Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 35
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو شِقَاقَ : ضد (کشمکش بَيْنِهِمَا : ان کے درمیان فَابْعَثُوْا : تو مقرر کردو حَكَمًا : ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِهٖ : مرد کا خاندان وَحَكَمًا : اور ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِھَا : عورت کا خاندان اِنْ : اگر يُّرِيْدَآ : دونوں چاہیں گے اِصْلَاحًا : صلح کرانا يُّوَفِّقِ : موافقت کردے گا اللّٰهُ : اللہ بَيْنَهُمَا : ان دونوں میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : بڑا جاننے والا خَبِيْرًا : بہت باخبر
اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کرا دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کردے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے
وان خفتم شقاق بینہما . اور اگر تم (اوپر والوں) کو میاں بیوی کے درمیان کشاکش کا اندیشہ ہو۔ (1) [ حضرت مولانااشرف علی تھانوی (رح) نے خفتمکا مخاطب اوپر والوں کو قرار دیا ہے اس لئے ہم نے مخاطب کو قوسین کے درمیان لکھ دیا لیکن مفسر (رح) نے حکام کو مخاطب قرار دیا ہے بعض احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ اسی آیت کی تشریح میں حضرت مفسر نے نقل کیا ہے ] خِفْتُم میں خطاب حکام کو ہے شقاق سے مراد ہے اختلاف اور دشمنی چونکہ ہر دشمن ایسا کام کرتا ہے جو اس کے مخالف کو شاق ہو اس لئے عداوت کو شقاق کہتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ ہر فریق ‘ دوسرے فریق کے مخالف شق کی طرف مائل ہوتا ہے اس لئے اختلاف کو شقاق کہتے ہیں۔ بینہما کی ضمیر میاں بیوی کی طرف راجع ہی مرجع ضمیر لفظ نشوز کے ذیل میں معنوی طور پر مذکور ہے کیونکہ نشوز کا معنی ہی ہے عورت کی طرف سے شوہر کی نافرمانی یا یوں کہا جائے کہ عورت نیز شوہر کی ضمیر کا ذکر آیت والتی تخافون نشوزہن میں موجود ہے۔ بینہما کی طرف شقاق کی اضافت مجازی ہے جیسے مَکْرُ اللَّیْلمیں (یعنی فی محذوف ہے) خوف کا معنی ہے غالب خیال یعنی میاں بیوی کے حالات اگر ایسے ہوجائیں کہ تم کو ان کے باہمی جھگڑے اور نفرت کا غالب گمان علامات دیکھ کر ہوجائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر۔ فابعثوا حکما من اہلہ وحکما من اہلہا . تو بھیجو ایک سمجھدار پنچ کو مرد کے قرابت داروں میں سے اور ایک سمجھدار کو عورت کے قرابت داروں میں سے۔ حکماً سے مراد ہے سمجھدار۔ منصف شخص جس میں فیصلہ کرنے کی قابلیت ہو یعنی مرد کے قرابت داروں میں سے کسی منصف سمجھدار آدمی کو مرد کے پاس بھیجو اور عورت کے قرابت داروں میں سے کسی منصف سمجھدار شخص کو عورت کے پاس بھیجو کیونکہ اقارب ہی اندرونی حالات سے بخوبی واقف ہوتے اور معاملہ کو سلجھانے کے درپے ہوتے ہیں۔ قرابت دار ہونے کی شرط استحبابی ہے اگر غیر لوگوں کو بھی مقرر کردیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ تحقیق حال کے بعد اگر مرد کی زیادتی معلوم ہو تو اس کو حکم دیں کہ یا دستور کے مطابق اور حسن سلوک کے ساتھ بیوی کو رکھے یا خوش اسلوبی کے ساتھ آزاد کر دے اور اگر عورت کی نافرمانی اور سرکشی ثابت ہو تو اس کو حکم دیں کہ یا شوہر کی اطاعت کرے ورنہ خلع کر کے آزاد ہوجائے۔ بغوی نے اپنی سند سے بحوالۂ شافعی عبیدہ کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں ایک مرد اور ایک عورت حاضر ہوئے دونوں کے سرپرست بھی ساتھ تھے۔ حضرت علی ؓ نے حکم دیا کہ ہر فریق کے قرابت داروں میں سے ایک ایک پنچ مقرر کرو حکم کی تعمیل کی گئی آپ نے دونوں پنچوں سے فرمایا کیا تم اپنے فرائض کو جانتے ہو تمہارا کام یہ ہے کہ اگر دونوں کا نبھاؤ ہوتا دیکھو تو اختلاف دور کر کے دونوں کو یکجا کردینا اور نبھاؤ نہ ہوتا دیکھو تو تفریق کرا دینا عورت نے کہا میرا نفع ہو یا نقصان میں اللہ کی کتاب کے فیصلہ کو تسلیم کرتی ہوں۔ مرد نے کہا علیحدگی تو نہیں ہوگی (باقی معاملات کا اختیار پنچوں کو ہے) حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا خدا کی قسم تو نے غلط کہا (پنچایت اس وقت تک نہ ہوگی) جب تک تو اسی طرح اقرار نہ کرے جس طرح عورت نے کیا ہے۔ (2) [ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا مجھے اور معاویہ ؓ کو پنچ بنا کر بھیجا گیا اور ہم سے کہہ دیا گیا کہ تمہاری رائے میں نبھاؤ ممکن ہو تو ملاپ کرا دینا اور جدائی بہتر ہو تو علیحدگی کرا دینا۔ حضرت عثمان ؓ نے (اپنے دور خلافت) میں یہ حکم دیا تھا۔] اسی بناء پر امام مالک (رح) کے نزدیک مرد کے پنچ کو طلاق دینے کا حق ہے خواہ مرد راضی نہ ہو اور عورت کے پنچ کو خلع کرنے کا اختیار ہے خواہ عورت راضی نہ ہو اور بدل خلع عورت کے مال سے ادا کیا جائے گا کیونکہ حضرت علی ؓ نے علیحدگی اور ملاپ دونوں کا اختیار پنچوں کو دیا تھا اور علیحدگی کا اختیار نہ دینے کی تردید کردی تھی۔ جمہور کا مسلک ہے کہ جب تک مرد طلاق کا اور عورت خلع کا اختیار نہ دیں ‘ پنچ از خود نہ تفریق کرا سکتے ہیں نہ خلع۔ بغیر اختیار دیئے تو ان کا فرض سلجھاؤ کرانا اور بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے اگر دونوں میں سے کوئی اپنی ضد پر قائم رہے تو پنچوں کا کام یہ ہے کہ حاکم کو اپنی تحقیقات کی رپورٹ کردیں اور حاکم شوہر کو حسن سلوک کے ساتھ اور دستور کے مطابق عورت کو رکھنے یا طلاق دینے کا حکم دے اور عورت کو مجبور کرے کہ وہ یا مرد کی نافرمانی چھوڑ دے یا خلع کرا لے اور بدل خلع ادا کرے۔ رہا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فیصلہ تو اس میں صاف موجود ہے کہ آپ نے شوہر سے فرمایا جب تک تو ایسا اقرار نہ کرے جیسا عورت نے کیا ہے۔ تیسرا قول غلط ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ طلاق کے لئے مرد کی رضامندی شرط ہے پنچوں کو از خود طلاق و تفریق کا اختیار نہیں ہے۔ اگر پنچ از خود ایسا کرے گا تو اس کا فیصلۂ تفریق نافذ نہ ہوگا۔ ان یرید اصلاحا یوفق اللہ بینہما . اگر دونوں پنچ (صحیح نیت کے ساتھ) میاں بیوی کے درمیان سلجھاؤ کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں موافقت پیدا کر دے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اصلاح سے مراد ہو تصفیہ اور معاملہ کو طے کرانا خواہ اتفاق کی شکل ہو یا جدائی کی صورت میں۔ یعنی اگر دونوں پنچ کوشش کریں گے کہ معاملہ کسی بہتر صورت سے طے ہوجائے خواہ نکاح کو باقی رکھنے کی شکل میں ہو یا طلاق کی صورت میں تو اللہ اس مناسب صورت کو ان کے درمیان پیدا کر دے گا یہ مطلب اس وقت ہوگا جب یُرِیْدَاکی ضمیر پنچوں کی طرف اور بَیْنَہُمَاکی ضمیر میاں بیوی کی طرف راجع کی جائے لیکن اگر دونوں ضمیریں پنچوں کی طرف لوٹائی جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ اگر پنچوں کے پیش نظر مظلوم کی حمایت ہو اور کسی فریق کی جنبہ داری مقصود نہ ہو تو اللہ دونوں کو متفق الرائے بنا دے گا اور مقصد پورا ہوجائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ضمیریں زوجین کی طرف راجع ہوں یعنی زوجین اگر آپس میں معاملہ کو سلجھانا چاہیں گے یا اس چیز کے طلب گار ہوں گے جو دونوں کے لئے مناسب ہو تو اللہ ان کے درمیان الفت پیدا کر دے گا یا ایسے فیصلہ کی توفیق عنایت کر دے گا جو دونوں کے لئے مناسب ہو۔ آیت مذکورہ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اگر خلوص نیت کے ساتھ کوئی شخص کام کرتا ہے تو اللہ اس کا نتیجہ اچھا ہی کرتا ہے۔ ان اللہ کان علیما . یعنی اللہ دلوں کی نیتوں اور نتائج عمل سے بخوبی واقف ہے۔ خبیرا . اور باخبر ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میاں بیوی میں سے کون ناحق ہے جو ناحق پر ہوگا اللہ اس کو سزا دے گا۔
Top