Tafseer-e-Majidi - Al-Kahf : 28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ١ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا
وَاصْبِرْ : اور روکے رکھو نَفْسَكَ : اپنا نفس (اپنا آپ) مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ : وہ لوگ جو پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا چہرہ (رضا) وَلَا تَعْدُ : نہ دوڑیں، نہ پھریں عَيْنٰكَ : تمہاری آنکھیں عَنْهُمْ : ان سے تُرِيْدُ : تم طلبگار ہوجاؤ زِيْنَةَ : آرائش الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَلَا تُطِعْ : اور کہا نہ مانو مَنْ : جو۔ جس اَغْفَلْنَا : ہم نے غافل کردیا قَلْبَهٗ : اس کا دل عَنْ : سے ذِكْرِنَا : اپنا ذکر وَاتَّبَعَ : اور پیچھے پڑگیا هَوٰىهُ : اپنی خواہش وَكَانَ : اور ہے اَمْرُهٗ : اس کا کام فُرُطًا : حد سے بڑھا ہوا
اور آپ اپنے کو مقید رکھا کیجیے ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں صبح وشام محض اس کی رضاجوئی کیلئے،43۔ اور اپنی آنکھوں کو ان سے نہ ہٹایئے دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے اور اس شخص کا کہنا نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا معاملہ حد سے گزرا ہوا ہے،44۔
43۔ (نہ کہ کسی دنیوی غرض باطل سے) وصف ان مومنین کے اخلاص کامل کا بیان ہورہا ہے۔ (آیت) ” بالغدوۃ والعشی “۔ یعنی علی الدوام۔ دو وقتوں میں حصر مقصود نہیں۔ المراد کو نھم مواظبین علی ھذا العمل فی کل الاوقات (کبیر) شاع استعمال مثل ھذہ العبارۃ للدوام (روح) 44۔ (خواہش نفس کی پیروی میں) (آیت) ” ولا تعد عینک عنھم “۔ محاورہ میں اس سے مراد بےتوجہی، بےاعتنائی کرنے سے ہے۔ (آیت) ” ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا “۔ رسول اللہ ﷺ کو جوش وانہماک تبلیغ میں قدرۃ اس کی فکر زیادہ رہا کرتی تھی کہ رؤسا قریش میں سے کوئی ایمان لے آئے تو امت کے جمال و کمال میں نمایاں اضافہ ہوجائے۔ آیت میں اشارہ اس جانب ہے کہ امت کا جمال و کمال اس ظاہری سزاوسامان دنیوی اور مال وجاہ مادی سے نہیں، بلکہ وہ اخلاص و اطاعت کاملہ سے ہے،۔ خواہ ان کے وجود کا تحقق فقراء وغرباوعوام الناس ہی میں ہو۔ (آیت) ” من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا “۔ عنا دار ادی کا وبال یہ پڑتا ہے کہ حق کے لئے قلب میں کوئی طلب باقی نہیں رہ جاتی۔ اور اسی سزا کو تکوینی طور پر اپنی جانب بحیثیت مسبب الاسباب کے منسوب کردیا گیا ہے (آیت) ” ولا تطع “۔ فقہاء نے کہا ہے کہ یہ نہی تحریمی ہے۔ اس لیے اتباع فساق حرام ہے۔ (آیت) ” ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اغنیاء کی طرف ایسا میل و تواضع جس کی بنیاد ان کا غنا ہو آیت اس کی مذمت میں ہے۔ آیت آج کل کے بہت سے ” مصلحین “۔ کے لئے قابل غور ہے۔ آج ہر ” اصلاح “ پرزور (خواہ وہ عقاید سے متعلق ہو یا اعمال سے) سب سے زیادہ اسی پہلو سے دیا جاتا ہے کہ اس سے مسلمانوں کی مالی ومعاشی حیثیت چمک جائے گی یا اس سے مسلمان سیاسی اقتدار حاصل کرلیں گے وقس علی ھذا۔ غرض مقصود ومطلوب ہر ” اصلاح “ سے کسی نہ کسی پہلو اور اعتبار سے یہی دنیا اور اس کی سربلندیاں ہی رکھی جاتی ہیں۔ تعلیم قرآنی اس ذوق فاسد سے کس درجہ ابا کرتی ہے !
Top