Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے بیان کرے اور تمہاری ان لوگوں کے راستوں کی طرف راہنمائی کرے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر (مہربانی سے) رجوع فرمائے اور اللہ جاننے ولا اور حکمت والا ہے
ربط آیات گزشتہ دروس میں محرمات نکاح کا ذکر ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس کی حکمت بھی بیان فرمادی ، اس کے بعد اللہ نے مخلوق پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا ، اور حلال و حرام سے متعلقہ احکام کی حکمت بیان فرمائی ہے۔ مکمل وضاحت ارشاد ہوتا ہے یرید اللہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے لیبین لکمتا کہ بیان کردے تمہارے لیے وہ چیزیں جو تمہارے لیے حلال ہیں اور جو حرام ہیں اللہ تعالیٰ تمہیں وہ باتیں بھی بتانا چاہتا ہے جو تمہارے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں اور جن میں تمہارافائدہ ہے۔ اور وہ باتیں بھی جن سے بچنا بھی تمہارے لیے ضروری ہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان اور اس کی مہربانی ہے کہ وہ ہمارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تاکہ ہم انہیں اختیار کرلیں اور نقصان دہ امور سے بچ جائیں۔ مفسر قرآن امام ابوبکر حصاص (رح) فرماتے کہ بیان دو قسم کا ہوتا ہے۔ بیان کی پہلی قسم نص ہے اور اس سے مراد وہ احکام و فرامین ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بالکل صراحت کے ساتھ بیان کردئیے ہیں ان میں حلال و حرام بالکل واضح الفاظ میں بتلادئیے ہیں۔ یا دوسری صورت میں یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے صریح الفا ظ میں وضاحت فرمادی گئی ہے ، یہ بھی نص ہے۔ بیان کی دوسری قسم وہ ہے جو دلالت کے ساتھ اخذ ہو۔ یہ احکام صراحتاً تو بیان نہیں کیے گئے مگر ایسے اشارات پائے جاتے ہیں جن سے اہل علم ، مفکر ، مجتہدین اور علماء غوروفکر کرکے ایسے احکام کو اخذ کرتے ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو چھوٹا بڑا حادثہ ہوتا ہے یا کوئی نبی چیز پیدا ہوتی ہے اس میں اللہ کا حکم ضرور ہوتا ہے اور یہ حکم صراحتاً ہوگا یا دلالتاً ۔ ایسے حکم کو معلوم کرنا ہر شخص کا کام نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فاسئلوا اھل الذکرک ان کنتم لاتعلمون اگر تم کسی بات کو نہیں سمجھ پائے تو اسے اس کے جاننے والوں ، یاد رکھنے والوں سے دریافت کرلو ، وہ تم کو بتائیں گے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے ، بیان کی دوسری قسم یہی ہے ۔ خصوصی رہنمائی فرمایا پہلی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ہر چیز کو بیان کرنا چاہتا ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ویھدیکم سنن الذین من قبلکم تمہاری راہنمائی کرنا چاہتا ہے۔ ان لوگوں کے راستوں کی طرف جو تم سے پہلے گزرے ہیں۔ ان پہلے لوگوں سے مراد اللہ کی وہ نبی ہیں۔ ان پہلے لوگوں سے مراد اللہ کے وہ نبی ہیں اور وہ نیک لوگ ہیں جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہم بھی ان صالحین کے نقش قدم پر چل کرمنزل مقصود کو پالیں۔ انبیاء میں سے حضرات ابراہیم (علیہ السلام) ، یعقوب (علیہ السلام) ، ہود (علیہ السلام) ، نوح (علیہ السلام) وغیرہ ہم کے راستے مقصود ہیں جن کو ہم اختیار کرسکتے ہیں۔ اسے کے علاوہ صالحین ، مقربین اور کامل الایمان لوگوں کے راستے بھی بتلائے مردوں کا ذکر بھی کیا اور عورتوں کا بھی اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے صالحین کا تذکرہ بھی فرمایا جو دنیا میں صاحب اقتدار بھی تھے۔ ذوالقرنین ایک بڑا بادشاہ تھا۔ زمین کا بیشتر حصہ اس کی زیر نگیں تھا مگر وہ ایماندار اور عادل بادشاہ تھا۔ ہمارے لیے اس کا راستہ بھی قابل اتباع ہے پھر لقمان جیسے عقل مند اور حکیم کا تذکرہ فرمایا تاکہ دنیا کے اہل دانش اور سمجھدارلوگ ان کی پیروی کرسکیں۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کس اعلیٰ طریقے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تعلیم دی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی بطور نمونہ ذکر کیا ہے اور پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور صالحین کے ساتھ ساتھ سرکش نافرمان ظالم مشرک کافر متکبر لوگوں کا تذکرہ بھی فرمایا تاکہ ایسے لوگوں کے غلط طریقے سے بچا جاسکے۔ وہ ایسے لوگ تھے الذین طغوا فی البلاد جنہوں نے زمین کو شروفساد سے بھردیا۔ ان کا حال بیان کرکے اللہ نے ہمیں تعلیم دی کہ ایے نافرمان اور باغی لوگوں کا راستہ اختیار نہیں کرنا۔ انبیائے سابقین سے مطابقت یہاں اصول فقہ کا یہ مسئلہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیائے کرام کا تذکرہ قرآن پاک میں کیا ہے اور پھر اگر ان سے منسوب احکام کی تردید نہیں فرمائی تو ایسے احکام امت آخر الزمان کے لیے دستور العمل ہوں گے۔ گویا ایسے حکم کو اللہ نے ہمارے لیے بھی مقرر فرما دیا ہے اور وہ ہمارے واسطے قابل عمل ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ سابقہ ادوار میں نکاح کی چار صورتیں رائج تھیں۔ حضور ﷺ نے ان چار میں سے موجودہ صورت کو برقرار رکھا اور باقی تین کو منسوخ فرمادیا لہٰذا اب یہی صورت ہمارے لیے قابل عمل ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں کچھ لوگ بیع سلم کیا کرتے تھے یعنی رقم پیشگی ادا کردیتے تھے اور جنس اس کے بکنے پر وصول کرتے تھے اس میں کچھ باطل شرطیں بھی موجود تھی جنہیں اللہ کے نبی نے منسوخ کردیا اور جائز طریقہ کو جاری رکھا۔ اسی طرح اگر سابقہ کتب آسمانی تورات یا انجیل وغیرہ میں کوئی ایسے احکام موجود ہوں جن کی تردید نہیں کی گئی تو وہ بھی ہمارے لیے قابل قبول ہوں گے۔ رجوع من اللہ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے لیے سابقہ لوگوں کے راستوں کی نشاندہی فرماتا ہے اور اس کے ساتھویتوب علیکم تمہاری طرف رجوع فرماتا ہے توبہ کا معنی رجوع ہے جیسا کہ کسی گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے بندے کا رجوع یہ ہے کہ وہ معاصی کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرے اور اگر یہ رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو وہ ثواب ہے ، وہ اپنے بندے پر مہربانی اور شفقت کے ساتھ رجوع کرتا ہے جب بندہ اس سے معافی مانگتا ہے تو وہ اس کو قبول کرتا ہے اسی کو فرمایا ویتوب علیکم وہ تمہاری طرف مہربانی اور شفقت سے رجوع کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے فائولئک یتوب اللہ علیھم اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہوتا ہے کہ معافی مانگنے والوں کو معاف کرنے کے علاوہیبدل اللہ سیاتھم حسنات ان کی برائیاں نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ بندے کی توبہ جس قدر خلوص نیت کے ساتھ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ اس کا صلہ بھی اسی قدر بہترعطا کرتا ہے بندے کے نامہ اعمال سے غلطیاں کوتاہیاں وغیرہ دور کرکے ان کی جگہ نیکیاں لکھ دیتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ تم پر رجوع فرماتا ہے معاف کرنے اور بخشش کرنے کے ساتھ۔ فرمایا واللہ علیم حکیم اللہ تعالیٰ ہرچیز کو جانتا ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ اس نے حلال حرام نکاح ، طلاق وغیرہ کے متعلق جو بھی احکام دئیے ہیں ان میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہے اور اس کے تمام اوامر ونواہی ہماری ہی بہتری کے لیے ہیں ، جن عورتوں سے نکاح کو حرام قرام دیا گیا اس میں لازماً ہماری مصلحت اور انسانیت کا بھلا ہے۔ انسان کا علم ناقص اور محدود ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی تمام حکمتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی علیم یعنی ہرچیز کو جاننے والی ہے۔ اور وہ حکیم ہے کہ اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ خواہشات پرست لوگ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ تاکید کے طور پر فرمایا واللہ یرید ان یتوب علیکم اللہ تعالیٰ تمہاری توبہ قبول کرنا چاہتا ہے اور اپنی بخشش اور مہربانی سے تم پر رجوع کرنا چاہتا ہے اور اپنی بخشش اور مہربانی سے تم پر رجوع کرنا چاہتا ہے۔ برخلاف اس کے ویرید الذین یتبعون الشھوت وہ لوگ جو خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں ان تمیلوا میلاً عظیما کہ تم کو راہ راست سے ہٹاکر پھر گمراہی کی طرف پھیردیں۔ اس ضمن میں مجوسیوں کا حال دیکھ لیں کہ وہ اپنی غلیظ خواہشات کے پیش نظر اپنی حقیقی ماں اور بہن سے بھی نکاح کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ کس قدر بےحیائی کی بات اور شہوت پر ستی ہے۔ اس سلسلہ میں یہودیوں کا حال بھی ایسا ہی ہے وہ بھی باطل پرست ٹولہ ہے ایسے ہی لوگ ہیں جو مسلمانوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے ہاں پھوپھی اور ماموں کی بیٹی سے نکاح تو جائز ہے مگر بھتیجی اور بھانجی سے کیوں جائز نہیں۔ یہ لوگ مسلمانوں میں شبہات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہنود کا مذہب بھی باطل ہے ان کے ہاں چچا کی بیٹی سے نکاح درست نہیں اور نہ وہ ماموں کی بیٹی سے نکاح کرتے ہیں حالانکہ اسلام نے چچا ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ کی بیٹی سے نکاح کو باطل قرار دیا ہے کیونکہ اس میں جنبیت پیدا ہوتی ہے اور یہ فطرت کے عین مطابق ہے اس کے علاوہ بھانجی اور بھتیجی سے نکاح حرام ہے کیونکہ اس میں بےحیائی پیدا ہوتی ہے۔ 1940 ء کا واقعہ ہے کہ سیالکوٹ کے ایک وکیل کا گریجوایٹ بیٹا گوری شنکر اپنی پھوپھی یاماموں کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا تھا مگر ہندو مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا لڑکی بھی رضا مندی تھی مگر باطل مذہب ان کے راستے میں رکاوٹ تھا معاملے نے بڑا طول پکڑا آخر لڑکی کی شادی کسی دوسری جگہ کردی گئی وہ بیماری کی حالت میں گھل گھل کر مر گئی۔ اُدھر لڑکے پر بھی دیوانگی کے دورے پڑنے لگے اس پر مجذبوں جیسی کیفیت طاری ہوگئی تاہم الحمد اللہ اسے ایمان کی دولت نصیب ہوگئی محمد غوری نام رکھا تقسیم ہند کے وقت ہندوخاندان تو ترک وطن کر گیا مگر وہ لڑکا پاکستان میں ہی رک گیا ابھی دس بارہ سال پہلے فوت ہوا ہے اس کے اسلام لانے کی وجہ یہ بنی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جس مذہب میں اس قسم کے غلط احکام ہوں وہ مذہب صحیح نہیں ہوستا ، لہٰذا اس نے ہندو ازم کو ترک کردیا۔ پرانے زمانے میں ایران کے رہنے والے مزدک اور مانی لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ عورت ایک مشترکہ متاع ہے لہٰذا ہر عورت کو ہر شخص استعمال کرسکتا ہے اس میں نکاح کی حدود وقیود کی ضرورت نہیں۔ ان میں ماں بہن بیٹی وغیرہ کا بھی کوئی امتیاز نہیں ، عورت صرف عورت ہے اور ہر آدمی کی شہوت رانی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ دور جدید میں اشتراکیت بھی انہی راستوں پر چل رہی ہے۔ اشتراکیت کے غلط نظریات سے متاثرہ لوگ بھی عورت کے متعلق اسی قسم کے خیالات اپنانے لگے ہیں اوڈن قسم کے لوگ بھی عورت کو مشترکہ کھاتے ہیں رکھنے کے خواہشمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ نکاح کی بندوشوں کو توڑدیا جائے۔ یورپ اور فرانس میں گزشتہ تیس چالیس سال سے ادیب اسی قسم کا پراپیگنڈا کر رہے ہیں جس سے نکاح کا بندھن ختم ہوجائے اور حلال و حرام کی تمیز اٹھ جائے تاکہ کوئی کسی کو حلالی یا حرامی کہنے کی پوزیشن میں نہ رہے۔ اس قسم کا پراپیگنڈا فرانس کی ادبی کتابوں میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کی توجہ اسی بےحیائی ، عیاشی اور فحاشی کی طرف دلانا چاہتا ہے کہ دیکھو ! اس قسم کے خواہشات کے پرستار لوگ تمہیں تمہارے راستے سے پھیر دینا چاہتے ہیں تم ان کی طرف توجہ نہ کرو بلکہ اللہ احکم الحاکمین کی طرف آئو جو تم پر اپنی بخشش اور مہربانی سے رجوع کرنا چاہتا ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں نے بعض رسومات باطلہ یہاں کے قدم ہندوئوں سے اخذ کی ہیں۔ ہندو کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیتے ہیں۔ پھر تیسرے دن بقیہ ہڈیوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور ان پر پھول چڑھاتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے قبروں پر پھول اور چادریں چڑھانا شروع کردیں اور اسے بڑا نیکی کا کام سمجھنے لگے۔ حالانکہ اسلام میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ مٹی کے ڈھیر پر پھول ڈالنے یا چادر چڑھانے کا کیا فائدہ۔ اگر ایصال ثواب ہی مقصود ہے تو یہ پیسے کسی محتاج کردے دو اس کے کام بھی آئیں گے اور مرنے والے کا بھی فائدہ ہوگا۔ الغرض ! اس قسم کی رسومات باطلہ مسلمانوں میں کچھ یہود کے راستے سے آئی ہیں اور کچھ ہنود کے راستے سے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں صراط مستقیم سے ہٹاکر باطل راستوں پر ڈال دیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مذموم ارادے کی نشاندہی فرما کر اہل اسلام کو آگاہ کردیا ہے اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی طرف جانا چاہتے ہیں یا خواہشات پرستوں کے پیچھے۔ جہنم اور جنات کی باڑھ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے 1 ؎ ترمذی ص 367 ومسلم ص 378 و بخاری ص 069/82 (فیاض) کہ لوگوں کی خواہشات کی طرف بڑی رغبت ہوتی ہے اور فرمایا حفت النار بالشھواب جہنم کی باڑھ خواہشات ہی سے لگائی ہے۔ نفسانی خواہشات سے مراد آج کل کی آزادی ، فحاشی ، عریانی ، زنا ، جوا ، شراب نوشی ، بدمعاشی ، راگ رنگ اور ناچ گانے ہیں ، ہرناقص الایمان آدمی کی خواہش انہی چیزوں میں جاکر اٹکتی ہے۔ لوگ بڑی رغبت کے ساتھ اس طرف جاتے ہیں مگر جب خواہشات کی اس باڑھ کو عبور کرتے ہیں تو آگے جہنم ہے جس میں جاگرتے ہیں۔ اسی لیے حضور نے فرمایا کہ خواہشات جہنم کی باڑھ ہیں۔ دوسری طرف جنت کی باڑھ عبادت ، تقویٰ ، نیکی ، ایمان ، تزکیہ ، قوانین کی پابندی ، حلال و حرام کی تمیز اور اومراو نواہی کی پابندی سے موسوم ہے۔ جو شخص جنت میں جانے کا خواہش مند ہے اسے یہ مشکل گھاٹیاں عبور کرنا ہونگی۔ جب وہ اس معیارپر پورا اترے گا تو آگے جنت اس کا استقبال کرے گی وہ کامیاب وکامران ہوگا۔ راہ اعتدال فرمایا اگرچہ خواہشات کے پیروکار تمہیں راہ راست سے دور ہٹانا چاہتے ہیں۔ مگر یاد رکھو ! یرید اللہ ان یخفف عنکم اللہ تعالیٰ تم سے تخفیف کرنا چاہتا ہے۔ وہ تمہاری خواہشات کو مکمل طور پر دبانا نہیں چاہتا بلکہ انہیں جائز حد تک پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اگر خواہشات کو بالکل مٹادیا جائے تو انسلاخ ہوجائے گا ، رمبانیت پیدا ہوگی۔ جو گی پنا ہوگا ج فطرت انسانی کے خلاف ہے۔ اللہ نے نکاح کی اجازت دے کر تم پر بعض پابندیاں عائد کردیں کہ ان کے اندر رہ کر خواہشات کو پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا طریقہ کار اختیار کرنے کی ترغیب دی جس کے ذریعے بہیمیت کی اصلاح کی جاسکے اور انسان میں اعتدال پیدا ہو۔ تو اللہ نے فرمایا کہ تم پر صرف تخفیف کی گئی ہے۔ خواہشات کو مکمل طور پر مٹانا مقصود نہیں۔ جائز طریقے سے انہیں بھی پورا کرو۔ حلال حرام کی پابندی کرو۔ اس سے انسان ترقی کرتا ہے۔ انار کی ہمیشہ انسانی تنزل کا باعث ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کے احکام کے تابع رہ کر اپنی ضروریات کی تکمیل کرو ۔ فرمایا وخلق الانسان ضعیفاً جسمانی طور پر انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی کمزوری کو ملحوظ رکھ کر اسے خواہشات سے مکمل دست برداری کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لیے جائز صورتیں وضع کردی گئی ہیں تاکہ وہ اپنے طبع تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اس دنیا میں بھی خوش وخرم زندگی بسر کرے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوجائے۔ بہرحال اللہ نے نکاح کی حلت و حرمت کے بعد اس کی حکمت کی طرف بھی اشارہ فرمادیا ہے۔
Top