Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 2
قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْهُ وَ یُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا حَسَنًاۙ
قَيِّمًا : ٹھیک سیدھی لِّيُنْذِرَ : تاکہ ڈر سنائے بَاْسًا : عذاب شَدِيْدًا : سخت مِّنْ لَّدُنْهُ : اس کی طرف سے وَيُبَشِّرَ : اور خوشخبری دے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں الَّذِيْنَ : وہ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ لَهُمْ : کہ ان کے لیے اَجْرًا حَسَنًا : اچھا اجر
(بلکہ) سیدھی (اور سلیس اتاری) تاکہ (لوگوں کو) عذاب سخت سے جو اسکی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے اور مومنوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں خوشخبری سنائے کہ ان کے لیے (ان کے کاموں کا) نیک بدلہ (یعنی بہشت) ہے
قرآن قیم ہے : 2: قَیِّمًا (استقامت کے ساتھ) یہ فعل مضمر جَعَلَہٗ سے منصوب ہے۔ ای جعلہ قیمًا کیونکہ جب کجی کی اس سے نفی کردی تو گویا استقامت اس کے لئے خودثابت ہوگئی عِوَج کی نفی اور اثبات استقامت دونوں کو اسلئے جمع کردیا۔ باوجودیکہ ایک دوسرے سے مستغنی ہے۔ تاکہ تاکید ہوجائے بہت سے سیدھے لوگ جن کی استقامت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جانچ پڑتال کے وقت تھوڑی بہت ٹیڑھ سے خالی نہیں ہوتے۔ (اس لئے دونوں صفات لاکرا دنی کی بھی نفی کردی) نمبر 2۔ تمام کتابوں کا قرآن قیم ہے۔ ان کی تصدیق کرنے والا اور ان کی صحت کا گواہ ہے۔ لِّیُنْذِرَ (تاکہ وہ ڈرائے) ان لوگوں کو جو کفر کرنیوالے ہیں۔ بَاْسًا شَدِیْدًا (سخت پکڑ) یعنی سخت عذاب سے۔ لِیُنْذِرَ دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ہے اِنَّا اَنْذَرْنٰکُمْ عذاباقریبًا ] النساء : 40[ یہاں ایک پر اکتفاء کیا گیا ہے۔ اصل اس طرح ہے لینذرالذین کفروا باسًا شدیدًا بأس عذاب کو کہتے ہیں۔ یہاں اکتفاء علی المفعول کی وجہ یہ ہے۔ منذربہٖ وہی ہے جس کی طرف چلایا جارہا ہے پس اس پر اکتفاء کیا گیا۔ مِّنْ لَّدُنْہُ (جو اس کی طرف ہوگا) اس کی طرف سے صادر ہونے والا ہے۔ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ ( اور وہ خوشخبری دے ان ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرنے والے ہیں کہ ان کے لئے) اس وجہ سے کہ ان کے لئیاَجْرًا حَسَنًا (اچھا اجر ہے) یعنی جنت ہے۔
Top