Mafhoom-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا جب تک میں دو دریائوں کے ملنے کی جگہ تک نہ پہنچ جاؤں ہٹنے کا نہیں، خواہ مدتوں چلتا رہوں۔
سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور سیدنا خضر (علیہ السلام) کا قصہ اور کئی نصیحتیں تشریح : اس قصہ کا ذکر ایک تو اس لیے کیا گیا کہ اہل عرب کے آنحضرت ﷺ سے تین سوالوں میں سے دوسرے کا جواب یہ تھا۔ پھر یہ کہ کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر ہرگز نہیں ہوسکتا اس کام کے کرنے کے لیے اللہ چاہے کسی کو بھی وسیلہ بنا دے۔ تیسرے یہ کہ ایک دینی اور اخلاقی قانون واضح کردیا گیا کہ غلطی چاہے عام انسان سے ہو یا نبی سے ہو اللہ اس کی پکڑ ضرور کرتا ہے۔ یہاں یہی سبق دیا گیا ہے کہ کبھی بھی اپنی بڑائی کا کلمہ منہ سے نہ نکالا جائے۔ ہوا اس طرح کہ کسی اجتماع میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کسی نے پوچھا کہ کیا آپ سے زیادہ کوئی دوسرا شخص عالم فاضل نہیں ہوسکتا ؟ تو آپ نے سادگی یا لاعلمی میں کہہ دیا کہ ہاں مجھ سے زیادہ کوئی اور علم نہیں رکھتا۔ تو اللہ کو یہ ناگوار گزرا اس لیے آپ کو خضر (علیہ السلام) کے پاس بھیج دیا تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آپ سے زیادہ علم رکھنے والا بھی موجود ہے اور پھر سب سے بڑا علیم و حکیم تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ جس کو جتنا علم دینا چاہے دے دیتا ہے اس میں کسی شخص کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ اسی لیے اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ دو دریائوں کے سنگم پر جائیں تو وہاں ان کو ایک شخص ملے گا جو ان سے بھی زیادہ علم والا ہے۔ اس شخص کا نام قرآن پاک میں نہیں بتایا گیا۔ احادیث میں ان کا نام حضرت خضر (علیہ السلام) بتایا گیا ہے۔ قرآن و احادیث کے دلائل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ یہ اللہ کے نبی تھے، کیونکہ تعلیم کے لیے ایک نبی کو دوسرے نبی کی طرف ہی بھیجا جاسکتا ہے ویسے موسیٰ (علیہ السلام) صاحب تورات ہیں، اس لیے ان کی فضیلت خضر (علیہ السلام) سے کہیں زیادہ ہے۔ مزید وضاحت 16 پارے میں کی جائے گی۔ ان شاء اللہ
Top