Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا۔ اور کیوں نہ کہا کہ یہ صریح طوفان ہے
لولا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنت بانفسہم خیرا جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں نے اپنے (یعنی اپنے بھائیوں کے) متعلق نیک گمان کیوں نہیں کیا۔ اِذْ سَمِعْتُمُوْہُیعنی جب تم نے یہ خبر سنی تھی تو اپنے دینی بھائیوں کے متعلق نیک گمان کیوں نہیں رکھتا۔ دوسرے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو۔ اَنْفُسِہِمْ (یعنی اپنی ذات) سے تعبیر کیا کیونکہ تمام مؤمن بلکہ ہر مذہب کے علمبردار آپس میں ایک ذات کی طرح ہوتے ہیں۔ بعض دوسری آیات میں بھی اسی طرح آیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے لاَ تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ ۔ لاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ۔ سَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْوغیرہ آیت میں تنبیہ ہے اس امر پر کہ ایمان کا تقاضا ہے تمام مؤمنوں کے متعلق اچھا گمان رکھنا ‘ ان پر نکتہ چینی کرنے سے باز رہنا جو لوگ مؤمنوں کی عیب چینی کریں ان کا دفاع اس طرح کرنا ‘ جس طرح اپنی ذات کے خلاف حرف گیری کے وقت کیا جاتا ہے (خلاصہ یہ کہ تمام مسلمانوں کو اپنا بھائی بلکہ اپنی ذات کی طرح سمجھنا ایمان کا تقاضا ہے) ۔ وقالوا ہذا افک مبین۔ اور کیوں (نہیں) کہا کہ یہ کھلا ہوا بہتان ہے۔ ایمان تو مدح اور تعظیم کا سبب ہے جو شخص اہل ایمان پر طعن وتشنیع کرتا ہے وہ گویا حقیقت ہی کو الٹ دیتا ہے اور تہمت تراشی اور غیبت کی وجہ سے فاسق و گنہگار ہوجاتا ہے اور فاسق کی شہادت قابل قبول نہیں ہے۔ مسئلہ اس آیت سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کے متعلق حسن ظن رکھنا واجب ہے ‘ جب تک کوئی شرعی دلیل اس کے خلاف موجود نہ ہو ہر مؤمن کے متعلق اچھا خیال رکھنا لازم ہے۔
Top