Mafhoom-ul-Quran - At-Tahrim : 12
وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ۠   ۧ
وَمَرْيَمَ : اور مریم ابْنَتَ عِمْرٰنَ : بیٹی عمران کی الَّتِيْٓ اَحْصَنَتْ : وہ جس نے حفاظت کی فَرْجَهَا : اپنی شرم گاہ کی فَنَفَخْنَا : تو پھونک دیا ہم نے فِيْهِ : اس میں مِنْ رُّوْحِنَا : اپنی روح سے وَصَدَّقَتْ : اور اس نے تصدیق کی بِكَلِمٰتِ : کلمات کی رَبِّهَا : اپنے رب کے وَكُتُبِهٖ : اور اس کی کتابوں کی وَكَانَتْ : اور تھی وہ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ : فرماں بردار لوگوں میں سے
اور دوسری عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دی اور وہ اپنے رب کے کلام اور اس کی کتابوں کو برحق سمجھتی تھیں اور فرمانبرداروں میں سے تھیں،
خلاصہ سورة التحریم بڑی ہی خوبصورت سورت ہے۔ انسانی فطرت کو بڑے اچھے انداز سے بیان کیا گیا ہے اور مرد وزن کو اپنے اپنے فرائض سے آگاہ کیا گیا ہے۔ جس میں سب سے اول اللہ کی اطاعت اور حدود اللہ کی حفاظت بتائی گئی ہے اور پھر بہترین مثالوں سے ان کو واضح کیا گیا ہے تاکہ انسان اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ نہ تو بےمقصد پیدا کیا گیا ہے اور نہ بےلگام چھوڑ دیا گیا ہے۔ بلکہ اس کی پوری زندگی امتحان ہے اور اس کا نتیجہ آخرت میں ملے گا۔ کوئی بندہ بشر اس سے آزاد نہیں۔ صرف اپنا کیا دھرا ہی کام آئے گا۔ سچ ہے اس منزل کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا جو زندگی کے لیے بہتر اور آسانیاں پیدا کرے کسی جہاد سے کم حیثیت کی مالک نہیں۔ قوت ارادی مضبوط ہو تو کائنات انسان کے سامنے جھک جاتی ہے اور خوف خدا کامیابی کا بہترین ہتھیار ہے۔ القرآن، اے پیغمبر ! کافروں اور منافقوں سے لڑو اور ان پر سختی کرو۔ (التوبہ 83) یاد رہے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد یہ حکم ہر مرد عورت بوڑھے جوان مسلمان کے لیے ہے۔ زندگی کے ہر مرحلہ میں برائیـ کے خلاف جہاد کے لیے تیار رہو۔ دوسری بات جو غلط فہمی دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس ضمن میں محمد بن علوی المالکی الحسینی کی کتاب سے نقل کیا جا رہا ہے لکھتے ہیں، مومن کو یہ نہیں چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی قول میں، استغفار، توبہ، خوف خدا اور رجوع کے الفاظ دیکھ کر فورا سوچے سمجھے بغیر آپ ﷺ کی ذات سے گناہ کو منسوب کر دے کیونکہ ایسی سوچ بلاشبہ فساد عقیدہ اور خسران مبین ہے۔ اللہ ہمیں ایسی بد عقیدگی سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اگر ان سے کسی امر میں سہو بھی ہوجائے یا مباح دینوی امور میں کچھ زیادتی ہوجائے تو بھی ان پر خوف خدا طاری رہتا ہے جن باتوں پر ان کا مواخذہ ہوتا ہے وہ اگرچہ گناہ نہیں تاہم انبیاء علیھم السلام کے منصب کے لحاظ سے گناہ ہوتے ہیں، اور ان کے کمال طاعت کی نسبت معاصی کہلاتے ہیں، جو ان کے گناہ ہوتے ہیں وہ دوسروں کے گناہوں کی طرح نہیں ہوتے کیونکہ ذنب یعنی گناہ گھٹیا اور ارذل شے کو کہتے ہیں اور اسی ذنب سے ذنب یعنی ہر شے کا آخری حصہ لیا گیا ہے الغرض لوگوں کے گناہ ان کے ارذل اور گھٹیا افعال ہیں۔ (انسان کامل ﷺ یہ گناہ کا لفظ عام انسانوں کے لیے تو ٹھیک ہے مگر انبیاء کے لئے مناسب نہیں۔ سورة الطلاق اور التحریم میں جو کچھ بیان کیا گیا وہ سب اللہ کی حکمتوں کا اظہار ہے۔ اور پھر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ بیشک آپ ﷺ بشر ہی تھے مگر تھے رحمت للعٰلمین، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے، اور ہم نے آپ ﷺ نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہانوں کے لیے،۔ (الانبیاء :107) اور پھر آپ ﷺ کے بلند درجہ کے بارے میں فرمانِ الٰہی ہے کہ، اگر پیغمبر کی ایذاء پر دونوں چڑھائی کرو گی تو اللہ، جبرائیل اور نیک کردار مسلمان اور فرشتے ان کے حامی و مددگار ہیں،۔ (آیت 4 التحریم ) اسی طرح حدیث میں آیا ہے۔ سیدناعبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے ہر ایک پر ایک جن اور ایک فرشتہ مقرر ہے،۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا، آپ ﷺ پر بھی، ؟ فرمایا ہاں مجھ پر بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر غلبہ عطاء فرمایا ہے اور مجھے اس کے شر سے بچا لیا۔ (الجامع الصحیح) اس سب کچھ کے باوجود آپ ﷺ دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ ہمیں بھی استغفار کو اپنا وظیفہ بنانا چاہیے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی حدود پر قائم رہنا ضروری ہے ایک حد سے بھی ہٹ گئے تو ایمان کی عمارت گر سکتی ہے۔ الحمد للہ سورة التحریم مکمل ہوئی
Top