Mazhar-ul-Quran - Al-Kahf : 11
فَضَرَبْنَا عَلٰۤى اٰذَانِهِمْ فِی الْكَهْفِ سِنِیْنَ عَدَدًاۙ
فَضَرَبْنَا : پس ہم نے مارا (پردہ ڈالا) عَلٰٓي : پر اٰذَانِهِمْ : ان کے کان (جمع) فِي الْكَهْفِ : غار میں سِنِيْنَ عَدَدًا : کئی سال
پس ہم نے سالہا سال تک غار میں ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈال دیا (یعنی سلا دیا)
اصحاب کہف کا بیان شان نزول : اس کا حاصل یہ ہے کہ جب یہود نے قریش کو تین سوال دیئے کہ حضرت محمد ﷺ سے پوچھو تو آپس میں کہنے لگے کہ ان جوانوں کا قصہ بہت عجیب ہے، محمد ﷺ اس کا جواب دیں سکیں تو عجب کی بات ہے۔ حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا کہ کھوہ والوں کا قصہ ہماری اس قدرت کے روبرو عجیب بات نہیں ہے کس لئے کہ آسمان و زمین کی پیدائش رات دن کا بدلنا، چاند سورج اور اس کے سوا بڑی بڑی نشانیاں ہماری قدرت کی ہیں جو اصحاب کہف کے قصہ سے بھی زیادہ ہیں ۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ قصہ اصحاب کہف بیان ہوتا ہے کہ یہ سات آدمی تھے ان کے نام یہ ہیں : (1) مکسلمینا (2) یملیخا (3) مرطوقس (4) پینونس (5) سار ینونس (6) ذونوانس (7) کشفیط لحنونس اور ان کے کتے کا نام قمطیر ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کے بعد اہل انجیل کی حالت ابتر ہوگئی وہ بت پرستی میں مبتلا ہوئے اور دوسروں کو بت پرستی پر مجبور کرنے لگے۔ ان میں دقیا نوس بادشاہ بڑا جابر تھا جو بت پرستی پر راضی نہ ہوتا اس کو قتل کر ڈالتا تھا۔ اصحاب کہف شہر افسوس کے شرفاء اور معززین میں سے ایماندار لوگ تھے۔ دقیانوس بادشاہ نے بت پرستی اختیار کرنے کے لئے ان جوانوں کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ثابت قدمی بڑھا دی، اور ان کے دلوں کو مضبوط کردیا جس سے انہوں نے دقیانوس کو یہی جواب دیا کہ ہم سوا اللہ تعالیٰ کے بتوں کے معبود ہونے کا اقرار ہرگز زبان پر نہیں لاسکتے۔ کیونکہ انسان پر اکیلے اللہ کی تعظیم واجب ہے دقیانوس بادشاہ نے ان نوجوانوں سے یہ کہا کہ تمہاری جوانی پر مجھ کو ترس آتا ہے اس واسطے میں تمہارے قتل کرانے میں جلدی نہیں کرتا لیکن تم کو مہلت دیتا ہوں اگر اس مہلت کے بعد تم نے قوم کا مذہب اختیار نہیں کیا تو تم ضرور قتل کردیئے جاؤ گے دقیانوس نے ان جوانوں کو اپنے دربار سے نکلوا دیا ۔ اس مہلت کے زمانہ میں ان جوانوں نے اپنے دین پر قائم رہنے اور غار میں چھپ جانے کا مشورہ کیا اور اس ارادہ کے پورا ہوجانے میں اللہ کی رحمت پر بھروسہ کیا اور قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزین ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جس کا ذکر اوپر کی آیت میں ہے راستے میں ایک کتا بھی ساتھ لگ گیا اس کو دھتکارا تو وہ کتا بحکم خدا بول اٹھا کہ میں اللہ کے پیاروں سے محبت کرتا ہوں تم سو جانا میں چوکیدار بن کر نگہبانی کروں گا غرضیکہ غار میں وہ پڑ کر سو گئے ان کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں جس کے باعث بیدار معلوم ہوتے ہیں تین سو نو برس تک اسی حالت میں رہے۔ بادشاہ دقیانوس نے جو مہلت دی تھی اس مہلت کے بعد یہ جوان دقیانوس کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے تو دقیانوس ان کے رشتہ داروں پر خفا ہوا اور جوانوں کے حاضر کرنے کا حکم دیا جوانوں کے رشتہ داروں نے جواب دیا کہ گھروں سے تو وہ جوان چلے گئے مگر سنتے ہیں کہ بستی کے پاس جو پہاڑ ہے اس کے غار میں چھپ گئے ہیں۔ یہ سن کر دقیانوس نے غار کے منہ پر ایک دیور چنوا دی تاکہ وہ جوان بھوکے پیاسے اس غار کے اندر مر جاویں مگر تقدیر الہیٰ کے آگے کسی کی کوئی تدبیر نہیں چلتی۔ اللہ نے اس دیوار کو ان جوانوں کی حفاظت کا ایک ذریعہ ٹھہرا دیا تاکہ باہر سے کوئی غار میں جا کر ان جوانوں کی نیند میں خلل نہ ڈالے۔ اور یہ دیوار کا کام جس کے سپرد کیا تھا وہ نیک آدمی تھا اس نے اصحاب کے نام کی تعداد پورا واقعہ رانگ کی تختی پر کندہ کرا کر تانبے کے صندوق میں دیوار کی بنیاد کے اندر محفوظ کردیا اور اسی طرح ایک تختی شاہی خزانہ میں بھی محفوظ کرادی گئی کچھ عرصہ بعد دقیانوس ہلاک ہوا زمانے گزرے سلطنتیں بدلیں، آخر کو ایک نیک بادشاہ فرمانروا ہوا ، اس کا نام بیداروس تھا جس نے اڑسٹھ سال حکومت کی پھر ملک میں فرقہ بندی پیدا ہوئی اور بعض لوگ مرنے کے بعد اٹھنے اور قیامت آنے کے منکر ہوگئے بادشاہ ایک تنہا مکان میں بند ہوگیا اور اس نے گریہ وزاری سے بارگاہ الہٰی میں دعا کی :” یارب کوئی ایسی نشانی ظاہر فرما جس سے خلق کو مردوں کے اٹھنے اور قیامت آنے کا یقین حاصل ہو “ اس زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بکریوں کے لئے آرام کی جگہ حاصل کرنے کے واسطے اسی غار کو تجویز کیا اور غار گرا دی دیوار گرنے کے بعد کچھ ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ گرانے والے بھاگ گئے۔ اصحاب کہف بحکم الہٰی خوش وخرم اٹھے۔ ایک نے دوسرے کو سلام کیا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے فارغ ہو کر یملیخا سے کہا کہ آپ جایئے اور بازار سے کچھ کھانے کو بھی لایئے اور یہ بھی خبر لایئے کہ دقیانوس کا ہم لوگوں کی نسبت کیا ارادہ ہے، وہ بازار گئے شہر پناہ کے دروازہ پر اسلامی علامت دیکھی، نئے نئے لوگ پائے انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نام کی قسم کھاتے سنا۔ تعجب ہوا کہ کیا معاملہ ہے کل تو کوئی شخص اپنا ایمان نہیں ظاہر کرسکتا تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نام لینے سے قتل کردیا جاتا تھا، آج اسلامی علامتیں شہر پناہ پر ظاہر ہیں لوگ بےخوف وخطر حضرت کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں۔ پھر آپ نانبائی کی دکان پر گئے کھانا خریدنے کے لئے اس کو دقیانوسی د کے کا روپیہ دیاجس کا چلن صدیوں سے موقوف ہوگیا تھا اور اس کا دیکھنے والا بھی کوئی باقی نہ رہا تھا۔ بازار والوں نے خیال کیا کہ کوئی پرانا خزانہ ہاتھ آگیا ہے انہیں پکڑ کر حاکم کے پاس لے گئے وہ نیک شخص تھا اس نے ان سے دریافت کیا کہ خزانہ کہاں ہے۔ انہوں نے کہا خزانہ کہیں نہیں ہے یہ روپیہ ہمارا اپنا ہے حاکم نے کہا یہ بات کسی طرح قابل یقین نہیں اس میں جو سنہ موجود ہے وہ تین سو برس سے زیادہ کا ہے اور آپ نوجوان ہیں ہم لوگ بوڑھے ہم نے تو کبھی یہ سکہ دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے فرمایا :” میں جو دریافت کروں وہ ٹھیک ٹھیک بتاؤ تو عقدہ حل ہوجائے گا “ یہ بتاؤ کہ دقیانوس بادشاہ کس حال و خیال میں ہے حاکم نے کہا کہ آج روئے زمین پر اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں، سینکڑوں برس ہوئے جب ایک بےایمان بادشاہ اس نام کا گزرا ہے، آپ نے فرمایا :” کل ہی تو ہم اس کے خوف سے جان بچا کر بھاگے ہیں، میرے ساتھ قریب کے پہاڑ میں ایک غار کے اندر پناہ گزیں ہیں چلو میں تمہیں ان سے ملا دوں “۔ حاکم او شہر کے عمائش اور خلق کثیر ان کے ہمراہ سرغار پہنچے۔ اصحاب کہف یملیخا کے انتظار میں تھے کثیر لوگوں کے آنے کی آواز اور کھٹکے سن کر سنجھے کہ یملیخا پکڑے گئے اور دقیانوسی فوج ہماری جستجو میں آرہی ہے۔ اللہ کی حمد اور شکر بجا لانے لگے ، اتنے میں یہ لوگ پہنچے یملیخا نے تمام قصہ سنایا ، ان حضرات نے سمجھ لیا کہ ہم بحکم الہٰی اتنا طویل زمانہ سوئے اور اب اس لئے اٹھائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے بعد موت زندہ کئے جانے کی دلیل اور نشانی ہوں۔ حاکم سرغار پہنچا تو اس نے تانبے کا صندوق دیکھا اس کو کھولا تو تختی برآمد ہوئی۔ اس تختی میں ان اصحاب کے نام اور ان کے کتے کا نام لکھا تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ جماعت اپنے دین کی حفاظت کے لئے دقیانوس کے ڈر سے غار میں پناہ گزیں ہوئی۔ دقیانوس نے خبر پاکر ایک دیوار سے انہیں غار میں بند کردینے کا حکم دیا۔ ہم یہ خیال اس لئے لکھتے ہیں کہ جب کبھی غار کھلے تو لوگ ان کے حال سے مطلع ہوجائیں۔ یہ لوح پڑھ کر سب کو تعجب ہوا اور لوگ اللہ کی حمد وثناء بجا لائے کہ اس نے ایسی نشانی ظاہر فرمادی جس سے موت کے بعد اٹھنے کا یقین حاصل ہوتا ہے حاکم اپنے بادشاہ بیداروس کو واقعہ کی اطلاع کی وہ وہ امراء وعمائد کو لے کر حاضر ہوا، اور سجدہ شکر الہٰی بجا لایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کی، اصحاب کہف نے بادشاہ سے معانقہ کیا اور فرمایا :” ہم تمہیں اللہ کے سپرد کرتے ہیں والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اللہ تیری اور تیرے ملک کی حفاظت فرماوے اور جن وانس کے شر سے بچائے “۔ بادشاہ کھڑا ہی تھا کہ وہ حضرات اپنے خواب گاہوں کی طرف واپس ہو کر مصروف خواب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دی۔ بادشاہ نے سال کے صندوق میں ان کے اجساد کو محفوظ کیا اور اللہ تعالیٰ نے رعب سے ان کی حفاظت فرمائی، کہ کسی کی مجال نہیں کہ وہاں پہنچ سکے۔ بادشاہ نے سرغٖار مسجد بنانے کا حکم دیا اور ایک سرور کا سن معین کیا کہ ہر سال لوگ عید کی طرح وہاں آیا کریں۔ (خازن وغیرہ)
Top