Mazhar-ul-Quran - Yaseen : 48
وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں مَتٰى : کب ھٰذَا الْوَعْدُ : یہ وعدہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
اور1 (کافر لوگ) کہتے ہیں کہ یہ (قیامت کا) وعدہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو۔
قیامت کس حالت میں قائم ہوگی۔ (ف 1) مشرکین مکہ کو جب پہلی قوموں کے حال سے ڈرنے کو کہاجاتا ہے اور ان کی گمراہی کے آئندہ کے نتیجہ کی انہیں یاد دلائی جاتی ہے تو بجائے راہ راست پر آنے کے یہ لوگ قرآن کی ان نصیحتوں کو ٹال دیتے تھے اسی طرح جب ان لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو خوشحال جو کیا ہے اس کے شکریہ میں غریب محتاج لوگوں کے ساتھ کچھ سلوک کیا کرو، تو اس کے جواب میں یہ لوگ کہتے تھے کہ کیا ان لوگوں کو کھانا کھلاویں اور کچھ خیرات دین جس کے اعتقاد میں یہ ہے کہ اللہ ہی ان کو رزق دے سکتا ہے تم لوگ جاباوجود اس بات کے کہ خدا کو رازق سمجھے ہوئے ہو اور پھر ہم سے کہتے کہ غریب اور محتاج لوگوں کے ساتھ سلوک کرو اور تم صریح گمراہ میں پڑے ہوئے ہو۔ قیامت کا منظر۔ (ف 1) جس طرح کوئی کسی چیز کا منتظر ہوتا ہے اس طرح کافر لوگ قیامت کا حال سن کر مسخرے پن اور تعجب سے یہ بات مسلمانوں سے کہتے کہ جو کچھ تم قیامت کا حال کہتے ہو کہ مرکرپھرجینا ہوگا اگر یہ تمہارا بیان سچ ہے تو آخر اس کا ظہور کب ہوگا اور قیامت کی ابتدا کسی صورت سے ہوگی جس کو نفخہ الفزع کہتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کے جواب میں فرمایا کہ جب یہ لوگ ایک منتظر آدمی کی طرح قیامت کے انتظار میں ہیں تو ان کو ایک سخت آواز کا انتظار کرنا چاہیے کہ لوگ اپنے دنیا کے کاروبار میں معمول کے موافق اسی طرح مصروف ہوں گے جس طرح آج کاروبار میں مصروف ہیں کہ یکایک ایک سخت آواز آن کر تمام دنیا فنا ہوجائے گی کہ نہ کوئی اپنے مال کی کسی کو کچھ وصیت کرسکے گا، نہ گھر کے باہر گیا ہوا شخص پھر کر گھر کو آسکے اس کے بعد چالیس برس تک تمام دنیا ویران پڑی رہے گی پھر دوسرا صورپھونکاجائے گا تو اس آواز سے سب جی اٹھیں گے اور اپنے رب کے روبروحاضر ہونے کے لیے قبروں سے نکل کر چل نکلیں گے اس دوسرے صورکانام نفخہ البعث ہے دونوں صور کے مابین چالیس برس کے زمانہ میں عذاب قبر موقوف ہوجائے گا اور عذاب قبر والے لوگوں کو ایک غنودگی سی آجائے گی اسی واسطے جب یہ لوگ دوسرے صور کی آواز سے جاگ اٹھیں گے تو اپنی قبروں کو اپنی خواب گاہ قرار دے کر یہ کہویں گے کہ افسوس ہم کو ہماری خوب گاہ سے کس نے اٹھایا کیا آج وہ دن ہے جس کو حشر کا دن اللہ کے رسول نے دنیا میں بتلایا تھا پھر فرمایا کہ دوسرے صور کی فقط ایک ہی آواز ان لوگوں کے اللہ تعالیٰ کے روبروحاضر ہونے کے لیے ایساگہرا تقاضا ہے کہ اس آواز کے ساتھ ہی یہ سب اللہ تعالیٰ کے روبروپکڑے ہوئے آجائیں گے۔
Top