اعلم الناس ہیں اس لئے بغرض تادیب و تنبیہ یہ ارشاد ہوا کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ تم تادیب و تنبیہ یہ ارشاد ہوا کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے وہ تم سے زیادہ علم رکھتا ہے مطلب یہ تھا کہ بعض علوم میں وہ تم سے زیادہ ہے گو ان علوم کو قرب الٰہی اور رضائے خداوندی کے حصول میں دخل نہ ہو۔ لہٰذا سائل کے جواب میں اپنے کو مطلقاً اعلم الناس کہنا مناسب نہ تھا بلکہ مناسب یہ تھا کہ جواب کو خدا تعالیٰ کے علم محیط پر محول کرتے اور کہتے کہ اللہ اعلم کہ اللہ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے اللہ کے بہت سے مقبول اور مقرب بندے ہیں سب کی خبر اس کو ہے اور اسی کو معلوم ہے کہ اس نے اپنے خزانہ غیب میں سے کس کو کون سا علم عطا کیا ہے فوق کل ذی علم علیم۔ حق جل شانہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سہو اور نسیان پر متنبہ فرمایا اور خضر (علیہ السلام) کے پاس جانے کا حکم دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس ارشاد خداوندی کو سن کر ان سے ملنے کے مشتاق ہوئے اور پوچھا کہ ان سے ملنے کی کیا صورت ہے ارشاد ہوا کہ مجمع البحرین یعنی روم اور فارس کے دو سمندر آپس میں ملتے ہیں وہاں پتھر کے پاس میرا ایک نیک بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے ہم نے اس کو ایک خاص علم دیا ہے جا کر اس سے ملو اور ناشتہ کے لیے ایک مچھلی تل کر اپنے زنبیل میں رکھ لو اور روانہ ہوجاؤ جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں تم کو ہمارا وہ بندہ ملے گا۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مچھلی بھنوا کر زنبیل میں رکھ لی اور یوشع بن نون کو اپنے ساتھ لے کر مجمع البحرین روانہ ہوئے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی وہ وقت یاد کرو جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نوجوان خادم سے جس کا نام یوشع بن نون تھا یہ کہا کہ میں اس سفر میں برابر چلتا رہوں گا یہاں تک کہ میں اس مقام پر پہنچ جاؤں جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں یا طلب مطلوب میں مدتوں چلتا رہوں۔ یعنی جب تک خدا کے اس نیک بندہ سے ملاقات نہ ہوگی میں سفر سے منہ نہ موڑوں گا۔ دست از طلب ندارم تا کام من برآید یا تن رسد بجاناں یا جاں زتن برآمد چناچہ بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لے کر دونوں سفر کے لیے روانہ ہوئے پس جب یہ دونوں ان دور دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پہنچے تو اپنی مچھلی وہیں بھول گئے پس وہاں پہنچ کر وہ مچھلی باذن الٰہی زندہ ہوگئی اور دریا میں جا داخل ہوئی اور اس نے دریا میں ایک سرنگ کی طرح راہ بنالی جہاں مچھلی جاتی وہاں دریا کا پانی دونوں طرف سے کھڑا ہوجاتا اور بیچ میں ایک طاق سا بن جاتا جب یہ دونوں حضرات مجمع البحرین پر پہنچے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تو سوگئے اور یوشع بن نون (علیہ السلام) جاگتے رہے وہاں ایک چشمہ تھا یوشع بن نون اس چشمہ سے وضو کرنے لگے ان کے ہاتھ سے ایک دو قطرہ پانی کا اس بھنی ہوئی مچھلی پر ٹپک پڑا اس سے وہ مچھلی فورا زندہ ہوگئی یا کسی طرح سے وہ مچھلی باذن اللہ زندہ ہوگئی۔ واللہ اعلم۔ (تفصیل کے لیے فتح الباری کتاب الانبیاء دیکھئے) اور دریا میں چلی گئی اور پانی میں جاکر بیٹھ گئی اور وہاں اس کے لیے مثل روشن دان کے ایک طاق بن گیا۔ یوشع بن نون (علیہ السلام) کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا اور قصد کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) جاگیں گے تب ان سے اسکا ذکر کروں گا مگر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جاگے تو یوشع (علیہ السلام) اس کا تذکرہ کرنا بھول گئے اور دونوں حضرات وہاں سے آگے چل کھڑے ہوئے۔ پھر جب دونوں وہاں سے آگے بڑھے اور چلتے چلتے دور نکل گئے تو اگلے روز دن چڑھے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم یوشع بن نون سے کہا کہ ہمارا صبح کا کھانا لاؤ تحقیق ہم سفر کی اس منزل میں تعب اور مشقت کو پہنچے ہیں یعنی تھک گئے ہیں۔ مجمع البحرین تک موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکن نہیں ہوئی جب منزل مقصود سے آگے بڑھے تب تھکن محسوس ہوئی اور بھوک بھی لگی اور کھانا طلب کیا دیکھا تو مچھلی ندارد ہے اس وقت یوشع بن نون (علیہ السلام) کو مچھلی کا حال دیا آیا اور بولے کہ بھلا آپ کو معلوم بھی ہے کہ جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھہرے تھے اور آپ تو وہاں سو گئے تھے اور مچھلی یکایک زندہ ہو کر دریا میں داخل ہوگئی اور اس کے لیے ایک طاق سا بن گیا اور میرا ارادہ یہ تھا کہ جب آپ بیدار ہوں گے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کرو گا مگر جب آپ بیدار ہوئے تو تحقیق میں آپ سے اس مچھلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔ اور یہ پتھر جس کے پاس جاکر ٹھہرے تھے مجمع البحرین پر تھا اور یہی مقام ان کی منزل مطلوب و مقصود تھی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلا دیا تھا کہ خضر (علیہ السلام) کے ملنے کی جگہ کی نشانی یہ ہے کہ جہاں وہ مچھلی زندہ ہوجائے تو مجھے مطلع کرنا لیکن بایں ہمہ یوشع بن نون اس کا ذکر کرنا بھول گئے اور کہا کہ مجھے شیطان نے بھلا دیا کہ میں اس واقعہ کا آپ سے ذکر کرتا نہ معلوم کمبخت شیطان نے مجھ کو کس دھیان میں لگا دیا کہ میں آپ سے اس عجیب و غریب واقعہ کا ذکر کرنا بھول گیا۔ عین منزل مقصود پر پہنچ کر اصل مقصود سے ذھول اور غفلت شیطان ہی کا کچھ اثر معلوم ہوتا ہے جس نے قدرت الٰہی کے ایسے کرشمہ کو بھلا دیا ورنہ یہ عجیب و غریب کرشمہ قدرت بھولنے کے لائق نہ تھا۔ بظاہر سفر کی جلدی کے بارے میں اس کا ذکر کرنا بھول گئے۔ یوشع بن نون نے اپنی اس سہونسیان کو تواضعا شیطان کی طرف منسوب کیا۔ شیطان کا اصل زور تو اس کے دوستوں ہی پر چلتا ہے کما قال تعالیٰ انما سلطان علی الذین یتولونہ لیکن بھول چوک اور وسوسہ شیطانی کبھی کبھی خدا کے نیک بندوں کو بھی پیش آجاتی ہے۔ کما قال تعالیٰ ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون مگر یہ بھول چوک عباد صالحین کے حق میں مضر نہیں ہوتی بلکہ ان کے حق میں مزید ترقی مدارج کا سبب بن جاتی ہے جیسا کہ یہاں سفر کی مزید مشقت سے ان کو زیادہ عروج ہوا اور مظہر کرامت بنے کہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہوگئی۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون سے کھانا طلب کیا تو دیکھا کہ مچھلی ندارد ہے تو یوشع بن نون نے معذرت کی اور عرض کیا کہ جب ہم اس پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو مچھلی وہیں مفقود ہوگئی تھی اور میں آپ سے اس قصہ کا ذکر کرنا بھول گیا تھا اور وہ قصہ یہ ہوا کہ اس مچھلی نے زندہ ہونے کے بعد دریا میں عجیب طرح سے راستہ بنا لیا ایک عجیب بات تو یہ ہوئی کہ بھنی ہوئی مچھلی زندہ ہوگئی اور دوسری عجیب بات یہ ہوئی کہ وہ زندہ ہو کر دریا میں سرنگ بناتی چلی گئی اور پانی میں جاکر بیٹھ گئی وہاں طاق سا کھلا رہ گیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ قصہ سن کر فرمایا یہ تو وہ مقام ہے جس کی ہم تلاش اور جستجو میں تھے اللہ تعالیٰ نے اس نیک بندہ کا یہی پتہ بتایا تھا کہ جہاں مچھلی گم ہوجائے وہیں اس سے ملاقات ہوگی اس لیے ہم کو پھر اسی جگہ واپس لوٹنا چاہئے۔ پس لوٹ پڑے دونوں اپنے نشان قدم پر کھوج لگاتے ہوئے اور پھر اسی پتھر کے پاس واپس آگئے جہاں مچھلی بھولے تھے سو وہاں پہنچ کر ان دونوں نے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے رفیق یوشع بن نون نے ہمارے بندوں میں سے ایک خاص بندہ کو پایا یہ بندہ خدا وہی خضر (علیہ السلام) ہیں جن کی ملاقات کے لئے یہ سفر کیا اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اس خاص بندہ کے دو وصف بیان کئے۔ (اول) اتینہ رحمۃ من عندنا یعنی ہم نے اس کو اپنی خاص رحمت اور خاص عنایت سے سرفراز کی اتھا بعض کہتے ہیں کہ رحمت سے نبوت اور ہدایت مراد ہے اور جمہور مفسرین کے نزدیک رحمت سے ولایت اور مقبولیت مراد ہے اور فقط رحمت مجمل ہے جس میں دونوں معنی کا احتمال ہے اس لیے بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ حضر (علیہ السلام) ولی تھے نبی نہ تھے۔ (دوسرا وصف) اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ بیان فرمایا وعلمناہ من لدنا علما اور ان کو ہم نے اپنے پاس سے ایک خاص علم عطا کیا تھا جو نظروفکر سے حاصل نہیں ہوسکتا ہم نے اپنے پاس سے ان کو باطنی علم سکھایا وہ علم ہمارے ساتھ خاص ہے بغیر ہمارے سکھائے کوئی اس علم کو نہیں جان سکتا۔ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں ایسے ہی علم کو علم لدنی کہتے ہیں جس میں اسباب ظاہری کا دخل اور واسطہ نہ ہو اور عالم غیب سے براہ راست علم اس کے قلب میں داخل ہو ملائکہ پر جو منجانب اللہ علوم فائض ہوتے ہیں وہ اسی قسم کے ہوتے ہیں قلب میں عام طور پر جو علم داخل ہوتا ہی وہ حواس ظاہری کے دروازوں سے داخل ہوتا ہے ایسے علم کو علم حصولی اور علم اکتسابی کہتے ہیں اور جب کسی کے قلب میں کوئی دروازہ عالم ملکوت کی طرف کھل جائے اور بلا ان ظاہری دروازوں کے کوئی علم قلب میں پہنچ جائے تو ایسے علم کو علم لدنی کہتے ہیں جو علم قلب کے باہر کے دروازہ سے داخل اور حاصل ہو وہ علم حصولی ہے اور جو علم قلب کے اندر کسی باطنی دروازہ سے آئے وہ ” علم لدنی “ اور ” علم وہبی “ اور ” علم حضوری “ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خضر (علیہ السلام) کو اسرار غیبی اور باطنی حکمتوں اور مصلحتوں کا علم عطا فرمایا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو احکام شریعت کا علم عطا فرمایا تھا ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است چناچہ جب ملاقات ہوئی تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا انی علیٰ علم من علم اللہ علمنیہ لا تعلیم وانت علی علم من علم اللہ علمک اللہ لا اعلم یعنی مجھے اللہ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص مجھ کو عطا کیا ہے۔ (جس کا تعلق اسرار کونیہ اور جزئیات غیبیہ سے ہے یہ علم مجھ کو ایک خاص مقدار میں ملا ہے تم اس کو نہیں جانتے اور تم کو منجانب اللہ ایک خاص علم ملا ہے جس کا تعلق اسرار شریعت اور احکام ہدایت اور اصلاح امت سے ہے۔ یہ علم اللہ نے خاص تم کو سکھایا ہے اس علم کو نہیں جانتا مطلب یہ ہے کہ میرا علم اور تمہارا علم دو مختلف قسمیں ہیں۔ دونوں یکجا جمع نہیں ہوسکتیں اس لیے تم میرے ساتھ نہیں رہ سکتے اور وہاں ایک چڑیا دکھائی دی کہ دریا میں سے پانی پیتی تھی تو خضرت (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا اور تمہارا اور ساری مخلوقات کا علم اللہ کے سامنے ایسا ہے جیسے دریا میں سے چڑیا کے منہ میں ایک قطرہ آلگا ہے اور یہ بھی محض تفہیم کے لئے تھا ورنہ درحقیقت یہ نسبت بھی نہیں اس لیے کہ ساری دنیا کا علم بھی متناہی ہے اور اس کو خدا تعالیٰ کے غیر متناہی علم سے کیا نسبت۔ خدا تعالیٰ کے دریائے علم کی کوئی حد اور انتہاء نہیں جس کو جو علم ملا وہ اس کے دریائے علم کا ایک قطرہ ہے اور ایک قطرہ آب پر ناز کرنا مناسب نہیں اس دریا پر نظر کرو جہاں سے یہ قطرہ ملا ہے۔ خضر (علیہ السلام) کی اس بےمثال تمثیل وما اوتیتم من العلم الا قلیلا کی خوب تفسیر ہوگئی اور مشرکین مکہ نے جو اہل کتاب کے مشورہ سے آپ کے امتحان کے لیے تین سوال کئے تھے ان کے ساتھ اس قصہ کا ربط خوب ظاہر ہوگیا کہ نبی کے لیے تمام علوم کا عالم ہونا ضروری نہیں ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے وہاں پہنچ کر ان کو سلام کیا بعد ازاں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تعلیم دی گئی ہیں ان میں سے آپ کچھ مجھ کو بھی تعلیم کریں۔ موسیٰ (علیہ السلام) صاحب شریعت نبی اور رسول تھے علوم شریعت سے پورے واقف اور باخبر تھے لیکن جو علم خضر (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا اس علم کا تعلق شریعت سے نہ تھا بلکہ اس کا تعلق اسرار کونیہ اور امور باطنیہ سے تھا اور ایسے علم کا جس کا تعلق شریعت اور احکام خداوندی سے نہ ہو نبی کا غیر نبی سے ایسے علم کا سیکھنا نبوت کے منافی نہیں اور حدیث انتم اعلم بامور دنیاکم اس کی مؤید ہے معلوم ہوا کہ صاحب شریعت پیغمبر کا کسی غیر نبی سے ایسے امور کو سیکھنا کہ جن کا اصول دین اور فروغ دین سے کوئی تعلق نہ ہو شان نبوت کے منافی نہیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا اسے موسیٰ (علیہ السلام) تم میرے ساتھ رہ کر میری باتوں پر صبر نہیں کرسکو گے کیونکہ تم شریعت کے پابند ہو اور احکام شریعت کا دارومدار ظاہر پر ہے اور مجھ سے ایسے امور صادر اور سرزد ہوں گے کہ جو بظاہر شریعت کے خلاف ہوں گے اور ان کے اصل راز اور اندرونی حقیقت کی آپ کو خبر نہ ہوگی۔ آپ ان کو دیکھ کر حیران ہوں گے آپ کی نظر صرف ظاہر پر ہوگی اور اس شئے کی باطنی حکمتوں اور مصلحتوں کا آپ کو علم نہ ہوگا اس لئے آپ ایسے امور کو دیکھ کر صبر نہ کرسکیں گے میں جانتا ہوں کہ آپ میری باتوں کا انکار کریں گے اور آپ اس انکار میں بلاشنہ معذور ہوں گے اس لیے کہ ازروئے شریعت امر بالمعروف اور نہی عند المنکر فرض ہے اور آپ نبی ہیں اور نبی سے امور منکرہ پر صبر نہیں ہوسکتا۔ لیکن میں بھی ان امور کے کرنے میں معذور ہوں گا اس لیے کہ میں منجانب اللہ اس کا مامور ہوں گا اور من جانب اللہ میں اس کی باطنی حکمت و مصلحت پر مطلع ہوں گا اور آپ ان مصالح سے آگاہ نہ ہوں گے اس لیے آپ میری باتوں پر صبر نہ کرسکیں گے بہرحال آپ کے لیے میری باتوں پر صبر کرنا اور سکوت اور خاموشی اختیار کرنا بہت دشوار ہوگا اور اگر سوالات اور مؤاخذہ اور روک ٹوک کا سلسلہ جاری رہا تو تعظیم و تعلم کا سلسلہ کیسے جارہ رہ سکے گا اور بیشک آپ اس چیز پر کیسے صبر کرسکتے ہیں جو آپ کے احاطہ علم سے باہر ہو آپ کی نظر اس امر کی ظاہری قباحت پر تو ہوگی مگر اس کے باطنی محاسن آپ کے علم سے پوشیدہ ہوں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں کہا کہ اگرچہ میں ظاہر شریعت کا مکلف ہوں باطن سے مجھے کوئی سروکار نہیں لیکن میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی مخالفت نہ کروں گا۔ انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور حتی الوسع میں کسی بات میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو امر آپ سے صادر ہوگا اگرچہ وہ بظاہر میری نظر میں قبیح ہوگا مگر درحقیقت قبیح نہ ہوگا اس لئے کہ جب اللہ رب العالمین نے آپ کی معیت اور مصاحبت کا حکم دیا ہے تو یہ اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آپ کا جو کام ہوگا وہ عین منشاء خداوندی ہوگا اس لیے میں انشاء اللہ حتی الوسع اس پر صبر کروں گا صبر کا وعدہ فرمایا اور تبرک کے لیے انشاء اللہ کی قید لگا دی جیسا کہ انبیاء کی سنت ہے کما قال اللہ تعالیٰ ولا تقولن لشکیء انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء اللہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بطور تبرک اور بطریق توکل انشاء اللہ کہا کہ بندہ کا فعل خواہ صبر ہو اور خواہ شکر ہو سب اللہ کی مشیت پر موقوف ہے بندہ اپنے کسی قول اور فعل اور عمل میں مستقل نہیں لا حول ولا قوت الا باللہ العلی العظیم۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ سارا کلام درحقیقت حضرت خضر (علیہ السلام) کے اس قول انک لن تستطیع معی صبرا کا جواب تھا اہل فہم حضرات موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب باصواب پر غور فرمائیں کہ جس کے ہر لفظ اور ہر حرف سے ادب اور تواضع ٹپک رہی ہے۔ (اول) ہل اتبعک سے اتباع چاہی کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے آپ کو تابع کر دوں۔ (دوم) علی ان تعلمنی سے اقرار کیا کہ آپ عالم اور معلم ہیں اور میں آپ کا متعلم بننا چاہتا ہوں۔ (سوئم) مما علمت کہہ کر حضرت خضر (علیہ السلام) سے بعض علم کی درخواست کی کہ آپ اپنے علم میں سے کچھ حصہ اور اس کا کوئی جز مجھ کو مرحمت فرمائیں مطلب یہ تھا کہ میں تمہیں چاہتا کہ علم میں آپ کے برابر ہوجاؤں بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ جو علم آپ کو حاصل ہے اس میں سے کوئی جز مجھے عطا فرمائیں۔ (چہارم) یہ کہ علمت سے اس بات کا اقرار کیا کہ یہ علم آپ کو من جانب اللہ ملا ہے۔ (پنجم) لفظ رشدا سے اس بات کا اقرار کیا کہ وہ علم رشد و ہدایت ہے اس رشد میں سے کچھ عطا کیئے جانے کی درخواست کی۔ (ششم) ستجدنی انشاء اللہ ما یرا یعنی انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر پائیں گے۔ (ہفتم) ولا اعصی لک امرا یعنی آپ کے کسی حکم کی خلافت و رزی نہ کروں گا۔ ایک روایت میں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے تعلیم کی درخواست کی تو خضر (علیہ السلام) نے کہا اے موسیٰ ! کیا تمہیں توریت کا علم کافی نہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میں اللہ کے حکم سے حاضر ہوا ہوں اس پر خضر (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو اس بات کا خیال رکھنا کہ مجھے سے کسی چیز کے متعلق سوال نہ کرنا یہاں تک کہ میں خود تم کو اس کے حال سے آگاہ کر دوں مطلب یہ ہے کہ اگر ہم میرے ساتھ رہنا چاہئے ہو تو شرط یہ ہے کہ مجھ سے کچھ نہ پوچھنا اور نہ مجھ پر اعتراض کرنا کہ یہ کیوں کیا یا ایسا کیوں کیا یہاں تک کہ میں خود تم سے اس کا ذکر کروں۔ (تفسیر سراج منیر ص 321 ج 2) اب آئندہ آیات میں اللہ تعالیٰ ان وقائع کو بیان کرتے ہیں جو اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کے درمیان پیش آئے۔ پس ان شرائط کے تسلیم کرلینے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) خضر (علیہ السلام) کے ساتھ ہو لئے اور آگے روانہ ہوئے ظاہر یہ ہے کہ یوشع بن نون بھی ساتھ تھے کیونکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے تابع تھے اس لیے اصل متبوع یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کردیا اور تابع (یوشع بن نون) کا ذکر چھوڑ دیا اور قشیری (رح) کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر کی ملاقات کے بعد حضرت یوشع کو واپس کردیا (واللہ اعلم) بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) دونوں روانہ ہوئے اور چلتے چلتے ایسے مقام پر پہنچے جہاں کشتی پر سوار ہونے کی ضرورت پیش آئی ناخدا نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پہچان کر بصد تعظیم و تکریم کشتی میں مفت سوار کرلیا۔ یہاں تک کہ جب دونوں اس کشتی میں سوار ہوگئے تو کچھ دور چل کر حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ کر اس میں سوراخ کردیا موسیٰ (علیہ السلام) یہ دیکھ کر گھبرائے کہ اب کشتی میں پانی بھر جائے گا اور کشتی غرق ہوجائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے گھبرا کر کہا اے خضر کیا تو نے اس کشتی کو اس لیے پھاڑا ہے کہ کشتی والوں کو غرق کر دے اور بیوجہ سب کی جانیں ضائع ہوں اور احسان کا بدلہ نقصان سے دیں مال بھی برباد اور جانیں بھی برباد البتہ تحقیق تم نے عجیب ہی کام کیا ہے ایک تختہ نکال کر کشتی والوں پر آفت برپا کردی۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا میں نے کہا نہیں تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہ کر سکوگے۔ آخر وہی ہوا جو میں نے کہا تھا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں بھول گیا تھا۔ لہٰذا مجھے میری بھول چوک پر نہ پکڑو اور میرے معاملہ پر سختی نہ کرو تاکہ میرے لئے آپ کی معیت اور مرافقت میں دشواری نہ ہو بھول چوک میں نرمی اور چشم پوشی چاہئے نہ کہ مؤاخذہ اور سخت گیری فعل نسیان اللہ تعالیٰ کے نزدیک عدم کے حکم میں ہے پھر کشتی سے اتر کر دونوں آگے روانہ ہوئے اور ایک بستی میں پہنچے اور چند لڑکوں کے پاس سے گزرے جو کھیل رہے تھے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کمسن لڑکے سے ملے جو ان کھیلنے والوں میں سب سے زیادہ حسین و جمیل تھا حضرت خضر نے اس کو پکڑ کر مارڈالا قتل کردیا یا زمین پر لٹا کر چھری سے ذبح کردیا یا اس کا سر اس کے دھٹر سے جدا کردیا یا اس کا سر دیوار سے مار دیا اور مار کر چل کھڑے ہوئے ایک کمسن بچے کے اس حیرت انگیز قتل کو دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو جوش آگیا اور بولے اسے خضر کیا تو نے ایک پاک اور بےگناہ جان کر بغیر کسی جان کے عوض اور بدلہ کے یونہی مار ڈالا۔ یہ تو معصوم بچہ تھا اس نے تو کسی کا خون بھی نہیں کیا تھا ایسا معصوم بچہ اگر کسی کا خون بھی کر ڈالے تو اس پر قصاص نہیں آپ نے اس کو کیسے مار ڈالا ہے بیشک آپ نے بہت ہی ناپسندیدہ اور برا کام کیا جس کا عقل اور فطرت اور شریعت سب ہی انکار کرتی ہیں آپ کا یہ فعل پہلے فعل سے زیادہ سخت ہے آپ نے ایسا برا کام کیا جس کا تدراک بھی ممکن نہیں کشتی کے شگاف کا من وجہ تدارک ممکن ہے۔ مگر قتل کا تدارک ممکن نہیں مار ڈالنے کے بعد جان ڈالنا کسی کے اختیار میں نہیں نیز قتل سے جان کا نقصان یقینی ہے اور شگاف سے کشتی کا غرق ہونا یقینی نہیں ممکن ہے۔ کہ کشتی باوجود شگاف کے غرق نہ ہو یا لوگ کسی اور طرح سے بچ جائیں۔ الحمدللہ آج بتاریخ 14 ذی الحجہ الحرام یوم شنبہ سنہ 1389 ھ عصر اور مغرب کے درمیان پندرھویں پارہ کی تفسیر سے فراغت ہوئی۔ (فللہ الحمد اولا وآخرا) ۔
Top