Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَآ : کیا اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَهُمْ : ان کے لیے قُلْ : کہ دیں اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَمَا : اور جو عَلَّمْتُمْ : تم سدھاؤ مِّنَ : سے الْجَوَارِحِ : شکاری جانور مُكَلِّبِيْنَ : شکار پر دوڑائے ہوئے تُعَلِّمُوْنَهُنَّ : تم انہیں سکھاتے ہو مِمَّا : اس سے جو عَلَّمَكُمُ : تمہیں سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّآ : اس سے جو اَمْسَكْنَ : وہ پکڑ رکھیں عَلَيْكُمْ : تمہارے لیے وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو (لو) اسْمَ : نام اللّٰهِ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد لینے والا الْحِسَابِ : حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے (اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کو چھوڑتے وقت) خدا کا نام لے لیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا جلد حساب لینے والا ہے
یسالونک ما ذآ احل لہم لوگ آپ ﷺ سے دریافت کرتے ہیں کہ ہمارے لئے کیا حلال کیا گیا ہے۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ابو رافع ؓ کو کتوں کو قتل کردینے کا حکم دے کر بھیجا اور وہ (قتل کرتے کرتے) بالائی مدینہ تک پہنچ گئے تو عاصم ؓ بن عدی اور سعد ؓ بن حتم اور عویمر ؓ بن ساعدہ خدمت گرامی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارے لئے کیا حلال کیا گیا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ محمد بن کعب قرظی کی روایت سے ابن جریر نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کردینے کا جب حکم دیاتو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ اس گروہ (یعنی کتوں) میں کیسے (کتنے پالنے) ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں۔ ابن جریر نے بحوالۂ شعبی حضرت عدی ؓ بن حاتم کی روایت سے لکھا ہے کہ ایک شخص خدمت گرامی میں حاضر ہو کر کتوں سے شکار کرنے کا مسئلہ دریافت کرنے لگا۔ حضور ﷺ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دیں اس پر آیت مندرجہ ذیل نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت عدی بن حاتم طائی اور حضرت زید بن مہلہل طائی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ ہم لوگ کتوں اور بازوں سے شکار کرتے ہیں اور خاندان ذریح کے کتے تو نیل گائے گورخر اور ہر نوں کو شکار کرلیتے ہیں اور اللہ نے مردار کو حرام کردیا ہے اب ہمارے لئے کس قسم کا شکار حلال ہے اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کتوں سے ہم کیا فائدہ حاصل کرسکتے ہیں اور ان کا کیا ہوا شکار کون سا کھا سکتے ہیں۔ قل احل لکم الطیبت آپ کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے پاکیزہ (حلال) چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔ یہ جملہ جواب سے زائد ہے ایک خاص مصلحت کے تحت جس کا ذکر ہم عنقریب کریں گے اسکا اضافہ کیا گیا ہے اصل جواب آئندہ آیت ہے۔ وما علمتم من الجوارح اور ان شکاری جانوروں کا کیا ہوا شکار حلال کردیا گیا ہے۔ جن کو تم نے (شکار کرنا) سکھا دیا ہو۔ الجوارح سے مراد ہیں شکاری جانور خواہ چوپائے ہوں یا پرندے جیسے کتا ‘ چیتا ‘ باز ‘ شکرہ ‘ شاہین وغیرہ۔ جرح کا معنی ہے کمانا فلانٌ جَارِحَۃُ اہلہفلاں شخص نے اپنے گھر والوں کے لئے کمائی کرنے والا ہے ہاتھ پاؤں چونکہ کمائی کرتے ہیں اسی لئے ان کو جوارح کہا جاتا ہے شکاری جانور بھی اپنے مالکوں کے لئے شکار کرتے ہیں اور ان کیلئے ان کی غذا کماتے ہیں اس لئے ان کو جوارح کہتے ہیں۔ یا جرح کا معنی ہے زخمی کرنا شکاری جانور شکار کو زخمی کرتے ہیں اس لئے ان کو جوارح کہا جاتا ہے۔ اسی مؤخر الذکر توجیہ کی بنا پر امام ابوحنیفہ اور امام احمد اور اکثر علماء کا قول ہے کہ شکار کا زخمی ہونا ضروری ہے اگر کتے نے شکار کو بغیر زخمی کئے قتل کردیا مثلاً ٹکر مار کر یا گلا گھونٹ کر مار ڈالا تو اس کو کھانا درست نہیں۔ امام شافعی (رح) کے ایک قول میں شکار کا زخمی ہونا ضروری نہیں ہے اس لئے وہ شکار جو بغیر زخمی ہوئے مرگیا ہو حلال ہے صاحب ہدایہ نے لکھا ہے دونوں توجیوں میں کوئی منافات نہیں خواہ جرح کا معنی کسب لیا جائے یا زخمی کرنا بہرحال زخمی کرنا بنظر احتیاط ضروری ہے۔ کفایہ میں ہے کہ فخر الاسلام بزدوی نے بیان کیا کہ اگر نہی کے اندر معانی کا اختلاف ہو اور اجتماعی صورت مراد لینی ممکن نہ ہو تو کسی ایک معنی کو مراد لینے کے لئے ترجیح دینے والی علت کی ضرورت ہے اور اگر معانی میں تضاد نہ ہو تو سب مراد لئے جائیں گے۔ اگر شبہ کیا جائے ؟ کہ یہ تو عموم مشترک کی صورت ہوگئی (کہ بغیر تعیین کے سب معنی مراد ہوسکتے ہیں) حالانکہ امام اعظم عموم مشترک کے قائل نہیں۔ جواب میں کہا جائے گا کہ عموم مشترک کا معنی تو یہ ہے کہ لفظ مشترک سے متکلم کی مراد دونوں معنی ہوں اور سننے والا بھی یہی سمجھے کہ دونوں معنی کو یہ حکم شامل ہے۔ عموم کا مفہوم یہی ہوتا ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ ہمارا مطلب اس جگہ یہ ہے کہ جوارح سے اللہ کی مراد تو یقیناً تعیین کے ساتھ ایک ہی ہے مگر ہمارے پاس کوئی یقینی دلیل نہیں کہ ہم اللہ کی مراد کی تعیین کرسکیں اور دونوں معنی میں منافات ہے نہیں اس لئے ہم بنظر احتیاط کہتے ہیں کہ نہی کا ورود دونوں معنی پر ہے ‘ اور دونوں ہی مراد ہیں۔ حنفیہ کے مسلک (یعنی شکار کا زخمی ہونا ضروری ہے اس قول) کی دلیل یہ ہے کہ شکار کے حلال ہونے کے لئے (اصل میں) ذبح یا نحر کرنا ضروری ہے لیکن جہاں اضطرار اور مجبور ہو (کہ ذبح یا نحر نہ کرسکے) وہاں ذبح کا قائم مقام کسی جارحہ سے جرح کرنے (زخم پہنچانے) کو قرار دے دیا جائے گا خواہ بدن کے کسی حصہ میں ہو۔ اگر شکاری جانور نے شکار کے کسی عضو کو توڑ دیا جس سے وہ مرگیا تو امام اعظم کا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ اس کو کھانا حلال ہے کیونکہ اندرونی جراحت بیرونی زخم کی طرح ہے لیکن صحیح روایت میں یہ قول آیا ہے اور یہی بھی ہے کہ شکار مردار ہوجائے گا کیونکہ شکار کا اس طرح زخمی ہوجانا ضروری ہے جس سے خون بہ جائے اور چونکہ اندرونی طور پر کسی عضو کا شکستہ ہونا خون کے بہنے کا سبب نہیں اسلئے شکست عضو سے مار ڈالنا ‘ ایسا ہوا جیسے گلا گھونٹ کر مار ڈالنا۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے جو چیز خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لے لیا گیا ہو تو کھالے۔ اسی طرح بالاجماع تیر سے شکار کرنے میں بھی زخمی کرنا شرط ہے حضرت عدی بن حاتم کا قول ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم چپٹے تیر سے شکار کرتے ہیں فرمایا تیر گھس جائے اور کاٹ پیدا کر دے تو کھالو اور تیر کا چپٹا حصہ اگر شکار (کے لگے اور اس سے شکار مرجائے تو مت کھاؤ یہ کوٹے ہوئے کی طرح ہوگا۔ رواہ البخاری ومسلم) مسئلہ : ہر شکاری جانور سے شکار کرنا جائز ہے۔ امام ابو یوسف (رح) نے شیر اور بھیڑئیے کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے کیونکہ یہ دونوں شکاری کے لئے شکار نہیں کرتے ہیں بعض نے ان دونوں کے ساتھ چیل کو ملا دیا ہے۔ خنزیر بالاجماع مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ نجس العین ہے کسی طور پر اس سے انتفاع درست نہیں۔ میں کہتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ شیر اور بھیڑئیے اور چیل کو جوارح سے مستثنیٰ قرار دیا جائے) شکاری کے لئے شکار نہ کرنے کو استثناء کی علت نہیں قرار دیاجا سکتا بلکہ اگر ایسا ہے تو یہ دونوں درندے ما علمتم کے لفظ سے خارج ہوجائیں گے (جوارح میں داخل رہیں گے) امام احمد نے فرمایا خالص سیاہ کتے کا شکار حلال نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مغفل کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کتے بھی من جملہ دیگر (حیوانی) امتوں کے ایک امت نہ ہوتے تو میں ان کو (عام طور پر) قتل کردینے کا حکم دے دیتا۔ اب تم خالص سیاہ کتے کو قتل کردیا کرو۔ رواہ ابو داؤد والترمذی والدارمی۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا ہم کو حکم دیا پھر کچھ مدت کے بعد ممانعت فرما دی اور فرمایا دو نقطوں والے خالص سیاہ کتے کو قتل کردیا کرو کہ وہ یقیناً شیطان ہے۔ جمہور کے نزدیک عموم آیت کی وجہ سے ہر کتے کا شکار حلال ہے۔ مکلبین ٹریننگ دیئے ہوئے۔ تعلیم کے اندر ٹریننگ داخل ہے مکرر ذکر تعلیم میں قوت پیدا کرنے اور ترغیب دینے کے لئے کیا گیا۔ مکلب کتوں کو ٹریننگ دینے والا۔ یہ لفظ کلب سے بنا ہے چونکہ کتوں کو ادب آموزی کثیر الوقوع بھی ہے اور زیادہ اثر انگیز بھی اس لئے کلب سے تکلیب بنا کر عام شکار کی ٹریننگ کے لئے استعمال کرلیا گیا۔ یا یوں کہا جائے کہ کلب ہر درندہ کو کہتے ہیں (لہٰذا ہر درندہ کو شکار آموزی کے لئے اس لفظ کا استعمال کیا گیا) قاموس میں ہے کلب ہر کٹکھنا درندہ۔ عتبہ بن ابی لہب رسول اللہ ﷺ : کو گالیاں دیتا تھا حضور ﷺ نے اس کے لئے بد دعا کی اور فرمایا اے اللہ اپنے کتوں میں سے کسی کتے کو (یعنی کسی درندہ کو) اس پر مسلط کر دے چناچہ شام کو جانے کے ارادہ سے جب وہ قافلہ کے ساتھ مکہ سے نکلا اور قافلہ کسی نمر) پر اترا تو عتبہ نے کہا مجھے محمد ﷺ : کی بددعا سے ڈر لگا ہوا ہے لوگوں نے اپنا سارا سامان اس کے گرداگرد جمع کردیا اور (سامان پر بیٹھ کر ہر طرف سے) عتبہ کی نگرانی کرنے لگے لیکن ایک شیر آیا اور عتبہ کو اچک کر نکال لے گیا۔ حاکم نے یہ روایت مستدرک میں ابو عقرب کے حوالہ سے نقل کی ہے اور اس کو صحیح الاسناد کہا ہے۔ تعلمونہن مما علمکم اللّٰہ اس طریقہ سے ان کو تعلیم دے کر جو اللہ نے تم کو سکھایا ہے یعنی ٹریننگ کا جو طریقہ تم کو اللہ نے سکھا دیا ہے تم اس طریقہ سے شکاری جانوروں کو تعلیم دو ۔ یا مالک کے چھوڑنے سے شکار کے پیچھے جانا ‘ مالک کے روکنے سے رک جانا ‘ بلانے سے واپس آجانا ‘ شکار کو پکڑ کر روکے رکھنا۔ خود اس میں سے کچھ نہ کھانا یہ تمام امور تم ان کو سکھا دو ۔ شکاری جانور کے ٹرینڈ ہوجانے کا علم تین مرتبہ حکم کی تعمیل سے ہوجاتا ہے۔ اگر مالک کی تعلیم کے مطابق شکاری جانور تین بار ایسا کرلے تو ایسے جانور کو ٹرینڈ سمجھا جائے گا۔ تمام علوم عطا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ علوم تصوری و تصدیقی۔ بدیہی و نظری سب وہی القاء کرتا ہے۔ غور و فکر علم کا حقیقی سبب نہیں عادی سبب ہے غور و فکر اور مقدمات صغریٰ و کبریٰ کی ترتیب کے بعد بھی نتیجہ بغیر القاء خداوندی کے نہیں نکلتا۔ بلکہ ترتیب مقدمات کے بعد نتیجہ کا فیضان اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لئے تعلیم کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔ (یعنی کتوں کو تعلیم دینے کا طریقہ اللہ نے قرآن میں یا رسول اللہ ﷺ نے حدیث میں نہیں سکھایا علوم شرعیہ میں اس کا شمار نہیں مگر کوئی علم ہو بغیر عطاء الٰہی کے حاصل نہیں ہوسکتا ‘ بدیہی علم ہو یا نظری ‘ تجربہ و مشاہدہ سے حاصل ہو یا حدس و تمثیل سے یا استقراء اور برہان سے کوئی علم کسی طریقہ سے حاصل ہو اس کا حصول بغیر الہام و القاء و فیضان کے ناممکن ہے ذرائع علم تو تمام اسباب عادیہ ہیں حقیقی موجب علم عطائے خداوندی ہے) فکلوا مما امسکن علیکم پس جس شکار کو وہ پکڑ کر تمہارے لئے روک لیں اس میں سے تم کھا سکتے ہو یعنی اس شکار میں سے تم کھا سکتے ہو جس میں سے شکاری جانور نے نہ کھایا ہو آیت کی یہ تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی روایت کردہ حدیث سے ماخوذ ہے حضرت عدی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اگر بسم اللہ کر کے تم کتے کو چھوڑو اور کتا جا کر شکار کو پکڑ لے اور تم شکار کو زندہ پالو تو ذبح کرلو اور اگر کتا اس کو قتل کرچکا ہو مگر خود اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم اس کو کھا سکتے ہو اور اگر کتے نے کچھ کھالیا ہو تو تم اس کو نہ کھاؤ وہ کتے نے اپنے لئے پکڑا ہے۔ الحدیث۔ متفق علیہ۔ دوسری روایت اس طرح ہے کہ جس کتے اور باز کو ٹرینڈ کر کے اللہ کا نام لے کر تم نے (شکار پر) چھوڑا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ لے اس کو تم کھا سکتے ہو (عدی نے کہا) میں نے عرض کیا خواہ وہ قتل کرچکا ہو فرمایا خواہ اس نے قتل کردیا بشرطیکہ اس نے کھایا نہ ہو اگر اس میں سے کچھ کھالیا ہو تو مت کھاؤ وہ شکار اس نے اپنے لئے پکڑا ہے۔ یہ حدیث ابو داؤد اور بیہقی نے مجالد کی روایت سے بیان کی ہے اور مجالد نے شعبی کی روایت نقل کی ہے بیہقی نے لکھا ہے کہ صرف مجالد کے بیان میں باز کا ذکر ہے۔ دوسرے حفاظ حدیث کی روایت اس کے خلاف ہے (یعنی باقی روایات میں صرف کتے کا ذکر ہے باز کا ذکر نہیں) یہی تفسیر جو حضرت عدی کی حدیث سے ماخوذ ہے۔۔ امام اعظم (رح) کے قول کی دلیل ہے کہ اگر شکاری جانور نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تو اس شکار کو کھانا حلال نہیں۔ امام احمد کا قول بھی یہی ہے اور امام شافعی (رح) کے دو قولوں میں سے صحیح ترین قول یہی ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ عطا ‘ طاؤس ‘ شعبی ‘ ثوری اور ابن مبارک کا مختار بھی یہی ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی یہی منقول ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ کتے کے ٹرینڈ ہوجانے کی علامت یہ ہے کہ اس کو تین بار شکار پر چھوڑا جائے جب تین بار شکار کرنے کے بعد وہ خود نہ کھائے تو اس کو ٹرینڈ کتا کہا جائے گا۔ اس کتے سے چوتھی مرتبہ شکار کر کے کھانا جائز ہے بعض روایات میں امام صاحب کا قول آیا ہے کہ تیسری مرتبہ کا شکار کیا ہوا بھی حلال ہے۔ امام مالک کا قول ہے کہ اگر کتا شکار کا گوشت کھا بھی لے تب بھی وہ شکار حلال ہے ایک روایت میں امام شافعی (رح) کی طرف اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ‘ حضرت سلمان ؓ فارسی اور حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص کے اقوال بھی یہی روایات میں آئے ہیں کیونکہ حضرت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت ہے کہ ایک شخص جس کا نام ابو ثعلبہ ؓ : تھا رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس ٹرینڈ کتے ہیں ‘ میں ان سے شکار کرتا ہوں فرمایا اگر تیرے کتے ٹرینڈ ہیں تو جو شکار وہ تیرے لئے پکڑ رکھیں اس کو تو کھا سکتا ہے ‘ ابو ثعلبہ نے عرض کیا شکار ذبح کیا گیا ہو یا نہ ذبح کیا گیا ہو۔ فرمایا ذبح ہو یا نہ ہو۔ ابو ثعلبہ نے عرض کیا خواہ کتے نے اس میں سے کچھ کھالیا ہو ‘ فرمایا خواہ اس نے اس میں سے کچھ کھالیا ہو۔ رواہ ابو داؤد۔ میں کہتا ہوں بیہقی نے اس حدیث کو معلل قرار دیا ہے اور حضرت عدی ؓ بن حاتم والی حدیث کی صحت پر اتفاق ہے۔ حضرت عدی ؓ کی حدیث اور مجالد کی روایت کے بموجب اگر آیت کی تفسیر کی جائے تو خود نہ کھانے کی جو شرط درندہ شکاری جانوروں کے متعلق ہے وہی شکاری پرندوں کے سلسلہ میں ہوگی اور بعض فقہاء کا یہی مسلک ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک شکاری پرندوں کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ انہوں نے شکار میں سے کچھ نہ کھایا ہو وجہ ظاہر ہے کہ شکاری پرندے ضرب برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے (کہ ان کو مار کر شکار ان کے پنجوں سے چھڑا لیا جائے) اور درندے چوپائے ضرب کی برداشت رکھتے ہیں۔ عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ جب کتا کھالے تو تم نہ کھاؤ اور شکرا کھالے تو تم (بقیہ) کھا سکتے ہو کیونکہ کتا ضرب کو برداشت کرسکتا اور شکرا برداشت نہیں کرسکتا۔ اس تنقیح سے یہ شبہ نہ کرنا چاہئے کہ یہ تو قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں قیاسی استدلال ہے جو ناقابل قبول ہے کیونکہ قرآن میں تو کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے شکاری جانور کے کچھ نہ کھانے کی شرط پر واضح دلالت ہو رہی ہو ‘ لفظ امساک (جو امسکن علیکم میں موجود ہے) ارسال کی ضد ہے (یعنی پکڑ لینا نہ چھوڑنا) اکل کی ضد نہیں ہے (یعنی امساک کا معنی نہ کھانا نہیں ہے) اور کتے کے شکار میں نہ کھانے کی شرط (ظاہر نص قرآنی کی وجہ سے نہیں بلکہ) صحیحین کی حدیث کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔ رہا مجالد کی انفرادی روایت (جس میں باز کا لفظ بھی آیا ہے) وہ ناقابل قبول ہے حفاظ حدیث کی روایت کے بھی خلاف ہے اور قیاس کی بھی مخالف ہے۔ واذکروا اسم اللّٰہ علیہ اور اس شکاری جانور پر اللہ کا نام لے لیا کرو یعنی شکاری جانور کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لیا کرو۔ لہٰذا کتے اور باز وغیرہ کو شکار پر چھوڑنے کے وقت بسم اللہ پڑھنی ضروری ہے اسی طرح تیر چھوڑنے کے وقت بسم اللہ پڑھنی لازم ہے ویسے ہی جیسے ذبح کے وقت پڑھنی ضروری ہے فرق یہ ہے کہ ذبح میں جانور کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھی جاتی ہے اور تیر یا شکاری جانور کو چھوڑتے وقت کیونکہ شکار پر گرفت تیر پھینکنے یا شکاری جانور کو چھوڑنے کے وقت نہیں ہوتی لہٰذا ایسے فعل کے وقت اللہ کا نام لینا چاہئے جس پر قدرت ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کسی بکری کو پچھاڑا اور بسم اللہ پڑھی اور اس بسم اللہ سے ذبح دوسری کردی تو ناجائز ہے اور اگر کسی شکار پر تیر پھینکتے وقت بسم اللہ پڑھی اور تیر دوسرے پرندہ کے لگ گیا جس سے وہ مرگیا تو حلال ہے اور اگر ایک بکری کو پچھاڑا اور بسم اللہ پڑھی پھر وہ چھری پھینک دی اور دوسری سے ذبح کردیا تو حلال ہے اور اگر تیر پھینکتے وقت بسم اللہ پڑھی مگر وہ تیر نہ چھوڑا بلکہ دوسرا چھوڑا تو شکار حلال نہیں۔ مذبوح کو ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنی اصل ہے لیکن اگر مجبوراً ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آلہ (شکاری جانور یا تیر) کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنی کافی ہے اسی لئے اگر شکار پر شکاری جانور کو یا تیر کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی ہو مگر شکار زندہ ہاتھ لگ جائے تو دوبارہ ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنی اور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا واجب ہے ایسا نہ کیا تو وہ شکار حلال نہ ہوگا۔ یہ حکم اس وقت ہوگا جب زندہ کو ذبح کرنے کا امکان ہو اور ذبح نہ کرے لیکن زندہ جانور ہاتھ میں ایسی حالت میں آجائے کہ ذبح کئے ہوئے جانور سے کچھ زائد اس کے اندر جان ہو مگر ذبح نہ کرسکے اور وہ مرجائے تو ایک روایت میں امام اعظم (رح) کے نزدیک وہ حلال نہیں دوسری روایت میں حلت کا قول آیا ہے امام ابو یوسف (رح) اور امام شافعی (رح) کا بھی یہی قول ہے بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ اگر ذبح پر قدرت آلۂ ذبح نہ ہونے کی وجہ سے نہ ہو سکے تو حلال نہیں اور ذبح کرنے کا وقت نہ ملے اور اس وجہ سے ذبح نہ کرسکے تو حلال ہے۔ یہ قول امام اعظم (رح) کا ہے امام شافعی (رح) اس کے خلاف ہیں۔ مسئلہ : جانور یا تیر چھوڑنے کے وقت قصداً بسم اللہ ترک کردی یا ذبح کرنے کے وقت قصداً بسم اللہ نہ کہی یا ٹرینڈ کتے کے ساتھ کوئی ان ٹرینڈ کتا یا مجوسی کتا یا کوئی ایسا کتا جس کو چھوڑنے کے وقت قصداً بسم اللہ ترک کردی گئی ہو شریک ہوگیا تو اس شکار کو کھانا حلال نہیں کیونکہ اس آیت میں شکار کے حلال ہونے کی جو شرط لگائی گئی ہے وہ فوت ہوگئی اس کے علاوہ دوسری آیت میں آیا ہے ولا تاکَلُوْا مِمَّا لَمْ بذکر اسْمُ اللّٰہ عَلَیْہِجس پر اللہ کا نام نہ ذکر کیا گیا ہو اس کو نہ کھاؤ۔ حضرت عدی ؓ کی روایت ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے کتے کو چھوڑتا ہوں لیکن اس کے ساتھ ایک اور کتا بھی شریک ہوجاتا ہے فرمایا اس کو مت کھاؤ۔ کیونکہ بسم اللہ تو تم نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت پڑھی ہے دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔ متفق علیہ۔ حضرت عدی ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا اپنا کتا چھوڑتے وقت تم اللہ کا نام لے لیا کرو اب اگر وہ کتا تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھے اور تم شکار کو زندہ پالو تو اس کو ذبح کرلو اور اگر مقتول پاؤ مگر کتے نے اس میں سے نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو۔ (1) [ اور اگر کھالیا ہو تو نہ کھاؤ کیونکہ اس نے شکار اپنے لئے پکڑا ہے اور اگر تم اپنے کتے کے ساتھ کسی دوسرے کے کتے (یعنی غیر کتے کو) شریک پاؤ اور شکار قتل ہوچکا ہو تو اس کو نہ کھاؤ کیونکہ تم کو معلوم نہیں کہ کس کتے نے شکار کو قتل کیا ہے اور اگر بسم اللہ پڑھ کر تم تیر چھوڑو اور شکار ایک دن تک تمہاری نظر سے غائب ہوجائے پھر (مقتول ملے مگر اس میں تمہارے تیر کے نشان کے علاوہ کوئی دوسرا نشان نہ ہو (تو اس کو کھالو)] اور اگر اس کو پانی میں ڈوبا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ۔ متفق علیہ۔ حضرت ابو ثعلبہ خشنی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے بسم اللہ کر کے اپنی کمان سے جو شکار کیا ہو اس کو کھاؤ اور جو بسم اللہ کر کے اپنے ٹرینڈ کتے کے ذریعہ سے شکار کیا ہو اس کو کھاؤ اور جو بن سدھائے کتے کے ذریعے سے شکار کیا ہو اور ذبح کو پہنچ گئے ہو (یعنی ذبح کرلیا ہو) تو اس کو بھی کھاؤ۔ متفق علیہ۔ مسئلہ : اگر بسم اللہ کہنا بھول گیا تو امام احمد کے نزدیک حلال نہیں۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک حلال ہے امام مالک (رح) کا بھی یہی قول ہے۔ کتب مالکیہ میں یہی مذکور ہے۔ امام احمد کا ایک قول بھی اسی طرح آیا ہے۔ امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ذبیح پر بسم اللہ کہنا بھول گیا تو ذبیحہ حلال ہے اور شکار پر شکاری جانور اور تیر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہنا بھول گیا تو شکار حرام ہے امام احمد کا تیسرا قول یہ ہے کہ تیر پھینکتے وقت اگر بسم اللہ کہنا بھول گیا تو شکار حلال ہے اور کتے یا چیتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ کہنا بھول گیا تو شکار حرام ہے۔ امام شافعی (رح) کے نزدیک بہر صورت حلال ہے (امام مالک (رح) : کا قول بھی ایک روایت میں یہی آیا ہے۔ ابوالقاسم مالکی کا بھی یہی مختار ہے) خواہ بسم اللہ قصداً ترک کی ہو یا بھول گیا ہو۔ ذبیحہ پر ترک ہو یا کتے اور تیر سے شکار کرنے پر مگر کتا ٹرینڈ ہونا چاہئے اور ٹریننگ دینے والا مسلمان ہو یا کتابی۔ لیکن اگر ان ٹرینڈ کتا یا مجوسی کا کتا شریک ہوگیا تو شکار حرام ہے۔ مطلقاً متروک التسمیہ کے حلال ہونے پر دلیل حضرت عائشہ ؓ کی یہ حدیث ہے کہ کچھ لوگوں نے خدمت گرامی میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ : بعض لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں اور معلوم نہیں ہوتا کہ (ذبح کے وقت) اس پر بسم اللہ کہی گئی ہے یا نہیں فرمایا تم بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور کھالیا کرو۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا لوگوں کے کفر کا زمانہ گزرے اس وقت تک زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی۔ رواہ البخاری۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم میں سے بعض آدمی ذبح کرتے ہیں اور بسم اللہ کہنی بھول جاتے ہیں۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کا نام ہر مسلمان کے منہ میں ہے۔ رواہ الدارقطنی۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان اگر ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو پھر بسم اللہ کہے اور اللہ کا نام لے کر کھالے۔ رواہ الدارقطنی۔ صلت کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے بسم اللہ کہی ہو یا نہ کہی ہو۔ رواہ ابو داؤد فی المراسیل۔ بیہقی نے اس حدیث کو موصولاً حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے مگر اس کی اسناد میں ضعف ہے۔ بیہقی نے لکھا ہے صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ابن عباس ؓ پر موقوف ہے۔ ان روایات کا جواب یہ ہے کہ پہلی حدیث تو ترک بسم اللہ پر دلالت ہی نہیں کرتی اور ظاہر یہ ہے کہ وہ بسم اللہ پڑھتے ہی ہوں گے۔ دوسری حدیث کی سند میں مروان بن سالم ہے جس کے متعلق امام احمد (رح) نے کہا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور نسائی و دارقطنی نے اس کو متروک کہا ہے۔ تیسری حدیث کی روایت میں ایک شخص معقل مجہول ہے۔ چوتھی روایت مرسل ہے۔ پھر دوسری اور تیسری حدیث اس ذبیحہ کے متعلق ہے جس پر بسم اللہ کہنی بھول کر رہ گئی ہے اس سے شافعی (رح) کے مسلک کی تائید نہیں ہوسکتی اور چوتھی حدیث کو ہم حالت نسیان پر محمول کرتے ہیں۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ قصداً متروک التسمیہ کو حلال قرار دینا خلاف اجماع ہے۔ امام شافعی سے پہلے کوئی بھی اس کی حلت کا قائل نہ تھا البتہ بھول کر بسم اللہ پڑھنی رہ گئی ہو تو اس کے متعلق سلف میں اختلاف تھا۔ حضرت ابن عمر ؓ اس کو حرام کہتے تھے اور حضرت ابن عباس ؓ و حضرت علی ؓ حلال۔ اسی لئے امام ابو یوسف نے کہا کہ قصداً اگر بسم اللہ نہ پڑھی ہو تو اس میں اجتہاد کی گنجائش ہی نہیں ہے (یہ تو اجماعاً حرام ہے) اور اگر قاضی ایسے ذبیحہ کی بیع کے جواز کا حکم دے دے تو اس کا حکم نافذ نہیں ہوگا کیونکہ اجماع کے خلاف ہے۔ مسئلہ : جو شکار پالتو ہوگیا ہو تو اس کو ذبح کرنا ضروری ہے اور جو اونٹ گائے جنگلی ہوگیا ہو تو صرف زخمی کردینا ہی اس کا تزکیہ ہے اور اگر بکری آوارہ ہو کر جنگل کو چلی گئی ہو تو اس کا تزکیہ بھی فقط زخمی کردینا ہے لیکن اگر آوارہ ہو کر شہر ہی کے اندر ہو تو چونکہ اس کو پکڑنا ممکن ہے اس لئے اس کو ذبح کرنا لازم ہے اصل ضابطہ یہ ہے کہ جب ذبح کرنا قابو سے باہر ہو تو اس شے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جس کو ذبح کے قائم مقام مانا گیا ہے اور جب پالتو جانور صحرائی بن جائیں تو اختیاری تزکیہ ممکن نہیں رہتا اس کے برخلاف جو صحرائی جانور پالتو بنا لیا جائے وہاں اختیاری تزکیہ پر قابو ہوجاتا ہے۔ یہی حالت جمہور کے نزدیک اس وقت ہوگی جب کوئی چوپایہ کنوئیں میں گرپڑے اور اس کو ذبح کرنا ناممکن ہوجائے تو تزکیہ غیر اختیاری یعنی صرف زخمی کرنے پر اکتفا کیا جائے گا۔ امام مالک (رح) کے نزدیک پالتو جانوروں کا باقاعدہ ذبح کرنا یعنی حلق اور لبہ کا کاٹنا ضروری ہے کیونکہ بھاگ کر ان کا صحرائی بن جانا بہت نادر ہے جو ناقابل اعتبار ہے۔ ہماری دلیل حضرت رافع ؓ بن خدیج کی روایت کردہ حدیث ہے۔ حضرت رافع کا بیان ہے کہ مال غنیمت سے کچھ اونٹ ہم کو ملے ان میں سے ایک اونٹ بھاگ نکلا لیکن ایک آدمی نے اس کے تیر مارا جس کی وجہ سے اللہ نے اس کو روک دیا اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان اونٹوں میں کچھ وحشی جنگلی بھی ہوتے ہیں جیسے دوسرے وحشی جانور ‘ لہٰذا اگر ان میں سے کوئی بےقابو ہوجائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ متفق علیہ۔ ابوالعشراء کی روایت ہے کہ میرے باپ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ﷺ کیا حلق اور لبہ کے سوا ذبح کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ؟ فرمایا : اگر اس کی ران میں تم نیزہ مار دو تب بھی کافی ہے۔ رواہ احمد و اصحاب السنن الاربعۃ والدارمی۔ ابو داؤد نے بیان کیا ہے کہ اوپر سے نیچے گرنے والے جانور کا تزکیہ بھی اسی طرح ہے ترمذی نے لکھا ہے ایسا ضرورت کے وقت ہوگا۔ حافظ ابو موسیٰ ؓ نے مسند ابوالعشراء میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے اگر تم اس کی ران یا پہلو میں نیزہ مار دو اور اللہ کا نام لے لو تو تمہارے لئے کافی ہے۔ امام شافعی (رح) نے بیان کیا ہے ایک اونٹ کنوئیں میں گرگیا تو اس کے پہلو کو نیزہ سے زخمی کردیا گیا اور حضرت ابن عمر ؓ سے مسئلہ دریافت کیا گیا آپ نے کھانے کا حکم دے دیا۔ مسئلہ : شکار کے تیر مارنے سے اگر اس کا کوئی عضو کٹ کر جدا ہوجائے تو شکار حلال ہے اور وہ کٹا ہوا عضو نہیں کھایا جائے گا۔ امام شافعی کے نزدیک دونوں کو کھانا حلال ہے خواہ شکار تیر مارنے سے مرگیا ہو کیونکہ غیر اختیاری تزکیہ سے عضو جدا ہوا ہے لہٰذا جس بدن سے جدا ہوا اور جو عضو جدا ہوا دونوں کا کھانا حلال ہے۔ ہمارے مسلک کا ثبوت حدیث سے ملتا ہے حضور کا فرمان عام ہے کہ زندہ سے جو حصہ جدا کرلیا گیا ہو وہ حصہ مردار ہے۔ واتقوا اللہ اور (ممنوعات کا ارتکاب کرنے) میں اللہ سے ڈرو۔ ان اللہ سریع الحساب یقیناً اللہ (عزوجل) جلد حساب لینے والا ہے۔ تمہارے ہر چھوٹے بڑے گناہ کی پکڑکرے گا۔
Top