Tafheem-ul-Quran (En) - Al-Ankaboot : 20
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌۚ
کہہ دا کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا پھر خدا ہی پچھلی پیدائش کرے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے
20: قُلْ (کہہ دیجئے) اے محمد ﷺ اور اگر یہ کلام ابراہیم (علیہ السلام) کا بقیہ ہو تو تقدیر عبارت یہ ہوگی۔ اوحینا الیہ ان قل : سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَالخْلْقَ (تم زمین میں چلو پھرو پس دیکھو کس طرح اس نے مخلوق کی ابتداء کی) ۔ ان کی کثرت تعداد اور کثرت احوال کے باوجود تاکہ تم فطرت الٰہی کو مشاہداتی رنگ میں دیکھ سکو۔ بدأ اور ابدأ دونوں کا ایک معنی ہے۔ ثُمَّ اللّٰہُ یُنْشِیُٔ النَّشْاَۃَ الْاٰخِرَۃَ (پھر اللہ تعالیٰ دوسری نشأت میں اٹھائے گا) ۔ اس سے مراد بعث ہے۔ قراءت : ابوعمرو اور مکی نے جہاں بھی آئے نشأۃ کو مد کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نشأتین دو ہیں۔ اور ان میں سے ہر ایک ابتداء اور اختراع اور عدم سے وجود دینا ہے۔ البتہ آخرت والی انشاء پہلی انشاء کی مثل ہے۔ اور پہلی انشاء اس طرح کی نہیں۔ قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ اس طرح کہا جائے۔ کیف بدأ اللّٰہ الخلق ثم ینشیٔ النشاۃ الاخرۃ۔ کیونکہ ان کے ساتھ گفتگو اعادہ کے سلسلہ میں تھی۔ جب ابداء میں یہ بات پختہ کردی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ تو ان کے خلاف اس طرح حجت پیش کی کہ اعادہ بھی اسی طرح انشاء ہے جیسا کہ ابداء ٗ جب اللہ ابداء سے عاجز نہ رہا تو لازمی ماننا پڑے گا کہ وہ اعادہ سے بھی عاجز نہیں۔ گویا اس طرح فرمایا۔ ثم ذاک الذی انشاء النشاۃ الاولی ہو الذی ینشی النشاء الاخرۃ۔ پھر وہ وہی ہے جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا وہی دوسری مرتبہ اٹھا کھڑا کرے گا۔ اس معنی پر متنبہ کرنے کے لئے اس نے اپنا نام ظاہر کیا اور اس کو مبتدأ بنایا۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے) ۔
Top