Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 128
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
لَقَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آیا رَسُوْلٌ : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِكُمْ : تمہاری جانیں (تم) عَزِيْزٌ : گراں عَلَيْهِ : اس پر مَا : جو عَنِتُّمْ : تمہیں تکلیف پہنچے حَرِيْصٌ : حریص (بہت خواہشمند) عَلَيْكُمْ : تم پر بِالْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں پر رَءُوْفٌ : انتہائی شفیق رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
بیشک تمہارے پاس ایک پیغمبر آئے ہیں تمہاری ہی جنس میں سے جو چیز تمہیں مضرت پہنچاتی ہے انہیں بہت گراں گزرتی ہے تمہاری (بھلائی) کے حریص ہیں،240۔ ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق ہیں مہربان ہیں،241۔
240۔ (یعنی تمہارے دکھ سے یہ خود دکھ محسوس کرتے ہیں اور تمہارے ہر نفع کے بڑے آرزو مندرہتے ہیں ! یہ تھی شفقت رسول خدا کی خلق خدا کے ساتھ ! (لقد جآء کم رسول من انفسکم “۔ سوال پیدا ہوا ہے کہ ” کم “ کی ضمیر جمع مخاطب دونوں جگہ کس کی جانب ہے ؟ یعنی رسول اللہ کس کے درمیان آئے ہیں ؟ بعض نے کہا ہے کہ مخاطب عرب میں کہ آپ ﷺ اہل عرب کے درمیان بھیجے گئے تھے۔ لیکن قول محقق یہ ہے کہ خطاب ساری نوع انسان سے ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت تنہا عرب کی جانب نہیں، سارے عالم کی جانب تھی، قال الزجاجھی مخاطبۃ لجمیع العالم والمعنی لقد اجاء کم رسول من البشر (قرطبی) یرید انہ بشرمثلکم (کبیر) قیل الخطاب للبشر علی الاطلاق (روح) یحتمل ان یکون خطابا لبنی خطابا لبنی ادم (بحر) مشرک قوموں اور مشرک مزاج گروہوں کی سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کہ منصب رسالت پر کوئی بشر کیسے مامور ہوسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی بشریت پر بار بار زور دینا اسی عام گمراہی کے رد میں ہے۔ (آیت) ” عزیز علیہ “ الخ۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہ صفات ہیں جناب رسول اللہ ﷺ کے۔ اور چونکہ شیخ مربی بھی رسول ہی کا نائب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ صفات شفقت علی الخلق اس میں بھی ہونے ضروری ہیں۔ 241۔ جب آپ ﷺ کی شفقت ساری خلق اللہ کے لیے تھی اور آپ ﷺ کے دل میں درد نوع انسانی کے لیے تھا تو خاص مومنین کے ساتھ آپ ﷺ کے درجہ رافت وکرم اور شفقت وتعلق قلب کا کہنا ہی کیا !
Top