Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 37
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاؕ
قَالَ : کہا لَهٗ : اس سے صَاحِبُهٗ : اس کا ساتھی وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کر رہا تھا اَكَفَرْتَ : کیا تو کفر کرتا ہے بِالَّذِيْ : اس کے ساتھ جس نے خَلَقَكَ : تجھے پیدا کیا مِنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر سَوّٰىكَ : تجھ پورا بنایا رَجُلًا : مرد
کہا اس (کفر کرنے والے) سے اس کے صاحب نے (جو مومن تھا) اور وہ اس کی بات کا جواب دے رہا تھا ، کیا تو نے کفر کیا ہے اس ذات کے ساتھ جس نے تجھے پیدا کیا ہے مٹی سے ، پھر قطرہ آب سے ، پھر برابر کیا ہے تجھے ایک مرد ۔
ربط آیات : اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جزائے عمل کے سلسلے میں ایک دولت مند مشرک اور ایک ایماندار مومن کی مثال بیان فرمائی ہے امیر آدمی نے اپنے باغ میں داخل ہوتے وقت کہا کہ یہ تو کبھی فنا نہیں ہوگا ۔ قیامت کا کوئی تصور نہیں ہے اور اگر یہ برپا بھی ہوگئی تو میں اس دنیا کی طرح وہاں بھی خوشحال ہی رہوں گا ، وہ شخص اپنے باغ اور مال و دولت کو اپنا ذاتی کمال سمجھتا تھا اور اسے اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں مانتا تھا ، پھر اس نے اپنے غریب مگر مومن بھائی کو طعن کیا کہ میں تم سے مال اور تعداد میں بہتر ہوں وہ غریب مومن اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرچکا تھا مگر امیر آدمی اپنے مال و دولت پر اترا رہا تھا ۔ (مومن بھائی کا جواب) غریب بھائی نے امیر بھائی کی بات کو توجہ سے سنا (آیت) ” قال لہ صاحبہ وھو یحاورہ “۔ اور اپنے بھائی کو جواب کہا (آیت) ” اکفرت بالذی خلقک من تراب “۔ کیا تو اس ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے پیدا کیا مٹی سے (آیت) ” ثم من نطفہ “ اور پھر قطرہ آب سے بنی نوع انسان کے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے ہی پیدا فرمایا جیسا کہ اس کا ارشاد ہے (آیت) ” خلقہ من تراب “ (آل عمران : 59) اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا فرمایا ، اور پھر باقی نوع کو قطرہ آب سے پیدا کیا ، دوسری جگہ (آیت) ” مآء مھین “ ۔ یعنی حقیر پانی کے الفاط بھی آتے ہیں ، مٹی ایک گرد و غبار ہے جس سے اللہ تعالیٰ اناج پیدا کرتا ہے جو انسان کی خوراک ہے اور اسی گردوغبار سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے مٹی سے پیدا ہونے والا انسان جب مٹی کی پیداوار بطور غذا استعمال کرتا ہے تو اس سے مادہ تولید پیدا ہوتا ہے جس سے نسل انسانی آگے چلتی ہے ، مومن بھائی نے کہا ، کیا تو اس ذات کے ساتھ کفر کرتا ہے جس نے تجھے مٹی سے اور پھر قطرہ آب سے پیدا کیا ، اور پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑ دیا (آیت) ” ثم سوک رجلا “۔ بلکہ تجھے مکمل مرد کی صورت میں برابر کردیا ، ذرا اپنے اعضاء کی طرف تو دھیان دے (آیت) ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم “۔ (التین ، 4) ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت دیکر پیدا ، اس کے تمام اعضاء اور قد کاٹھ کو موزوں کرکے حسین جمیل انسان بنا دیا ، یہ موزونیت اور حسن ہی انسان کو باقی مخلوق سے ممتاز کرتا ہے اور کہنے لگا تو ایسے پروردگار کا انکار کرتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ سارا مال و دولت تیری اپنی کمائی ہے تو اللہ تعالیٰ کا احسان نہیں مانتا تو جو چاہے اپنا عقیدہ وضع کرلے (آیت) ” لکنا ھو اللہ ربی “۔ مگر میں تو یہی کہوں گا کہ میرا رب تو وہی اللہ ہے (آیت) ” ولا اشرک بربی احدا “۔ میں تو اس کے ساتھ کسی کو شریک بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ ” لکنا ، دراصل لکن انا اقوال ہے ، اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا کہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ اللہ ہی میرا رب ہے جو تمام قوتوں کا سرچشمہ خالق ، ربوبیت کا مالک ، مدبر اور متصرف ہے ، وہ وحدہ لاشریک ہے مخلوق کو جب کوئی چیز ملتی ہے ، تو وہ محض اس کی ہوشیاری اور ہنرمندی سے نہیں بلکہ مشیت ایزدی سے ملتی ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما تشآء ؤ ن الا ان یشآء اللہ ء اللہ رب العلمین “۔ (التکویر ، 29) تمہاری چاہت اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے جو کہ تمام جہانوں کا پروردگار ہے بہرحال مومن بھائی نے اپنے عقیدے کا اظہار کردیا ، کہ میرا رب اللہ ہے میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں بناتا ، نہ صفت میں ، نہ عبادت میں ، نہ نذر ونیاز میں اور نہ مشیت میں ۔ پھر مومن بھائی نے اپنے کافر بھائی کو نصیحت بھی کی اور کہ (آیت) ” ولولا اذ دخلت جنتک قلت ما شآء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ جب تم اپنے باغ میں داخل ہوئے تو تم نے کیوں نہ کہا ، ” جو اللہ چاہے ، نہیں طاقت مگر اللہ ہی کے ساتھ ، تم تو اپنے باغ ، اولاد اور مال و دولت کو دیکھ کر کہتے تھے کہ کبھی ہلاک نہیں ہوں گے اور کم از کم میری زندگی تک یونہی رہیں گے تم قیامت کا بھی انکار کرتے تھے تم نے ہر چیز کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیوں نہ کیا کہ وہ چاہے گا تو سب کچھ ہوگا ، اور تمام قوتوں کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ان کلمات کی فضلیت کے ضمن میں حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں عرض اور جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں ؟ اور وہ ہے (آیت) ” لا حول ولا قوۃ الا باللہ “۔ یعنی برائی سے بچنے اور نیکی کرنے کی توفیق نہیں ہے جب تک اللہ نہ چاہے ، ایک روایت میں آتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے پر انعام کرے تو اسے یوں کہنا چاہئے ” ماشآء اللہ لا قوۃ الا باللہ “۔ یہ کلمات کہنے سے اللہ تعالیٰ اسے حوادثات اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا ، کیونکہ یہ بندہ اخلاص کے ساتھ عقیدہ توحید پر کاربند ہے اور سارے معاملات کو اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ پر توکل کا یہ کمال درجے کا کلمہ ہے ، امام مالک (رح) کا تو تکیہ کلام ہی یہ تھا ” ماشآء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ بعض کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے مکان کی پیشانی پر یہ کلمہ کندہ کرایا ہوا تھا کسی نے آپ سے کہا ، حضرت ! قرآن میں تو یہ کلمہ باغ کے بارے میں آیا ہے اور آپ نے اسے اپنے مکان پر لکھ دیا ہے ، فرمایا ، میرا یہ گھر اور میری اولاد میرا باغ ہی تو ہے میں ان سب کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ، میں اس کی توحید کا قائل ہوں اور اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ (مومن کا حسن ظن) اب اس مومن شخص نے اپنے بھائی کے طعن میں کا جواب بھی دیا کہا (آیت) ” ان ترن انا اقل منک مالا وولدا “۔ اگر تو دیکھتا ہے کہ میں تجھ سے مال اور اولاد میں کم ہوں تو کوئی بات نہیں ہے کیونکہ (آیت) ” فعسی ربی ان یؤتین خیرا من جنتک “۔ مجھے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے تیرے باغ سے بہتر عطا فرمائیگا کیونکہ میرا مال اسی کی راہ میں خرچ ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور مہربان ہے ، میں اس کی توحید کا قائل اور اس کی عبادت کرنے والا ہوں ، میں قیامت پر یقین رکھتا ہوں ، لہذا مجھے وہ بہتر بدلہ عطا فرمائیگا ۔ (باغ کی تباہی) مومن بھائی نے یہ بھی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارا مال ، اولاد اور باغ ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے ، تم اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا ، اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، ہو سکتا ہے (آیت) ” ویرسل علیھا حسبانا من السمآء “ وہ بھیج دے گا اس (باغ) پر عذاب آسمان سے ، حسبانا کا لفظی معنی محاسبے والی چیز اور مراد کوئی آفت یا عذاب ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا طوفان ، آندھی یا بگولہ بھیج دے جس سے یہ سارا باغ تباہ ہوجائے (آیت) ” فتصبح صعیدا زلقا “۔ اور یہ جگہ چٹیل میدان بن کر رہ جائے ، اس قسم کی کارگزاری کا اشارہ اللہ نے ابتدائے سورة میں بھی دیا ہے (آیت) ” وانا لجعلون ما علیھا صعیدا جرزا “۔ ہم زمین کی تمام چیزوں کو ملیا میٹ کر کے چٹیل میدان بنانے والے ہیں ۔ اس مرد مومن نے اپنے بھائی کو اس طرح بھی خوف دلایا کہ باغ کے درمیان بہنے والی جس نہر پر تم غرور کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ چاہے تو (آیت) ” او یصبح مآؤھا غورا “۔ اس نہر کے پانی کو بہت گہرا کر دے اور وہ تمہارے باغات تک پہنچ ہی نہ سکے (آیت) ” فلن تستطیع لہ طلبا اور تو اسے تلاش کرنے کی طاقت بھی نہ رکھے پانی اتنی دور چلا جائے کہ تمہاری کوئی مشینری اور کوئی ٹیوب ویل اسے برآمد نہ کرسکے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ سزا کے طور پر بھی ایسا کرنے پر قادر ہے اس قسم کا مضمون سورة الملک کی آخری آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے (آیت) ” قل ارئیتم ان اصبح مآؤ کم غورا فمن یاتیکم بمآء معین “۔ بھلا دیکھو تو اللہ تعالیٰ تمہارے پانی کو بہت گہرا لے جائے ، تو پھر کون ہے جو تمہارے پاس صاف ستھرا اور شیریں پانی لے آئے ، بہرحال اس مرد مومن نے اپنے دوسرے بھائی کو خبردار کردیا کہ وہ مال و دولت پر اترائے نہیں کیونکہ جو خدا تعالیٰ یہ چیزیں دے سکتا ہے وہ واپس لینے پر بھی قادر ہے ۔ اور پھر ایسا ہوا ، خدا تعالیٰ نے ایسی افتاد بھیجی (آیت) ” واحیط بثمرہ “ اس کے پھل کو گھیر لیا گیا ، مطلب یہ کہ اس کا باغ تباہ وبرباد ہوگیا اور وہ شخص کف افسوس ملنے لگا (آیت) ” فاصبح یقلب کفیہ علی ما انفق فیھا “۔ اور وہ اپنے ہاتھ ملتا تھا اس چیز پر جو اس نے خرچ کیا تھا وہ شخص نہ صرف باغ کی برداشت سے محروم ہوگیا بلکہ اس نے باغ کی ترقی کے لیے جو سرمایہ کاری کی تھی وہ بھی ڈوب گئی ایسی ہی مثال اللہ نے سورة القلم میں بھی بیان فرمائی ہے ، وہاں باغ کے مالک کئی بھائی تھے جب پھل کی برداشت کا وقت آتا تو موقع پر غرباء بھی جمع ہوجاتے اور نہیں بھی کچھ حاصل ہوجاتا ، ان بھائیوں نے کہا کہ یہ غریب لوگ خواہ مخواہ ہمارے مال سے حصہ لے جاتے ہیں کیوں نہ ہم علی الصبح باغ کا پھل ایسے وقت میں اٹھا لیں کہ غرباء کو وہاں پر پہنچنے کا موقع ہی نہ ملے ، چناچہ وہ صبح صبح منہ اندھیرے باغ پر پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں باغ کا نام ونشان تک نہ تھا اور وہ کف افسوس ملتے رہ گئے جس باغ کا ذکر یہاں پر کیا گیا ہے اس کا بھی یہی حال ہوا ، اللہ نے باغ کی جگہ چٹیل میدان بنا دیا اور باغ کا مالک منہ دیکھتا رہ گیا ۔ انگوروں کی بیلیں عام طور پر لکڑی کے چھپروں یعنی فریموں پر چڑھا دی جاتی ہیں تاکہ ان کا پھل ٹھیک آئے اور محفوظ رہے ، مگر اس شخص کے باغ کی بیلیں (آیت) ” وھی خاویۃ علی عروشھا “۔ اپنے چھپروں پر گری پڑی تھیں ، کوئی ایسا طوفان بادوباراں آیا تھا کہ ساری چھتریاں ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں ، اور بیلیں زمین پر آگری تھیں جس کی وجہ سے سارا پھل تباہ ہوچکا تھا ، (آیت) ” ویقول یلیتنی لم اشرک بربی احدا “۔ پھر وہ شخص کہنے لگا ، کاش میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتا مگر اب کیا ہو سکتا ہے ، اس کے غرور وتکبر کا نتیجہ ظاہر ہوگیا تھا ، قرآن پاک میں آتا ہے کہ اس طرح قیامت کو بھی مشرک لوگ افسوس کا اظہار کریں گے ، مگر اس وقت ان کا افسوس کرنا بےسود ہوگا ۔ فرمایا پھر اس شخص کا یہ حال تھا (آیت) ” ولم تکن لہ فئۃ ینصرونہ من دون اللہ “۔ اللہ کے سوا اس کی مدد کرنے والا کوئی گروہ نہ تھا ۔ (آیت) ” وما کان منتصرا “۔ اور نہ ہی وہ کسی طرح انتقام لینے کے قابل تھا ، بھلا خدا تعالیٰ سے کون انتقام لے سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے مؤحد اور مشرک کی مثال بیان کر کے شرک کا رد کردیا ہے ، خدا تعالیٰ کی مشیت کا انکار کرکے اپنے علم وہنر پر اترانے والوں کا یہی حال ہوتا ہے ، جو اللہ نے اس باغ والے کا بیان فرمایا ہے ۔ (حاصل کلام) فرمایا (آیت) ” ھنالک الولایۃ للہ الحق “۔ اسی مثال مثال سے یہ بات سمجھ لو کہ سارا اختیار اللہ کے پاس ہے جو برحق ہے ولایت کا معنے اختیار اور تصرف ہے اور ولایت سے مراد حکومت یا اقتدار بھی ہوتا ہے یہ دونوں باتیں درست ہیں تمام اختیارات اور تصرف بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اور حکومت اور اقتدار اعلی بھی خداوند قدوس ہی کا ہے اسی طرح اگر (آیت) ” الحق “ بڑھا جائے تو اس سے مراد اختیار ہے اور الحق پڑھا جائے تو حکومت ہے یہ دونوں قراتیں درست ہیں اور دونوں کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے ۔ فرمایا سارا تصرف اور حکومت اللہ کی ہے (آیت) ” ھو خیر ثوابا “۔ بدلہ دینے کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ، اپنے بندوں کے نیک اعمال کے بدلے میں کمی نہیں کرتا ، بلکہ بڑھا چڑھا کردیتا ہے (آیت) ” وخیر عقبا “ اور وہ انجام کے لحاظ سے بھی بہتر ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں توحید پرست نیکوکاروں کا انجام بھی بہت اچھا ہوگا ، اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مقام میں داخل ہوں گے ۔
Top