Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 175
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاؕ
فَاَمَّا : پس الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَاعْتَصَمُوْا : اور مضبوط پکڑا بِهٖ : اس کو فَسَيُدْخِلُهُمْ : وہ انہیں عنقریب داخل کرے گا فِيْ رَحْمَةٍ : رحمت میں مِّنْهُ : اس سے (اپنی) وَفَضْلٍ : اور فضل وَّ : اور يَهْدِيْهِمْ : انہیں ہدایت دے گا اِلَيْهِ : اپنی طرف صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے ان کو وہ اپنی رحمت اور فضل (کے بہشتوں) میں داخل کرے گا۔ اور اپنی طرف (پہچنے کا) سیدھا رستہ دکھائے گا
فاما الذین امنوا باللہ واعتصموا بہ جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اس کو (یعنی اس کے دین کو) مضبوطی سے پکڑ لیا۔ فسیدخلہم فی رحمتہ منہ وفضل تو اللہ ان کو اپنی رحمت و فضل میں ضرور داخل کرے گا۔ رحمت سے مرادجنت میں اور اتنا ثواب جو ایمان و عمل کے مقابلہ میں اللہ نے اپنی رحمت سے مقرر کردیا ہے اگرچہ کسی کا حق اللہ پر واجب نہیں۔ معتزلہ ہر نیکی کے ثواب کو اللہ پر واجب قرار دیتے ہیں۔ فضل سے مراد ہے اللہ کا وہ احسان جو مقررہ ثواب سے زائد ہوگا جیسے دیدارِ الٰہی اور درجات قرب۔ ویہدیہم الیہ صراطا مستقیما اور اپنے پاس تک پہنچنے کا ان کو سیدھا راستہ بتادے گا۔ الیہ سے مراد ہے اللہ کا وہ راستہ جو اللہ کی ذات بےکیف و بےمثال تک پہنچانے والا ہے اور صراط مستقیم سے مراد ہے اسلام ‘ طاعت ‘ صوفیہ کے راستہ پر چلنا اور آخرت میں جنت کا راستہ اور مقام دیدار و قرب۔ ابن مردویہ نے بیان کیا کہ حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے کلالہ کی میراث کا حکم دریافت کیا تو آیت ذیل نازل ہوئی۔
Top