Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 49
مَا یَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ یَخِصِّمُوْنَ
مَا يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار نہیں کر رہے ہیں اِلَّا : مگر صَيْحَةً : چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک تَاْخُذُهُمْ : وہ انہیں آپکڑے گی وَهُمْ : اور وہ يَخِصِّمُوْنَ : باہم جھگڑ رہے ہوں گے
یہ تو ایک چنگھاڑ کے منتظر ہیں جو ان کو اس حال میں کہ باہم جھگڑ رہے ہوں گے آپکڑے گی
ما ینظرون الا صحیۃ واحدۃ تاخذہھم وھم یخصمون . یہ لوگ بس ایک سخت آواز کے منتظر ہیں جو ان کو آپکڑے گی ایسی حالت میں کہ وہ جھگڑ رہے ہوں گے۔ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً سے حضرت ابن عباس کے نزدیک پہلی بار صور پھونکاجانا مراد ہے۔ ایک شبہ : کافروں کا تو صور پھونکے جانے کا عقیدہ ہی نہ تھا ‘ پھر نفخۂ صور کا انتظار کرنے کا کیا معنی۔ الزالہ : انتظار کرنے سے مراد ہے گناہوں کو اس وقت تک ترک نہ کرنا کہ موت آجائے ‘ یا اچانک قیامت واقع ہوجائے۔ جب انہوں نے ساری عمر گناہ ترک نہ کئے تو درپردہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کو چھوڑ دینے کیلئے گویا وہ صور کی آواز کے منتظر ہیں۔ وَھُمْ یَخِصِّمُوْنَ یعنی ایسی حالت میں صور کی آواز آجائے کہ وہ دنیوی کاروبار میں مشغول ہوں ‘ لین دین ‘ کھیتی باڑی اور دوسرے معاملات میں باہم جھگڑ رہے ہوں اور دل میں قیامت برپا ہونے کا کوئی خیال بھی نہ ہو۔ شیخین نے صحیحین میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت ایسی حالت میں آجائے گی کہ دو آدمی (بائع اور مشتری) کپڑا پھیلائے ہوئے خریدو فروخت میں مشغول ہوں گے ‘ نہ عقد کو ختم کرچکے ہوں گے ‘ نہ کپڑے کو لپیٹ چکے ہوں گے (کہ اچانک صور کی آواز سنائی دے گی) اور قیامت ایسی حالت میں آجائے گی کہ آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر واپس آ رہا ہوگا اور کھانے نہ پائے گا اور قیامت ایسی حالت میں آجائے گی کہ آدمی نے لقمہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا ہوگا اور کھا نہ سکے گا (کہ قیامت برپا ہوجائے گی) رواہ ابوہریرہ۔ فریابی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قیامت ایسی حالت میں برپا ہوجائے گی کہ لوگ بازاروں میں خریدو فروخت کر رہے ہوں گے ‘ کپڑے ناپ رہے ہوں گے ‘ اونٹنیاں دوہ رہے ہوں گے اور دوسرے کاموں میں مشغول ہوں گے۔
Top