Tafseer-e-Madani - An-Noor : 59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب بَلَغَ : پہنچیں الْاَطْفَالُ : لڑکے مِنْكُمُ : تم میں سے الْحُلُمَ : (حد) شعور کو فَلْيَسْتَاْذِنُوْا : پس چاہیے کہ وہ اجازت لیں كَمَا : جیسے اسْتَاْذَنَ : اجازت لیتے تھے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : جاننے ولاا، حکمت والا
اور جب تمہارے لڑکے بلوغ کی حد کو پہنچ جائیں، تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چای ہے جس طرح کہ ان کے بڑے اجازت لیتے ہیں3 اسی طرح اللہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام اور اللہ سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے۔
126 بلوغ کے بعد بچوں کے لیے بھی بڑوں کا حکم : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اور جب تمہارے وہ نابالغ لڑکے حدِّ بلوغ کو پہنچ جائیں "۔ یعنی جب وہ بالغ ہوجائیں یا بلوغ کے قریب پہنچ جائیں تو اس وقت ان کیلئے بھی وہی عام احکام ہیں جو کہ دوسرے بالغ مردوں کیلئے ہیں۔ اور محض اس بنا پر کہ یہ بچپن میں آیا جایا کرتے تھے ان کیلئے کوئی رعایت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت لینے کی قید سے مستثنیٰ صرف اسی وقت تک تھے جب تک کہ یہ چھوٹے اور نابالغ تھے اور بس۔ بالغ ہوجانے کے بعد ان پر بھی وہ تمام پابندیاں عائد ہوجائیں گی جو دوسروں کے لیے مذکور ہوئی ہیں۔ ان میں ان کے لیے کسی طرح کا کوئی استثناء نہیں ہوگا۔ کہ بڑے ہوجانے کے بعد ان کا حکم بھی بڑوں ہی کا ہے۔ 127 دین حنیف کے احکام کی انفرادی اور امتیازی حیثیت : سو اس سے دین حنیف کے احکام واوامر کی امتیازی حیثیت اور انفرادی نوعیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ اس طرح کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام۔ تاکہ تم لوگ ان پر عمل کر کے دارین کی سعادتوں سے بہرہ ور ہو سکو۔ کیونکہ یہ احکام اس خدائے رحمن و رحیم کی طرف سے ہیں جس کا علم بھی کامل اور اس کی حکمت بھی کامل ہے۔ اس لیے ان کا کوئی بھی متبادل ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ سو اس سے دین حنیف کے احکام واوامر کی امتیازی حیثیت اور انفرادی نوعیت واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی وضع و ترتیب میں کسی انسانی فکر وعمل کا کوئی دخل نہیں۔ بلکہ یہ خالص اللہ تعالیٰ کے تعلیم کردہ اور ارشاد فرمودہ ہیں۔ اور یہ اس کے کمال علم و حکمت پر مبنی ہیں۔ اور انسان کے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا مدارو انحصار انہی پر ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے اپنے احکام کو۔ اور اللہ بڑا ہی علم والا اور کمال حکمت والا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top