Al-Qurtubi - An-Nisaa : 35
وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِهِمَا فَابْعَثُوْا حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهٖ وَ حَكَمًا مِّنْ اَهْلِهَا١ۚ اِنْ یُّرِیْدَاۤ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰهُ بَیْنَهُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو شِقَاقَ : ضد (کشمکش بَيْنِهِمَا : ان کے درمیان فَابْعَثُوْا : تو مقرر کردو حَكَمًا : ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِهٖ : مرد کا خاندان وَحَكَمًا : اور ایک منصف مِّنْ : سے اَھْلِھَا : عورت کا خاندان اِنْ : اگر يُّرِيْدَآ : دونوں چاہیں گے اِصْلَاحًا : صلح کرانا يُّوَفِّقِ : موافقت کردے گا اللّٰهُ : اللہ بَيْنَهُمَا : ان دونوں میں اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : بڑا جاننے والا خَبِيْرًا : بہت باخبر
اور اگر تم کو معلوم ہو کہ میاں بیوی میں ان بن ہے تو ایک منصف مرد کے خاندان سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو وہ اگر صلح کر دینی چاہیں گے تو خدا ان میں موافقت پیدا کر دے گا کچھ شک نہیں کہ خدا سب کچھ جانتا اور سب باتوں سے خبردار ہے
آیت نمبر : 35۔ 36 اس آیت میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وان خفتم شقاق بینھما “۔ الشقاق کا معنی سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، گویا میاں، بیوی میں سے ہر ایک اپنی اپنی طرف لیتا ہے، (آیت) ” وان خفتم شقاق بینھما “۔ مصدر کو ظرف کی طرف مضاف کیا گیا ہے جیسا کہ تیرا قول یعجبنی سیراللیلۃ المقمرۃ، صوم یوم عرفۃ “۔ اور قرآن حکیم میں ہے۔ : (آیت) ” بل مکرالیل والنھار “۔ (سبا : 33) بعض علماء نے فرمایا : بین اسماء کے قائم مقام ہے اور اس سے ظرفیت زائل کی گئی ہے، کیونکہ بینھما ھالھما اور عشرتھما کے معنی میں ہے یعنی اگر خوف کرو تم ان کی عشرت اور صحبت کا فابعثوا “ تو مقرر کرو، وخفتم “۔ گزشتہ اختلاف پر ہے۔ سعید بن جبیر ؓ نے کہا : حکم یہ ہے کہ پہلے خاوند اسے نصیحت کرے اگر اس کو قبول کرے تو فبہا ورنہ اس کا بستر چھوڑ دے، اگر وہ ایسی صورت میں اطاعت کرے تو فبہا ورنہ خاوند اسے مارے، اگر وہ ایسی صورت میں قبول کرے تو فبہا ورنہ حاکم وقت ایک پنچ مرد کی طرف سے اور ایک پنچ عورت کی طرف سے مقرر کرے وہ دونوں ان کے ضرر کو دیکھی اگر صلح کی کوئی صورت نہ ہو تو خلع ہوگا، بعض علماء نے فرمایا خدوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اسے وعظ ونصیحت سے پہلے بھی سزا دے، لیکن آیت میں جو ترتیب ہے وہ واضح ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) جمہور علماء نے کہا : (آیت) ” وان خفتم “۔ کا مخاطب حکام اور امراء ہیں اور (آیت) ” ان یریدا اصلاحا یوفق اللہ بینھما “۔ سے مراد حکمین یعنی پنچ ہیں، یہ حضرت ابن عباس ؓ ، مجاہد (رح) وغیرہما کا قول ہے یعنی اگر پنچ اصلاح کا ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے درمیان کوئی نہ کوئی صورت پیدا فرما دے گا، بعض علماء نے فرمایا : مخاطب میاں بیوی، ہیں یعنی اگر میاں بیوی اصلاح کا ارادہ کریں جو کچھ انہوں نے پنچوں کو بتایا اس میں سچ بولیں تو اللہ تعالیٰ ان میں مصالحت کی صورت پیدا فرما دے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ خطاب اولیاء کو ہے یعنی تم میاں بیوی کے درمیان اختلاف جان لو تو پھر مرد کی طرف سے ایک پنچ اور عورت کی طرف سے ایک پنچ مقرر کرو اور وہ پنچ مرد اور عورت کی طرف سے ہوں، کیونکہ وہ دونوں میاں بیوی کے احوال بگاڑ کی طرف جانے سے روکیں گے اور وہ دونوں عادل ہوں حسن بصیرت اور حسن نظر کے حامل ہوں اگر ان کے اہل میں سے ایسے دو شخص نہ ہوں تو پھر کوئی اور دو شخص جا عادل اور عالم ہوں یہ اس وقت ہے جب معاملہ سمجھنا مشکل ہوجائے اور یہ معلوم نہ ہو کہ زیادتی کس کی طرف سے ہے۔ اگر ظالم کا علم ہوجائے تو دوسرے کے لیے اس کا حق لیا جائے گا اور ضرر کو دور کرنے کے لیے ظالم کو مجبور کیا جائے گا، کہا جاتا ہے : خاوند کی طرف کا پنچ خاوند سے علیحدگی میں پوچھے کہ تم مجھے اپنے دل کی بات بتاؤ کیا تم اس سے محبت کرتے ہو یا نہیں تاکہ میں تیری مراد جان لوں ؟ اگر وہ کہے کہ مجھے اس عورت کی کوئی ضرورت نہیں میرے لیے اس سے وہ لے لو جس کی تو طاقت رکھتا ہے اور میرے اور اس کے درمیان تفریق کر دو ، پس معلوم ہوجائے گا کہ مرد کی طرف سے زیادتی ہے اور اگر وہ کہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، میرے مال سے اس کو خوش کرو جو تو چاہتا ہے اور میرے اور اس کے درمیان تفریق نہ کرو، پس معلوم ہوجائے گا کہ مرد زیادتی کرنے والا نہیں۔ اور عورت کی طرف والا حکم عورت سے علیحدگی میں پوچھے اسے کہے، کیا تو اپنے خاوند سے محبت کرتی ہے یا نہیں ؟ اگر وہ کہے کہ میرے اور اس کے درمیان تفریق کر دو اور جو وہ ارادہ کرتا ہے میرے سے اسے دے دو ، معلوم ہوجائے گا کہ زیادتی عورت کی طرف سے ہے، اگر وہ کہے کہ ہمارے درمیان تفریق نہ کرو بلکہ اسے اس بات پر ابھارو کہ وہ میرے خرچ میں اضافہ کرے اور میرے ساتھ حسن سلوک کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ زیادتی عورت کی طرف سے ہے، اگر وہ کہے کہ ہمارے درمیان تفریق نہ کرو بلکہ اسے اس بات پر ابھارو کہ وہ میرے خرچ میں اضافہ کرے اور میرے ساتھ حسن سلوک کرے تو معلوم ہوجائے گا کہ زیادتی عورت کی طرف سے نہیں ہے، اگر دونوں پنچوں کے لیے ظاہر ہوجائے کہ زیادتی مرد کی طرف سے تھی تو دونوں پنچ اسے نصیحت کریں، اسے زجر و توبیخ کریں اور انہیں زیادتی سے منع کریں اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” فابعثوا حکما “۔ الایہ سے یہی مراد ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) علماء نے فرمایا : اس آیت نے عورتوں کی عقلی تقسیم کی، کیونکہ وہ یا تو اطاعت شعار ہوتی ہیں یا نافرمان ہوتی ہیں، پھر نافرمانی اور زیادتی اطاعت شعار کی طرف لوٹے گی یا نہیں، اگر پہلی صورت ہو تو دونوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا کیونکہ نسائی نے روایت کیا ہے کہ عقیل بن ابی طالب ؓ نے فاطمہ بنت عتبۃ بن ربیعہ سے نکاح کیا جب عقیل اپنی بیوی کے پاس گیا تو وہ کہنے لگی : اے بنی ہاشم ! اللہ تعالیٰ کی قسم میرا دل تم سے محبت نہیں کرتا وہ لوگ کہاں جن کی گردنیں چاندی کے لوٹے کی طرف ہیں، جن کے ناک، ان کے ہونٹوں کی طرف مڑے ہوئے ہیں، عتبہ بن ربیعہ کہاں، ابن شیبہ بن ربیعہ کہاں، عقیل یہ سب کچھ سن کر خاموش رہے حتی کہ وہ ایک دن اس کے پاس گئے جب کہ وہ پریشان وتنگ دل تھا، فاطمہ نے کہا : کہا ہے عتبہ بن ربیعہ ؟ عقیل نے کہا : تیری بائیں جانب آگ میں جب تو داخل ہوگی، فاطمہ نے اپنے کپڑے پھاڑ دیئے اور حضرت عثمان کے پاس آئی اور ان کے سامنے یہ سب ذکر کیا، حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کو بلایا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : میں ان کے درمیان تفریق کروں گا، حضرت ابن معاویہ نے کہا : میں بنی عبدمناف کے دو شیخوں کے درمیان تفریق نہیں کروں گا، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت معاویہ ؓ ان دونوں (میاں بیوی) کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں پایا کہ انہوں نے اپنے اوپر دروازہ بند کیا ہوا ہے اور دونوں اپنے معاملہ میں صلح کرچکے ہیں، اگر پنچ میاں بیوی کو اختلاف پر پائیں اور صلح نہ کریں اور ان کا معاملہ ناہموار ہو تو پہلے وہ ان دونوں اپنے معاملہ میں صلح کرچکے ہیں، اگر پنچ میاں بیوی کو اختلاف پر پائیں انہوں نے اپنے اوپر دروازہ بند کیا ہوا ہے اور دونوں اپنے معاملہ میں صلح کرچکے ہیں، اگر پنچ میاں بیوی کو اختلاف پر پائیں اور صلح نہ کریں اور ان کا معاملہ ناہموار ہو تو پہلے وہ ان دونوں میں محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات یاد دلائیں اور ایک دوسرے سے تعاون پر برانگیختہ کریں اگر وہ واپس آجائیں اور رجوع کرلیں تو انہیں چھوڑ دیں اگر دوسری صورت ہو اور دونوں پنچ جدائی کی رائے قائم کریں تو ان کے درمیان جدائی کردیں اور ان پنچوں کو جدائی کرنا میاں بیوی پر جائز ہے، خواہ شہر کے قاضی کا حکم اس فیصلہ کے موافق ہو یا مخالف ہو، میاں بیوی نے یہ معاملہ ان کے سپرد کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ اور انکے درمیان طلاق واقع نہ ہوگی جب تک کہ وہ دونوں انہیں اپنے پنچ نہ بنائیں اور وہ دونوں ان کے حالات سے امام وقت کو آگاہ نہ کریں، یہ اس بنا پر ہے کہ وہ دونوں رسول پیغام رساں اور گواہ ہیں، پھر امام اگر ارادہ کریتو ان میں تفریق کرے اور تفریق کا حکم دے، یہ امام شافعی کا قول ہے اور یہی ابو ثور کا قول ہے اور صحیح پہلا قول ہے، پنچوں کے لیے طلاق دینا ہے نہ وکالت کرنا ہے، یہ امام مالک (رح) اوزاعی اور اسحاق (رح) کا قول ہے۔ حضرت عثمان ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ سے اور شعبی اور نخعی سے مروی ہے اور یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نص ہے کہ وہ دونوں پنچ قاضی ہیں، وکیل نہیں ہیں اور گواہ ہیں، وکیل کے لیے شریعت میں ایک نام اور معنی ہے اور شریعت میں پنچ کے لیے علیحدہ اسم اور معنی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ہر ایک کو بیان فرمایا تو شاذ کے لیے مناسب نہیں تو پھر عالم کے لیے کیسے ہوگا کہ ایک کے معنی کو دوسرے پر جوڑے، دارقطنی نے محمد بن سیرین کی حدیث سے، عبیدہ سے اس آیت کے تحت روایت کیا ہے۔ (آیت) ” وان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا “۔ فرمایا : ایک شخص اور ایک عورت حضرت علی ؓ کے پاس آئے ہر ایک کے ساتھ لوگوں کا ایک گروہ تھا، حضرت علی ؓ نے انہیں حکم دیا کہ ایک مرد کی طرف پنچ اور ایک عورت کی طرف سے پنچ مقرر کرو، پھر آپ نے ان پنچوں سے فرمایا : تم جانتے ہو تم پر کیا لازم ہے ؟ تم پر یہ ہے کہ اگر تم ان کی جدائی کا نظریہ رکھو تو انہیں جدا کر دو ، عورت نے کہا : میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے فیصلہ پر راضی ہوں جو مجھ پر مرد کے لیے لازم ہوتا ہے اور جو میرا حق بنتا ہے، خاوند نے کہا میں جدائی نہیں چاہتا، حضرت علی ؓ نے فرمایا : تو نے جھوٹ بولا اللہ کی قسم ! تو اس جگہ سے نہیں جائے گا حتی کہ تو بھی اس عورت کی طرح اقرار کرلے یہ سند صحیح ہے اور ثابت ہے اور حضرت علی ؓ سے کئی وجوہ سے ابن سیرین عن عبیدہ (رح) کے سلسلہ سے ثابت ہے، یہ ابو عمر کا قول ہے اگر یہ دونوں وکیل اور گواہ ہوتے تو حضرت علی انہیں یہ نہ کہتے کہ کیا تم جانتے ہو تم پر کیا واجب ہے ؟ آپ فرماتے : کیا تم جانتے ہو جس کا تمہیں وکیل بنایا گیا ہے ؟ یہ واضح ہے امام ابوحنیفہ (رح) نے حضرت علی ؓ کے قول سے حجت پکڑی ہے جو آپ نے خاوند سے کہا تھا :” تو اپنی جگہ سے نہیں جائے گا حتی کہ تو راضی ہوجائے گا جس سے وہ راضی ہوئی “۔ پس یہ دلیل ہے کہ حضرت علی کا مذہب یہ ہے کہ وہ پنچ جدائی نہیں کریں گے مگر خاوند کی رضا سے، امام ابوحنیفہ (رح) کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ اجتماعی مسئلہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے یا مرد جس کے سپرد یہ اختیار کر دے، امام مالک (رح) اور ان کے متبعین نے اس کو اس باب سے شمار کیا ہے کہ سلطان، غلام اور عنین کی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اگر دونوں پنچ مختلف ہوجائیں تو ان کا قول نافذ نہ ہوگا، اور اس سے کچھ لازم نہ ہوگا مگر یہ کہ جس معاملہ پر دونوں پنچ متفق ہوجائیں، اسی طرح ہر پنچ کسی ایک معاملہ میں فیصلہ کرے، اگر ایک فرقت کا فیصلہ کرے اور دوسرا یہ فیصلہ نہ کرے یا ایک مال کا فیصلہ کرے اور دوسرا اس کا انکار کرے، کچھ بھی نہ ہوگا حتی کہ دونوں متفق ہوجائیں، امام مالک (رح) نے پنچوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ تین طلاقیں دے دیں تو ایک لازم ہوگی اور ان دونوں کے لیے جدائی ایک طلاق بائنہ سے زیادہ کے ساتھ نہ ہوگی، یہ ابن القاسم (رح) کا قول ہے، ابن القاسم (رح) نے کہا : تینوں طلاقیں بھی واقع ہوجائیں گی اگر دونوں پنچ ان پر جمع ہوجائیں، یہ مغیرہ، اشہب، ابن الماجشون اور اصبغ کا قول ہے۔ ابن المواز نے کہا : اگر ایک پنچ ایک طلاق کا فیصلہ کرے اور دوسرا تین طلاق کا فیصلہ کرے تو ایک ہوگئی، ابن حبیب نے اصبغ سے حکایت کیا ہے کہ یہ کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) ایک شخص کو میاں، بیوی کی طرف بھیجنا بھی جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زنا میں چار گواہوں کا فیصلہ کیا پھر نبی مکرم ﷺ نے زانیہ عورت کی طرف انیس کو اکیلا بھیجا تھا اور اسے فرمایا کہ اگر وہ عورت زنا کا اعتراف کرے تو اسے سنگسار کر دو ، عبدالملک نے ” المدونۃ “ میں اسی طرح کہا ہے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ 427) میں کہتا ہوں : جب ایک آدمی کو بھیجنا جائز ہے تو پھر میاں، بیوی ایک پنچ مقرر کرلیں تو جائز ہوگا یہ جواز کے اعتبار سے اولی ہے جب دونوں اس پر راضی ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے حکم بھیجنے کا حکم، حکام کو دیا ہے نہ کہ میاں، بیوی کو دیا ہے، اگر میاں بیوی دو پنچ مقرر کریں اور وہ کوئی فیصلہ کریں تو ان کا فیصلہ نافذ ہوگا، کیونکہ ہمارے نزدیک تحکیم جائز ہے اور پنچ کا فیصلہ ہر مسئلہ میں نافذ ہوگا جب ہر پنچ عادل ہو، اگر عادل نہ ہو تو عبدالملک نے کہا : اس کا فیصلہ ٹوٹ جائے گا، کیونکہ انہیں دھوکے کا خطرہ ہے، ابن عربی نے کہا : صحیح یہ ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہوگا، کیونکہ وہ وکیل بنایا گیا تھا اور وکیل کا فعل نافذ ہوتا ہے، اگر وہ حکم بنایا گیا تھا تو انہوں نے خود اسے اپنے نفسوں پر مقدم کیا اور دھوکا اس میں موثر نہیں جس طرح تو کیل کے باب میں موثر نہیں ،۔ قضا کا باب تمام دھوکے پر مبنی ہے اس میں محکوم علیہ کا اس کو جاننا لازم نہیں جس کی وجہ سے فیصلہ اس کی طرف لوٹا ہے (2) (ایضا) ابن عربی نے کہا پنچوں کا مسئلہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نص ہے اور میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور اختلاف کے ظہور کے وقت پنچ کے ساتھ فیصلہ ہوگا یہ ایک عظیم مسئلہ ہے، اس کی اصل پر امت کا اجماع ہے کہ حکم مقرر کیے جائیں گے اگرچہ اس پر جو مسائل مرتب ہوتے ہیں ان کی تفصیل میں اختلاف ہے، ہمارے شہر کے اہل علم پر تعجب ہے جو کتاب وسنت کے حکم سے غافل رہے اور انہوں نے کہا : ان دونوں کو ایک امین شخص کے سپرد کیا جائے گا اس قول میں نص کی مخالفت ہے جو تم پر مخفی نہیں ہے، نہ تو انہوں نے کتاب اللہ کے مطابق حکم دیا اور نہ قیاس سے یہ جسارت کی، میں نے اس کو حقیقت کی طرف بلایا تو اس نے مجھے ناچا کی کے وقت دو پنچوں کو بھیجنے کا جواب نہ دیا، مگر ایک قاضی کی طرف بھیجنے کو کہا اور نہ ایک گواہ کے ساتھ قسم کے ذریعہ فیصلے کرنے کو تسلیم کیا مگر دوسرے گوہ کی موجودگی ضروری قرار دی جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اس امر پر قدرت دی تو میں نے سنت کو اس طرح جاری کیا جس طرح مناسب تھا، ہمارے علاقہ کے علماء پر تعجب نہ کرو، کیونکہ انہیں جہالت نے گھیر رکھا ہے لیکن امام ابوحنیفہ پر تعجب ہے جن کے پاس دو پنچوں کے بارے کوئی خبر نہیں بلکہ اس سے دوگنا تعجب امام شافعی پر ہے کیونکہ انہوں نے کہا : وہ چیز جو ظاہر آیت کے مشابہ ہے وہ یہ ہے جس میں دونوں میاں، بیوی برابر ہوں حتی کہ اس میں دونوں کے حالات مشابہ ہوں۔ فرمایا یہ اس لیے ہے کہ میں نے پایا کہ اللہ تعالیٰ نے خاوند کی زیادتی کی صورت میں صلح کی اجازت دی اور حدود الہیہ کو قائم کرنے کی صورت میں خلع کی اجازت دی اور یہ عورت کی رضا کے مطابق ہونے کے مشابہ ہے اور منع فرمایا کہ مرد نے جو کچھ عورت کو دیا تھا اس میں سے واپس لے جب خاوند اپنی بیوی کی جگہ دوسری بیوی تبدیل کرنا چاہتا ہو۔ جب میاں بیوی کی ناچاقی کی صورت میں دو پنچوں کو مقرر کرنے کا حکم دیا تو یہ دلیل ہے کہ ان کا فیصلہ میں کے فیصلہ کے خلاف ہے، جب معاملہ اس طرح ہوگا تو ایک پنچ خاوند کی طرف سے اور ایک پنچ عورت کی طرف سے مقرر کیا جائے گا اور دونوں پنچ میاں بیوی کی رضا پر متعین ہوں گے اور اس کے سپرد ہوگا ان کا جمع کرنا اور ان میں جدائی کرنا، جب وہ جدائی کو ہی بہتر دیکھیں یہ دلیل ہے کہ دونوں پنچ میاں بیوی کے وکیل ہیں، ابن عربی (رح) نے کہا : یہ امام شافعی (رح) کے کلام کی انتہاء ہے اور ان کے اصحاب اس پر خوش ہوتے ہیں، حالانکہ اس میں کوئی چیز قابل التفات نہیں ہے اور نہ اس کا نصاب علم میں بہتر ہے، قاضی ابو اسحاق نے ان کا رد کیا ہے لیکن اکثر کلام میں انہوں نے انصاف نہیں کیا، رہا امام شافعی (رح) کا قول کہ ” ظاہر آیت جس کے مشابہ ہے وہ یہ ہے کہ میاں بیوی برابر ہیں “ حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ واضح طور پر قرآن حکیم میں ہے : (آیت) ” الرجال قومون علی النسآئ “۔ اور جس کو اپنی بیوی سے زیادتی کا اندیشہ ہو تو وہ اسے وعظ کرے اگر وہ اطاعت کی طرف لوٹ آئے تو فبہا ورنہ اس کے بستر سے علیحدہ ہوجائے، اگر وہ مان جائے تو فبہا ورنہ اسے سزا دے اگر پھر بھی عورت اپنی زیادتی پر قائم رہے تو دو پنچ ان کی طرف جائیں، یہ اس صورت میں ہے اگر نص نہ ہو اور قرآن میں بیان نہ ہو اور اس کو چھوڑ دے جو نص نہ ہو، وہ ظاہر ہوگا، رہا امام شافعی (رح) کا قول کہ ” ظاہر کے مشابہ ہے “ ہم نہیں جانتے کہ ظاہر کے مشابہ کیا ہے پھر امام شافعی (رح) نے کہا : جب انہیں حدود الہیہ کو قائم نہ کرنے کا اندیشہ ہو تو خلع کا حکم فرمایا۔ یہ عورت کی رضا کے مشابہ ہے بلکہ ایسا ہونا واجب ہے، یہی اس حکم کی نص ہے، پھر فرمایا جب دو پنچوں کا حکم دیا تو ہم نے جان لیا کہ پنچوں کا حکم خاوندوں کے حکم کے علاوہ ہے اور واجب ہے کہ وہ اس کا غیر ہو اس طرح کہ ان پر ان کا حکم بغیر اختیار کے نافذ ہو، پس غیریت متحقق ہوگی اور جب وہ ان پر وہ نافذ کریں جن کا میاں بیوی نے انہیں وکیل بنایا تھا تو وہ میاں، بیوی کے فیصلہ کے خلاف نہ کریں تو غیریت متحقق نہ ہوئی، رہا امام شافعی کا یہ قول کہ ” میاں بیوی کی رضا اور ان کی توکیل کے ساتھ “ یہ واضح خطا ہے اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے علاوہ کو خطاب فرمایا ہے جب میاں بیوی کے درمیان پنچوں کے بھیجنے کے ساتھ بھی ناچاقی کا اندیشہ ہو اور جب مخاطب ان دونوں کے علاوہ ہوں تو یہ ان کی توکیل سے کیسے ہوگا ؟ اور ان دونوں کے لیے حکم صحیح نہ ہوگا، مگر جس پر دونوں پنچ جمع ہوجائیں (1) یہ انصاف کی صورت ہے اور رد کی تحقیق ہے، آیت میں تحکیم کے اثبات پر دلیل ہے، اس طرح نہیں جس طرح خوارج کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کے لیے تحکیم نہیں ہے، یہ کلمہ حق ہے مگر وہ اس سے باطل مراد لیتے ہیں۔ اس آیت میں اٹھارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) علماء کا اجماع ہے کہ یہ آیت محکم ہے اس میں سے کوئی چیز منسوخ نہیں ہے، یہ تمام کتب میں اسی طرح ہے اگر یہ اس طرح نہ بھی ہوتی تو یہ عقل کی جہت سے معلوم ہوجاتی، اگر اس کے ساتھ کتاب نازل نہ بھی ہوتی، عبودیت کا معنی تذلل اور افتقار پہلے گزر چکا ہے اور یہ فقط اس ذات کے لیے ہے جس کے لیے حکم اور اختیار ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے لیے عبادت کرنے اور عبادت میں اخلاص کا حکم دیا ہے یہ آیت اللہ تعالیٰ کے لیے خالص اعمال کرنے اور اعمال کا ریاکاری سے پاک ہونے کی اصل ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملا صالحا ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا “ (الکہف) حتی کہ علماء نے فرمایا : جس نے ٹھنڈک کی خاطر طہارت کی یا معدہ کی اصلاح کے لیے روزہ رکھا اور ساتھ ساتھ تقرب کی بھی نیت کی تو یہ جائز نہ ہوگا، کیونکہ تقرب کی نیت میں اس نے دنیوی نیت کو ملا دیا اور اللہ کے لیے صرف وہ عمل ہوتا ہے جو خالص ہو جیسا کہ اللہ نے فرمایا : (آیت) ” الا للہ الدین الخالص “۔ (الزمر : 3) ترجمہ : خبردار : صرف اللہ کے لیے ہے دین خالص۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین “۔ (البینۃ : 5) ترجمہ : حالانکہ نہیں حکم دیا گیا تھا انہیں مگر یہ کہ عبادت کریں اللہ تعالیٰ کی، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ اسی طرح جب کوئی امام رکوع میں ہو اور کسی کی آمد محسوس کرے تو اس کا انتظار نہ کرے رکوع میں اس کا انتظار اس کے رکوع کو خالص اللہ کے لیے ہونے سے نکال دے گا۔ صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا : میں شرکاء کے شرک سے غنی ہوں، جس نے ایسا عمل کیا جس میں اس نے میرے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا تو میں نے اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیا ہے۔ (1) دارقطنی نے حضرت ان بن مالک ؓ سے روایت کیا فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے روز صحیفوں کو لایا جائے گا جن پر مہر لگائی ہوگی پھر انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھا جائے گا اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا : اس کو پھینک دو اور اس کو قبول کرلو، فرشتے عرض کریں گے : تیری عزت کی قسم ! ہم نے نہیں دیکھا مگر خیر کو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، حالانکہ وہ بہتر جانتا ہے یہ میرے غیر کے لیے تھا، آج میں قبول نہیں کروں گا مگر صرف وہی عمل جو میری رضا کے لیے کیا گیا ہوگا “۔ (2) ضحاک بن قیس فہری سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں شریک سے بہتر ہوں جس نے میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہریا ہے وہ میرے شریک کے لیے ہے، اے لوگو ! ، خالص اللہ تعالیٰ کے لیے اعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو خاص اس کے لیے ہو اور یہ نہ کہو : یہ اللہ کے لیے ہے اور رحم کے لیے ہے وہ عمل رحم کے لیے اس میں سے کچھ نہیں ہے، یہ نہ کہو کہ یہ اللہ کے لیے ہے، یہ تمہارے لیے ہے، یہ تمہارے لیے ہے اس سے اللہ کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مسئلہ : جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لو کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں : شرک کے تین مراتب ہوتے ہیں اور تمام حرام ہیں۔ شرک کی اصل یہ ہے کہ الوہیت میں اللہ تعالیٰ کے شریک کا اعتقاد رکھنا، یہ شرک اعظم ہے اور یہ جاہلیت کا شرک ہے اللہ تعالیٰ کے (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ سے یہی مراد ہے اور پھر اس سے متصل فعل میں اللہ تعالیٰ کے شریک کا اعتقاد رکھنا ہے۔ یہ اس کا قول ہے جو کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا موجود ہے جو فعل کے کرنے ایجاد میں مستقل ہے اگرچہ وہ اس کے الہ ہونے کا اعتقاد نہ بھی رکھتاہو، جیسے قدریہ فرقہ جو اس امت کے مجوسی ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ان سے براءت کا اظہار کیا جیسا کہ حدیث جبریل میں ہے اور پھر اس سے متصل شرک فی العبادۃ ہے اور یہ ریاکاری ہے، یعنی کوئی شخص ان عبادات میں سے کوئی عبادت غیر اللہ کے لیے کرے جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی حرمت کے لیے آیات اور احادیث بیا کی گئی ہیں۔ یہ اعمال کو باطل کرنے والا ہے اور یہ مخفی ہے جس کو ہر جاہل کند ذہن نہیں پہچانتا، اللہ تعالیٰ محاسبی سے راضی ہو انہوں نے اپنی کتاب (الرعایۃ) میں اس کو اعمال کو فاسد کرنے والا بیان کیا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید بن ابی فضالہ انصاری سے مروی ہے اور یہ صحابہ میں سے تھے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اولین وآخرین کو جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک نہیں تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا جس نے کسی عمل میں اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک ٹھہرایا تھا وہ اپنا بدلہ اس غیر اللہ سے طلب کرے، کیونکہ اللہ شرکاء کے شرک سے مستغنی ہے “۔ (3) (سنن ابن ماجہ کتاب الزہد جلد 1، صفحہ 320) سنن ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے فرمایا : ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جب کہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا میں تمہیں اس چیز کے متعلق نہ بتاؤں جو تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ خوفناک ہے ؟ ہم نے عرض کی : کیوں نہیں یارسول اللہ ﷺ ضرور کرم فرمائیے آپ ﷺ نے فرمایا : شرخ خفی یہ ہے کہ ایک شخص نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو اور اپنی نماز کو اس کے لیے مزین کرے جو اسے دیکھ رہا ہے “۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد جلد 1، صفحہ 320) حضرت شداد بن اوس سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” مجھے سب سے زیادہ خوف اپنی امت پر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے میں نہیں کہتا کہ وہ سورج کی پوجا کریں گے یا چاند کی پوجا کریں گے یا بت کی پوجا کریں گے لیکن وہ غیر اللہ کے لیے اور خفیہ شہوت کے لیے اعمال کریں گے “۔ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد جلد 1، صفحہ 320) اس حدیث کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے سورة الکہف کے آخر میں مزید بیان آئے گا، اس میں خفیہ شہوت کا بیان ہے، ابن الہیعہ نے یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ سے شہوت خفیہ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا ” وہ شخص جو علم حاصل کرے جو پسن کرتا ہے کہ اس کے پاس بیٹھا جائے “۔ سہل بن عبداللہ تستری نے کہا : ریا کی تین صورتیں ہیں۔ (1) جو اپنے فعل میں غیر اللہ کی نیت کرتا ہے اور اس سے ارادہ یہ کرتا ہے کہ یہ جانا جائے کہ یہ اللہ کے لیے ہے، یہ نفاق کی ایک قسم ہے اور ایمان میں تشکک ہے۔ (2) کسی عمل میں اللہ کے لیے داخل ہوتا ہے جب کوئی شخص اس پر مطلع ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے، یہ جب توبہ کرے تو سابقہ تمام عمل کا اعادہ کرے۔ (3) کسی عمل میں اخلاص کے ساتھ داخل ہوا اور اس سے فارغ بھی اللہ کے لیے ہو پھر اس کا یہ عمل جانا گیا اور اس پر مدح کی گئی اور وہ لوگوں کی مدح پر خاموش رہا، یہ رہا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ سہل نے کہا : لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا : ریا یہ ہے کہ تو اپنے عمل کا ثواب دنیا میں طلب کرے، قوم کا عمل آخرت کے لیے تھا، لقمان سے پوچھا گیا : ریا کا علاج کیا ہے ؟ لقمان نے کہا : عمل کا چھپانا، پھر پوچھا گیا : عمل کیسے چھپایا جائے گا ؟ فرمایا تو عمل کے ظاہر کرنے کا مکلف نہیں کیا گیا پس تو ہر عمل میں اخلاص کے ساتھ داخل ہو اور جس کے اظہار کے ہم مکلف نہیں میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ اس پر اللہ کے سوا کوئی مطلع نہ ہو فرمایا : ہر وہ عمل جس پر مخلوق مطلع ہوجائے اس کو عمل سے شمار نہ کر، ایوب سختیانی نے کہا : وہ عقلمند نہیں جو اپنے عمل کی وجہ سے اپنا مقام پہچاننا پسند کرے۔ میں کہتا ہوں : سہل کا قول کہ ” عمل میں اخلاص کے ساتھ داخل ہو الخ “۔ اگر اس کا سکون اور سرور اس لیے ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی قدرومنزلت پیدا ہوگی پھر وہ اس کی تعریف کریں گے اور اس کا عزت واحترام کریں گے اور وہ ان سے مال وغیرہ حاصل کرنا چاہتا ہو تو یہ مذموم ہے کیونکہ اس کا دل ان کے اطلاع پانے کی وجہ سے کوشی سے بھرا ہوا ہے، اگرچہ وہ اس عمل سے فارغ ہونے کے بعد مطلع ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس پر مخلوق کو مطلع کر دے جب کہ وہ لوگوں کی اس پر اطلا کو پسند نہیں کرتا تھا پرھ وہ اللہ کی صنع اور اللہ کے فضل کے ساتھ خوش ہو تو اللہ کے فضل پر اس کا خوش ہونا اطاعت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا، ھو خیرمما یجمعون “۔ (یونس) (اے حبیب ! فرمائیے یہ کتاب محض اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے نازل ہوئی ہے پس چاہیے کہ اس پر خوشی منائیں یہ بہتر ہے ان تمام چیزوں سے جن کو وہ جمع کرتے ہیں) اس کی تفصیل اور تتمیم محاسبی کی ” الرعایۃ “ میں ہے جو تفصیل پڑھنا چاہتا ہے وہ وہاں سے آگاہی حاصل کرے۔ سہل سے نبی کریم ﷺ کی حدیث کے متعلق پوچھا گیا : ” میں عمل کو مخفی کرتا ہوں پھر اس پر اطلاع ہوجاتی ہے تو مجھے اچھا لگتا ہے “ سہل نے فرمایا : وہ اللہ کے شکر کی وجہ سے خوش ہوتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ظاہر کردیا، یہ کلام ریا میں اور اعمال میں خلوص کے بارے میں کافی ہے اور سورة بقرہ میں اخلاص کی حقیقت گزر چکی ہے۔ والحمد للہ۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ اس سورة کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ ولدین سے احسان کا مطلب ان کو آزاد کرنا ہے اور سورة سبحان الذی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تفصیل سے آئے گا، ابن ابی عبلۃ نے احسان یعنی رفع کے ساتھ پڑھا یعنی واجب الاحسان الیھما “۔ باقی قراء نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے اس معنی کی بنا پر کہ احسنوا الیھما احسانا “۔ ان سے حسن سلوک کرو۔ علماء نے فرمایا : خالق اور احسان کرنے والے کے شکر کے بعد سب سے زیادہ احسان کرنے، حسن سلوک کرنے اور طاعت کے حقدار انسان کے والدین ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت، اطاعت، اور شکر کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کو ملا کر ذکر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (آیت) ” ان اشکرلی ولوالدیک “۔ (لقمان : 14) ترجمہ : کہ شکر ادا کرو میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ شعبۃ اور ہشیم الواسطیان نے یعلی بن عطا سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” رب کی رضا والدین کی رضا ہے اور والدین کی ناراضگی میں رب کی ناراضگی ہے “۔ (1) (تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، جلد 1 صفحہ 440) مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وبذی القربی والیتمی والمسکین “۔ اس پر کلام سورة بقرہ میں گزر چکی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والجار ذی القربی والجار الجنب “۔ اللہ تعالیٰ نے پڑوسی کی حفاظت کے حقوق کا قیام، اس کے ذمہ کی رعایت کا حکم اپنی کتاب میں اور اپنے نبی کی زبان پر حکم دیا ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے والدین اور اقرباء کے ذکر کے بعد پڑوسی کا ذکر کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” والجار ذی القربی “۔ یعنی قریبی پڑوسی اور الجار الجنب سے مراد دور کا پڑوسی ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، اسطرح لغت میں ہے اسی سے ہے فلان اجنبی اسی طرح الجنایۃ کا معنی دوری ہے اہل لغت نے بطور دلیل یہ شعر پڑھا ہے۔ : فلا تحرمنی نائلا عن جنابۃ فانی امرء وسط القباب غریب : (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 50 دارالکتب العلمیہ) اور اعشی نے کہا : اتیت حریثا زائرا عن جنابۃ مکان حریث عن عطائی جامدا : (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 50 دارالکتب العلمیہ) اعمش اور منفضل نے والجار الجنب کو جیم کے فتحہ اور نون کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، یہ دونوں لغتیں ہیں کہا جاتا ہے : جنب وجنب، اجنب واجنبی “۔ جب کہ ان دونوں کے درمیان رشتہ داری نہ ہو اور اس کی جمع اجانب ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ مضاف کے حذف کی تقدیر پر ہے یعنی والجار ذی الجنب “۔ یعنی طرف والا، نوف الشامی نے کہا : الجار ذی القربی سے مراد مسلمان ہے اور الجار الجنب سے مراد یہودی ونصرانی ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 50 دارالکتب العلمیہ) میں کہتا ہوں : اس بنا پر پڑوسی کے متعلق وصیت جس کا حکم دیا گیا ہے وہ مستحب ہے خواہ مسلمان ہو یا کافر ہو، یہی صحیح ہے۔ الاحسان کبھی، مواساۃ (ہمدردی) کے معنی میں ہوتا ہے کبھی حسن معاشرت، اذیت کو روکنا اور حفاظت کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” جبریل مجھے پڑوسی کے متعلق وصیت کرتا رہا حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ یہ اسے وارث بنا دے گا “۔ (2) (صحیح بخاری کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 889) ابو شریح سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” اللہ کی قسم مومن نہیں، اللہ کی قسم مومن نہیں، اللہ کی قسم مومن نہیں، عرض کی گئی یا رسول اللہ ! کون ؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی زیادتیوں سے امن میں نہیں “۔ (3) (صحیح بخاری کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 889) یہ ہر پڑوسی میں عام ہے نبی مکرم ﷺ نے تین مرتبہ قسم اتھا کر پڑوسی کی اذیت کو ترک کرنے کو مؤکد فرمایا۔ جو اپنے پڑوسی کو اذیت دیتا ہے وہ مومن نہیں۔ مومن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کی اذیت سے اجتناب کرے اور اس سے بچ جائے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے اور اس چیز اور عمل میں رغبت رکھے جس پر اللہ اور اس کا رسول راضی ہیں اور جب پر برانگیختہ کیا ہے۔ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا :” پڑوسی تین ہیں پھر ایک پڑوسی کے تین حقوق ہیں، اور ایک پڑوسی کے دو حق ہیں اور ایک پڑوسی کا ایک حق ہے۔ وہ پڑوسی جس کے تین حقوق ہیں وہ قریبی مسلمان پڑوسی ہے، اس کے لیے پڑوس کا حق ہے قرابت کا حق ہے اور اسلام کا حق ہے اور وہ پڑوسی جس کے دو حق ہیں وہ مسلمان پڑوسی ہے، اس کے لیے حق الاسلام اور پڑوس کا حق ہے اور وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے وہ کافر پڑوسی ہے اس کے لیے صرف پڑوس کا حق ہے۔ “ مسئلہ نمبر : (5) امام بخاری (رح) نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میرے دو پڑوسی ہیں میں کس کو ہدیہ بھیجوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو ازروئے دوازے کے تمہارے زیادہ قریب ہو “۔ (4) (صحیح بخاری، کتاب الشفعہ، جلد 1 صفحہ 300) علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” والجار ذی القربی “ کی مراد کی تفسیر کرتی ہے یعنی وہ شخص جس کا مسکن تیرے قریب ہو۔ (آیت) ” والجار الجنب “۔ جس کا مسکن تجھ سے دور ہو، اس سے پڑوسی کے لیے شفعہ کے ثبوت پر حجت پکڑی گئی ہے اور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد : الجار احق بصقبہ “۔ (5) (صحیح بخاری، کتاب الشفعہ، جلد 1 صفحہ 300) (یعنی پڑوسی پڑوس کی وجہ سے شفعہ کا حق دار ہے) سے تائید دی ہے، اس میں کوئی حجت نہیں ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے پوچھا کہ تحفہ دینے میں آغاز کس پڑوسی سے کروں تو نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” جس کا دروازہ تمہارے زیادہ قریب ہو وہ دوسروں سے زیادہ حقدار ہے “۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : یہ حدیث دلیل ہے کہ جار کا لفظ اس کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس کا گھر ملاہوا نہ ہو۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس حدیث کے ظاہر سے یہ نکالا ہے کہ متصل پڑوسی جب شفعہ چھوڑ دیے اور اس سے ملا ہوا پڑوسی شفعہ طلب کرے جب کہ اس کی نہ دیوار اس گھر کے ساتھ متصل ہے نہ اس کا راستہ متصل ہے تو اس میں اس کے لیے شفعہ کا حق نہیں عام علماء کہتے ہیں جب کوئی شخص اپنے پڑوسیوں کے لیے وصیت کرے تو متصل پڑوسی اور دوسرے پڑوسیوں کو اس کا مال دیا جائے گا مگر امام ابوحنیفہ (رح) کا قول عام علماء سے جدا ہے فرمایا : انہوں نے فرمایا : صرف متصل پڑوسی کو وہ وصیت ملے گی۔ مسئلہ نمبر : (6) پڑوس کی حد میں علماء کا اختلاف ہے، امام اوزاعی (رح) فرماتے تھے : ہر طرف سے چالیس گھر (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 50 دارالکتب العلمیہ) یہ ابن شہاب کا بھی قول ہے۔ روایت ہے کہ ایک شخص نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا : میں ایک قوم کے محلہ میں اترا ہوں ان میں سے جو میرا زیادہ قریبی ہے وہ مجھے زیادہ اذیت دینے والا ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو بھیجا کہ مساجد کے دروازوں پر اعلان کرو کہ ” خبردار چالیس گھر پڑوس ہیں وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی زیادتیوں سے امن میں نہیں “۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : جس نے آذان سنی وہ پڑوسی ہے، ایک جماعت نے کہا : جس نے نماز کی تکبیر سنی وہ مسجد کا پڑوسی ہے، ایک جماعت نے کہا : جس نے کسی شخص کو کسی محلہ یا شہر میں ٹھہرایا وہ پڑوسی ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 50 دارالکتب العلمیہ) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” لئن لم ینتہ المنفقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینۃ لنغرینک بھم ثم لایجا ورونک فیھا الا قلیلا “۔ (الاحزاب) اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں ان کے اجتماع کو جوار (پڑوس) بنایا ہے، پڑوس کے مراتب میں بعض بعض سے زیادہ قریبی ہیں، قریب ترین پڑوسی زوجہ ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : ایاجارتابینی فانک طالقہ : مسئلہ نمبر : (7) پڑوسی کے اکرام کے متعلق مسلم میں حضرت ابوذر سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے ابوذر ! جب تو شوربا پکائے تو اس کا پانی زیادہ بنا اور اپنے پڑوسیوں کا خیال کر “۔ (3) (صحیح مسلم کتاب البر والصلہ، جلد 2، صفحہ 329) نبی مکرم ﷺ نے مکارم اخلاق پر برانگیختہ کیا، کیونکہ ان پر محبت، حسن معاشرت، حاجت دور کرنے اور فساد دور کرنے کا دارومدار ہے، کیونکہ پڑوسی اپنے پڑوسی کی ہنڈیا کی بو سے اذیت پاتا ہے بعض اوقات اس کے بچے ہو تین ہیں اور ان کی شہوت کو وہ ابھارتی ہے اور جوان بچوں کی کفالت کرنے والا ہوں ہے اس پر الم اور کلفت زیادہ ہوجاتی ہے، خصوصا اگر کفالت کرنے والا کمزور ہو یا غریب ہو تو اس پر مشقت اور زیادہ ہوتی ہے اور اس پر تکلیف اور حسرت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے فراق میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی عقوبت تھی جیسا کہ کہا گیا ہے جس چیز میں ان کی پکانے وغیرہ میں شرکت ہوتی ہے وہ ان کو دینی چاہیے اسی معنی کی وجہ سے قریبی پڑوسی کو ہدیہ دینے پر ابھارا ہے، کیونکہ وہ اپنے پڑوسی کے گھر میں داخل ہونے والی اور خارج ہونے والی چیز کو دیکھتا ہے جب وہ اسے دیکھتا ہے تو وہ اس میں شرکت کو پسند کرتا ہے، نیز پڑوسی اپنے پڑوسی کی غفلت ودھوکا کے وقت جلدی ضرورت کو پہنچتا ہے اسی وجہ سے اس سے ہدیہ کا آغاز کرے اور انہیں بعد میں دے جن کا دروازہ دور ہے اگرچہ ان کا گھر قریب ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) علماء نے فرمایا : جب نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : فاکثرماء ھا یعنی سالن کا شوربا زیادہ کر، اس کے ذریعے نبی مکرم ﷺ نے بخیل پر معاملہ کو آسان کرنے کی تنبیہ لطیف فرمائی اور ایسی چیز کو زیادہ کرنے کا حکم فرمایا جس کی کوئی قیمت نہیں ہے یعنی پانی، اسی وجہ سے یہ نہیں فرمایا کہ جب تو سالن بنائے تو گوشت زیادہ کر، کیونکہ یہ ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ کسی شاعر نے کتنا اچھا کہا ہے : قدری وقدر الجار واحدۃ والیہ قبلی ترفع القدر : میری اور میرے پڑوسی کی ہانڈی ایک ہے مجھ سے پہلے ہانڈی اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔ اور کوئی حقیر گھٹیا تھوڑی سی چیز ہدیہ نہ دی جائیے کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” اپنے پڑوسیوں کے گھر والوں کو دیکھ پھر انہیں ایسی چیز بھیجو جو عرفا بھیجی جاتی ہے “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلہ، جلد 2، صفحہ 329) تھوڑی چیز اگر وہ ایسی چیزوں میں سے ہے جو ہدیہ کے طور پر بھیجی جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر میسر نہ آئے مگر تھوڑی سی چیز تو وہ بھیج دو اسے حقیر نہ سمجھو اور وہ چیز اسے بھی قبول کرنی چاہیے جسے ہو بھیجی گئی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : یا نساء المؤمنات لا تحتیقرن احدا کن لجار تھا ولو کراع شاۃ محرقا “۔ (2) (مؤطا امام مالک، کتاب الجامع، صفحہ 717) اے ایمان والیو ! تم میں سے کوئی اپنی پڑوسن کو حقیر نہ جانے اگرچہ وہ بکری کا جلا ہوا کھر بھی ہو۔ اس حدیث کو امام مالک (رح) نے مؤطا میں روایت کیا ہے، ہم نے اس طرح اس کو ضبط کیا ہے یا نساء المومنات “ بغیر اضافت کے رفع کے ساتھ اور تقدیر اس طرح ہوگی، یایھا النساء المومنات “۔ جیسے تو کہتا ہے : یا رجال الکرام، پس منادی محذوف ہے اور وہ یایھا ہے اور اس تقدیر میں النساء ایھا کی صفت ہے اور المومنات، النساء کی صفت ہے، اس میں یانساء المومنات اضافت کے ساتھ بھی کہا گیا ہے لیکن پہلا قول زیادہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) پڑوسی کے اکرام میں سے یہ ہے کہ اسے اپنی دیوار میں شہتیر رکھنے سے منع نہ کیا جائے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار پر لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے “۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں : کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اس سے اعراض کرنے والے ہو ؟ اللہ کی قسم، میں اس عمل کو تمہارے کندھوں کے درمیان مار دوں گا۔ (3) (صحیح بخاری، کتاب المظالم والقصاص، جلد 1، صفحہ 333) (یعنی تمہیں اس پر عمل کرنے پر مجبور کروں گا) حدیث میں خشبہ اور خشبہ یعنی جمع اور مفرد دونوں طرح مروی ہے، (جس کا معنی لکڑی ہے) اور اکتافکم تا کے ساتھ اور اکنافکم نون کے ساتھ بھی مروی ہیی اور بھاضمیر کا مرجع کلمہ اور قصہ ہے۔ پس کیا یہ وجوب یاندب کا تقاضا کرتا ہے ؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب کا خیال ہے کہ یہ پڑوسی سے نیکی کرنے، اس سے درگزر کرنے اور اس سے احسان کرنے کے استحباب کے لیے ہے، اس میں وجوب نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : ” کسی مسلمان کا مال حلال نہیں مگر یہ کہ وہ خوشی سے عطا کرے “ (1) (مسند امام احمد حنبل، جلد 5، صفحہ 72) یہ علماء فرماتے ہیں : لا یمنع احدکم جارہ (2) (صحیح بخاری، کتاب المظالم، جلد 1، صفحہ 333) کا معنی نبی مکرم ﷺ کے اس قول کی مثل ہے اذا استاذنت احدکم امراتہ الی المسجد لا یمنعھا “۔ (3) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 183) تمام علماء کے نزدیک اس کا معنی استحباب ہے جب کہ آدمی اس میں صلاح اور خیر دیکھے، امام شافعی (رح)، اور ان کے اصحاب اور امام ابن حنبل، اسحاق، ابو ثور، داؤد بن علی رحمۃ اللہ علیہم اور جماعت اہل حدیث کا خیال ہے کہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد وجوب کے لیے ہے، وہ فرماتے ہیں : اگر حضرت ابوہریرہ ؓ نے نبی مکرم ﷺ کے ارشاد سے وجوب نہ سمجھا ہوتا تو وہ لوگوں پر غیر واجب کو واجب نہ کرتے، یہی حضرت عمر بن خطاب ؓ کا مذہب ہے، انہوں نے محمد بن مسلمہ پر ضحاک بن خلیفہ کے لیے خلیج (نالہ) کے بارے میں فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ محمد بن مسلمہ کی زمین سے گزارے گا، محمد بن مسلمہ نے کہا : اللہ کی قسم ! ایسا نہیں ہوگا، حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم ! وہ اسے گزارے گا اگرچہ تیرے پیٹ پر سے گزارے گا، حضرت ضحاک ؓ کو وہ ناکہ گزارنے کا حکم دیا تو ضحاک ؓ نے وہ ناکہ گزارا، اس کو امام مالک (رح) نے مؤطا میں روایت کیا ہے، امام شافعی (رح) نے کتاب ” الرد “ میں کہا ہے کہ امام مالک (رح) نے کسی صحابی سے حضرت عمر ؓ کی اس مسئلہ میں مخالفت روایت نہیں کی۔ امام شافعی (رح) نے امام مالک (رح) پر اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے خود اس واقعہ کو روایت کیا اور اپنی کتاب میں داخل کیا لیکن اس پر خود عمل نہیں کیا بلکہ اپنے رائے سے اسے رد کیا، ابو عمر (رح) نے کہا یہ اس طرح نہیں ہے جس طرح امام شافعی نے کہا ہے : کیونکہ محمد بن مسلمہ کی رائے حضرت عمر ؓ کی رائے کے خلاف تھی اور انصار کی رائے بھی حضرت عمر ؓ کی رائے کے خلاف تھی، عبدالرحمن بن عوف کی رائے بھی نالی کو پھیرنے کے سلسلے میں حضرت عمر ؓ کی رائے سے مختلف تھی، جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اختلاف ثابت ہوا تو نظر کی طرف رجوع واجب ہوا اور نظر اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مسلمانوں کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں مگر یہ کہ وہ خوش دلی سے دیں، یہی چیز نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے، اس پر حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول بھی دلالت کرتا ہے مالی اراکم عنھا معرضین الخ “۔ کیا وجہ ہے کہ تم اس مسئلہ سے اعراض کرنے والے ہو ؟ اللہ کی قسم ! میں تمہیں اس مسئلہ پر مجبور کروں گا۔ پہلے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سہارا دینے کا فیصلہ سنت سے اس ارشاد لا یحل مال امرا مسلم الاعن طیب نفس منہ “۔ (4) (مسند امام احمد حنبل، جلد 5، صفحہ 72) سے خارج ہے، کیونکہ اس کا معنی مالک بنانا، ہلاک کرنا ہے جب کہ لکڑی کا سہارا اس سے نہیں ہے کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے حکم میں ان کے درمیان فرق کیا ہے پس اس چیز کو جمع کرنا واجب ہے نہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے جدا جدا کیا ہے، امام مالک (رح) نے حکایت کیا ہے کہ مدینہ میں ایک قاضی تھا جو اس کے ساتھ فیصلہ کرتا تھا اسے ابو المطلب کہا جاتا تھا، ان علماء نے اعمش عن انس کی حدیث سے حجت پکڑی ہے فرمایا : جنگ احد میں ہم میں سے ایک نوجوان شہید ہوگیا، اس کی والدہ اس کے چہرے سے مٹی جھاڑ رہی تھی اور کہہ رہی تھی : تجھے جنت مبارک ہو، نبی مکرم ﷺ نے اسے فرمایا : ” تجھے کیا معلوم ؟ شاید یہ لا یعنی کلام کرتا ہو اور ایسی چیز کو روکتا ہو جو اس کو نقصان دینے والی نہ وہ “۔ اعمش کا حضرت انس ؓ سے سماع ثابت نہیں، واللہ اعلم یہ ابو عمرو کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (10) ایک حدیث وارد ہے جس میں نبی مکرم ﷺ نے پڑوسی کے منافع کو جمع فرمایا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ نے فرمایا : ہم نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ فرمایا : ” اگر وہ تجھ سے قرضہ طلب کرے تو اسے تو قرضہ دے، اگر وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کر، اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو اسے عطا کر، اگر وہ مریض ہو تو اس کی عیادت کر، اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ چل، اگر اسے خبر پہنچے تو وہ تجھے خوشی دے اور تو اسے مبارک دے، اگر اسے کوئی مصیبت پہنچے تو تجھے بھی تکلیف ہو اور تو اس کی تعزیت کر اور اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اسے اذیت نہ دے مگر یہ کہ تو اسے اس سے کچھ دے دے اور اس پر اپنی عمارت بلند نہ کرو تاکہ تو اس پر جھانکے اور اس پر ہوا کو بند کر دے مگر یہ کہ اس کی اجازت سے، اگر تو پھل خریدے تو اس سے پڑسی کو بھی ہدیہ دے ورنہ وہ پھل آہستہ سے اپنے گھر میں داخل کر، تیرا بچہ ایسی چیز کو باہر نہ لے جائے، جس سے پڑوسی کے بچے پریشان ہوں، کیا جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں تم اسے سمجھ رہے ہو ؟ پڑوسی کا حق ادا نہیں کرتے مگر بہت تھوڑے جن پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے “۔ یا اس طرح کا کلمہ ارشاد فرمایا ہے۔ یہ ایک جامع حدیث ہے اس کی سند میں ابو الفصل بن مظہر الشیبانی ہے جو غیر پسندیدہ ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) علماء نے فرمایا : پڑوسی کے اکرام میں احادیث مطلق ہیں مقید نہیں ہیں حتی کہ کافر (بھی ان میں داخل ہے) جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ حدیث میں صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم قربانیوں کا گوشت ان کو کھلائیں ؟ فرمایا :” مسلمانوں کی قربانیوں سے مشرکوں کو مت کھلاؤ“ اور مسلمانوں کی قربانیوں سے مشرکوں کو کھلانے کی نہی یہ احتمال رکھتی ہے کہ یہ واجبی قربانیاں ہوں وہ قربانی کرنے والے کے ذمہ لازم ہوتی ہیں اور اس قربانی سے قربانی کرنے والے کے لیے خود کھانا اور دوستوں کو کھلانا جائز نہیں ہوتا، رہا غیر واجب جس کا اغنیاء کو کھلانا جائز ہوتا ہے تو ان کا اہل ذمہ کو کھلانا بھی جائز ہوتا ہے، نبی مکرم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے قربانی کے گوشت کی تقسیم کے وقت فرمایا : ” ہمارے یہودی پڑوسی سے شروع کر “ روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کی، جب حضرت عبداللہ ؓ آئے تو کہا کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو یہ ہدیہ دیا ہے ؟ یہ تین مرتبہ فرمایا : فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے ” جبریل مجھے پڑوسی کے بارے وصیت کرتے رہے حتی کہ میں گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وارث بنا دے گا “ (1) (صحیح بخاری، کتاب الادب، جلد 2، صفحہ 889) مسئلہ نمبر : (12) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الصاحب بالجنب “۔ یعنی سفر کا رفیق، طبری نے اپنی سند کے ساتھ لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ میں سے ایک شخص تھا، رسول اللہ ﷺ اور وہ شخص سواروں پر سوار تھے، رسول اللہ ﷺ ایک درختوں کے جھنڈ میں داخل ہوئے وہاں سے دو چھڑیاں کاٹیں، ان میں سے ایک ٹیڑھی تھی، آپ ﷺ اس جھنڈ سے باہر آئے تو سیدھی چھڑی اپنے ساتھی کو دی، اس شخص نے کہا : یارسول اللہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اے فلاں ! ایسا ہر گز نہیں ہر آدمی جو دوسرے کے ساتھ سنگت اختیار کرتا ہے اس سے اس کے ساتھیوں کے بارے پوچھا جائے گا اگرچہ دن کی ایک گھڑی (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 51 دارالکتب العلمیہ) (بھی سنگت اختیار کرے) “ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے کہا ؛ سفر کے لیے مروئت ہے اور حضر کے لیے مرؤت ہے، سفر کے مرؤت یہ ہے زاد راہ خرچ کرے اور اپنے ساتھیوں سے اختلاف کم کرے اور کثرت سے مزاح کرے جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہ ہو اور حضر میں مروت یہ ہے کہ ہمیشہ مساجد کی طرف جانا، کثرت سے قرآن کی تلاوت کرنا اور کثرت سے اللہ کی رضا میں بھائی بنانا، بنی اسد کے ایک شاعر نے کہا : بعض علماء نے کہا : وہ حاتم طائی تھا۔ اذا مارفیق لم یکن خلف ناقتی لہ مرکب فضلا فلاحملت رجلی : ولمیک من زادی لہ شطر مزودی فلا کنت ذا زاد وکنت ذا فضل : شریکان فیما نحن فیہ وقداری علی لہ فضلا بما نال من فضلی : جب میرا ساتھی میری اونٹنی کے پیچھے اپنی سواری پر سوار نہ ہو تو میں اپنا پاؤں سواری پر نہیں رکھتا اور میرے زاد راہ میں اس کے لیے نصف حصہ نہ ہو تو میں نہ زاد راہ والا ہوتا ہوں، نہ میں فضل والا ہوتا ہوں، اس مال میں ہم دونوں شریک ہوتے ہیں اس کے لیے فضیلت دیکھتا ہوں اس وجہ سے جو اس نے میرے فضل (مال) سے پایا ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ اور ابن ابی لیلی ؓ نے فرمایا : (آیت) ” والصاحب بالجنب “۔ سے مراد بیوی ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 51 دارالکتب العلمیہ) ابن جریج نے کہا : وہ جو تیری سنگت اختیار کرتا ہے اور تیرے نفع کی امید پر تجھے لازم پکڑتا ہے، پہلا قول اصح ہے، یہ حضرت ابن عباس حضرت ابن جبیر، عکرمہ، مجاہد، اور ضحاک رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہے، آیت کریمہ ان تمام اقوال کو شامل ہے۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ابن السبیل “۔ مجاہد ؓ نے کہا : جو تجھ سے گزرتا ہے، السبیل سے مراد راستہ ہے مسافر کو ابن السبیل اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ راستہ سے گزرتا ہے اور اسے لازم پکڑتا ہے اسی سے احسان یہ ہے کہ اسے کچھ عطا کیا جائے اس سے مہربانی کی جائے، اس کی راہنمائی کی جائے اور اسے صحیح راستہ بتایا جائے۔ مسئلہ نمبر : (14) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما ملکت ایمانکم “۔ اللہ تعالیٰ نے غلاموں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے، اور نبی کریم ﷺ نے اس کو بیان کیا ہے، مسلم وغیرہ نے معرور بن سوید ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : ہم ربذہ کے مقام پر ابو ذر ؓ کے پاس سے گزرے ان پر ایک چادر تھی اور اسی قسم کی چادر ان کے غلام پر تھی، ہم نے کہا : اے ابوذر ! اگر تم یہ دونوں چادریں لے لیتے تو تمہارا سوٹ بن جاتا، ابو ذر ؓ نے کہا : میرے اور میرے ساتھیوں میں سے ایک کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی، اس کی ماں عجمی تھی میں نے اسے ماں کی عار دلائی، اس نے نبی مکرم ﷺ سے میری شکایت کردی، میں نبی مکرم ﷺ سے ملا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” اے ابوذر ! تو ایک ایسا شخص ہے جس میں ابھی جاہلیت کی خصلت ہے “۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ جو آزاد مردوں کو گالیاں دیتا ہے وہ اس کے باپ اور ماں کو گالی دیتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’ اے ابوذر ! تو ایک ایسا شخص ہے جس میں جاہلیت کی خصلت ہے، یہ (غلام) تمہارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارا ماتحت بنایا ہے تم انہیں وہ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو اور انہیں ایسے کام کا مکلف نہ کرو جو انہیں مغلوب کر دے اگر انہیں ایسا مشکل کام دو تو ان کی مدد کرو “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 2، صفحہ 52) حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ ایک دن اپنے خچر پر سوار تھے اور ان کا غلام ان کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، کسی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا : اگر تم اس غلام کو اتار دو اور وہ پیچھے سے تمہاری سواری کو چلائے (تو بہتر ہوگا) حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا : میرے ساتھ آگ کے دو شعلے ہوں میرے پیچھے وہ ہر چیز کو جلا دیں تو میرے نزدیک ان کا جلانا اس سے بہتر ہے کہ میرے غلام میرے پیچھے دوڑ رہا ہو، ابو داؤد نے حضرت ابو ذر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو تمہارے غلاموں میں سے تمہاری موافقت کرے اسے وہ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور اسے وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو اور جوان میں سے تمہاری موافقت نہ کرے تو اے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو “ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الادب) مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” غلام کے لیے کھانا اور لباس ہے اور اسے کسی ایسے عمل کی تکلیف نہیں دی جائے گی جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو “ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 2، صفحفہ 52) نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” تم میں سے کوئی عبدی “ اور امتی نہ کہے بلکہ اسے فتای وتاتی لینا چاہیے “ (3) ( مسند احمد بن حنبل، جلد 2، صفحہ 316) اس کی مزید وضاحت سورة یوسف میں آئے گی نبی مکرم ﷺ نے بلند وبالامکارم اخلاق کی طرف بلایا اور ان پر امت کو ابھارا اور احسان کی طرف راہنمائی فرمائی اور تواضع کی روش اختیار کرنے کی راہنمائی فرمائی تاکہ وہ اپنے غلاموں پر اپنے آپ میں کوئی فضیلت نہ دیکھیں، کیونکہ تمام لوگ اللہ کے عبید (غلام) ہیں اور مال اللہ کا مال ہے، لیکن بعض کو بعض کے لیے مسخر کردیا حکم کے نفاذ اور نعمت کے اتمام کے لیے، بعض کو بعض کا مالک بنا دیا اگر لوگ انہیں وہ کھلائیں یا پہنائیں جو صفت ومقدار میں اس سے کم ہو جو وہ خود کھاتے اور پہنتے ہیں تو یہ بھی جائز ہیں جب کہ وہ اس کے واجبات کو پورا کرتا ہو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے جب اس کا ملازم آیا اور داخل ہوا تو آپ نے پوچھا : غلاموں کو انکی خوراک دے دی ہے، اس نے کہا : نہیں۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا : جاؤ اور انہیں خوراک دے آؤ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انسان کے لیے یہی گناہ کے طور پر کافی ہے کہ وہ اپنے غلاموں سے خوراک روک لے “ (4) (صحیح مسلم، کتاب الزکوۃ، جلد 1، صفحہ 322) مسئلہ نمبر : (15) نبی مکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے غلام کو ایسی حد لگائیں جس کا موجب اس نے جرم نہیں کیا تھا یا اس نے اسے طمانچہ مارا تو اس کا کفارہ اس کو آزاد کرنا ہے “۔ مطلب یہ ہے کہ وہ غلام کو حد کی مقدار سزا دے حالانکہ اس پر حد واجب نہ تھی، کسی صحابہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں سے خادم کے لیے قصاص لیا اور خادم کو آزاد کردیتے جب قصاص (بدلہ) کا ارادہ نہ کرتے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” جس نے اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائی تو اس پر قیامت کے روز اسی کوڑے حد قائم کی جائے گی “ اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” اپنے غلام سے اچھا سلوک نہ کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا “۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” بدخلقی برائی ہے اور غلاموں سے حسن سلوک بڑھوتری ہے اور صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتی ہے اور صدقہ بری موت سے بچاتا ہے “۔ مسئلہ نمبر : (16) اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ آزاد افضل ہے یا غلام افضل ہے، مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مصلح غلام کے دو اجر ہیں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابوہریرہ کی جان ہے ! اگر اللہ کے راستہ میں جہاد، حج اور والدین سے حسن سلوک نہ ہوتا تو میں پسند کرتا کہ مجھے آئے تو میں غلام ہوں (1) (صحیح مسلم کتاب الایمان، جلد 2، صفحہ 53 ) حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” غلام جب اپنے سردار سے خلوص کا اظہار کرے اور اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے تو اس کے لیے دو اجر ہیں “۔ (2) (صحیح مسلم کتاب الایمان، جلد 2، صفحہ 53) ایسی احادیث سے غلام کی فضیلت ظاہر ہوئی، کیونکہ وہ دو جہتوں سے مخاطب ہے ایک اس سے اللہ کی عبادت کا مطالبہ کیا گیا ہے اور دوسرا سردار کی خدمت کا مطالبہ کیا گیا ہے، ابو عمر و یوسف بن عبدالبر النمری، ابوبکر بن عبداللہ بن احمد الغامری البغدادی الحافظ کا یہی نظریہ ہے۔ اور آزاد کو فضیلت دینے والے علماء اس سے استدلال کرتے ہیں کہ دنیا ودین کے امور میں مستقل آزاد ہوتا ہے، امور دنیا آزاد سے حاصل ہوتے ہیں اور غلام عدم استقلال کی وجہ سے مفقود کی مانند ہے جس طرح آلہ ہوتا ہے جسے جبر کے ساتھ پھیرا جاتا ہے، جیسے جانور جبر کے ساتھ مسخر کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے شہادت کا منصب عظیم اور ولایت کا مرتبہ رفیع غلاموں سے چھینا گیا ہے اور ان کی حدود آزاد افراد کی حدود سے کم رکھی گئی ہیں تاکہ یہ شعور ملے کہ ان کی مقدارو منزلت کم ہے آزاد سے اگر ایک جہت سے مطالبہ کیا گیا ہے تو اس میں اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں اور اس کا اہتمام عظیم ہے پس اس کا ثواب بھی زیادہ ہے اسی چیز کی طرف حضرت ابوہریرہ ؓ نے اشارہ کیا ہے کہ وہ اگر جہاد حج نہ ہوتا الخ، اگر وہ نقص نہ ہوتا جو ان امور کے فوت ہونے کیوجہ سے غلام کو لاحق ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (17) حضرت انس بن مالک ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا : جبریل مجھے متواتر پڑوسی کے بارے وصیت کرتا رہا حتی کہ میں نے گمان کیا کہ یہ اسے وارث بنا دے گا اور مجھے عورتوں کے بارے وصیت کرتا رہا حتی کہ میں نے گمان کیا کہ یہ ان کی طلاق کو حرام کردے گا اور مجھے غلاموں کے بارے وصیت کرتا رہا حتی کہ میں نے گمان کیا وہ انکے لیے ایک مدت متعین کر دے گا جب وہ اس مدت کو پہنچیں گے توآزاد ہوجائیں گے اور جبریل مجھے مسواک کی وصیت کرتا رہا حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ میرا منہ گھسا دے گا، روایت ہے قریب تھا کہ وہ میرا منہ گھسا دے، اور جبریل مجھے قیام اللیل کے متعلق وصیت کرتا رہا حتی کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک لوگ رات کو نہیں سوئیں گے، اس حدیث کو سمرقندی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ مسئلہ نمبر : (18) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ لا یحب “۔ یعنی اللہ پسند نہیں فرماتا “۔ (آیت) ” من کان مختالا فخورا “۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور رضا کی اس شخص سے نفی کردی جو ان صفات سے متصف ہے یعنی اللہ تعالیٰ آخر میں اپنی نعمت کے آثار اس پر ظاہر نہیں فرمائے گا، اس میں ایک قسم کی دھمکی ہے۔ المختال تکبر کرنے والے کو کہتے ہیں اور الفخور جو تکبر کی وجہ سے اپنے مناقب شمار کرتا ہے، الفخر سے مراد تکبر کرنا اور بڑائی بیان کرنا ہے ان دو صفات کو ذکر میں خاص کیا، کیونکہ یہ دونوں صفات انسان کو قریبی فقیر اور پڑوسی فقیر وغیرہ سے دوری پر ابھارتی ہیں، پس ان سے احسان کرنے کے امر الہی کو ضائع کردیتا ہے، عاصم نے اسے ” الجار الجنب “ جیم کے فتحہ اور نون کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مفضل نے عاصم سے روایت کیا ہے، مہدوی نے کہا : یہ مضاف کے حذف کی تقدیر پر ہے یعنی اجار ذن الجنب دور والا پڑوسی۔ اخفش نے یہ کہا ہے : الناس جنب والامیرجنب : الجنب الجناحیۃ یعنی قرابت سے دور ہونے والا۔ اللہ اعلم۔
Top