Al-Qurtubi - Al-Kahf : 37
قَالَ لَهٗ صَاحِبُهٗ وَ هُوَ یُحَاوِرُهٗۤ اَكَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَكَ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ سَوّٰىكَ رَجُلًاؕ
قَالَ : کہا لَهٗ : اس سے صَاحِبُهٗ : اس کا ساتھی وَهُوَ : اور وہ يُحَاوِرُهٗٓ : اس سے باتیں کر رہا تھا اَكَفَرْتَ : کیا تو کفر کرتا ہے بِالَّذِيْ : اس کے ساتھ جس نے خَلَقَكَ : تجھے پیدا کیا مِنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر سَوّٰىكَ : تجھ پورا بنایا رَجُلًا : مرد
تو اس کا دوست جو اس سے گفتگو کر رہا تھا کہنے لگا کہ کیا تم اس (خدا) سے کفر کرتے ہو جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے پھر تمہیں پورا مرد بنایا
آیت نمب 37 تا 38 قولہ تعالیٰ : قال لہ صاحبہ یعنی اس کے ساتھی یہوذا یا تملیخا نے کہا : یہ اس کے نام میں اختلاف ہونے کی وجہ سے ہے۔ اکفرت بالذی خلقک من تراب ثم من لطفۃ ثم سوک رجلا یعنی اس نے اسے نصیحت کی اور اس کے لئے وضاحت کی کہ ان چیزوں میں سے جن کا اس نے اعتراف کیا ہوا ہے یہ وہ ہیں جن کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا کہ یہ اعادہ کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ ہیں۔ اور سوک رجلا یعنی اس نے تجھے معتدل قدوقامت والا، معتدل مخلوق، اور صحیح الاعضاء مرد بنایا ہے۔ لکنا ھو اللہ ربی اسی طرح اسے ابو عبد الرحمن سلمی اور ابو العالیہ نے پڑھا ہے اور کسائی سے روایت کیا گیا ہے لکن ھو اللہ بمعنی لکن الامر ھو اللہ ربی (لیکن معاملہ یہ ہے وہ اللہ ہی میرا رب ہے) ۔ پس لکن کا اسم میں مضمر ہے۔ اور باقیوں نے لکنا الف کو ثابت رکھ کر پڑھا ہے۔ کسائی نے کہا ہے : اس میں تقدیم و تاخیر ہے، تقدیر عبارت ہے لکن اللہ ھو ربی انا، (لیکن اللہ وہی میرا رب ہے) تو اس میں أنا سے کثرت استعمال اور تخفیف کیلئے ہمزہ حذف کردیا گیا اور دو نونوں میں سے ایک کو دوسری میں ادغام کردیا۔ اور أنا کے الف کو حالت وصل میں حذف کردیا گیا اور حالت وقف میں ثابت رکھا گیا۔ اور نحاس نے کہا ہے : کسائی، فراء اور مازنی کا مذہب یہ ہے کہ یہ اصل میں لکن أنا ہے پس ہمزہ کی حرکت لکن کی نون کو دے دی گئی اور ہمزرہ کو حذف کردیا گیا اور نون کو نون میں ادغام کردیا گیا پس وقف اس پر ہے لکنا اور یہ الف حرکت کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ اور ابو عبید نے کہا ہے : اصل میں لکن أنا ہے، پس الف کو حذف کردیا گیا اور دو نونیں مل گئیں اس لئے اسے تشدید کے ساتھ پڑھا گیا۔ اور کسائی نے ہمیں یہ شعر بھی بیان کیا ہے : لھنک من عبسیۃ لوسیۃ علی ھنوات کاذب من یقولھا ارادہ یہ کیا : للہ انک (لوسیمۃ) ، پس للہ سے دو لاموں میں سے ایک کو ساقط کردیا اور انک سے الف کو حذف کردیا۔ اور ایک دوسرے نے کہا ہے اور اس نے اسے اصل کے مطابق ذکر کیا ہے : وترمیننی بالطرف ای أنت مذنب وتقلیننی لکن ایاک لا اقلی ای لکن أنا۔ اور ابو حاتم نے کہا ہے اور انہوں نے عاصم سے روایت کیا ہے : لکنا ھو اللہ ربی اور گمان کیا ہے کہ یہ لحن (غلطی) ہے، یعنی درج کلام میں الف کو ثابت رکھنا۔ زجاج نے کہا ہے : درج کلام میں لکنا ھو اللہ ربی میں الف کو ثابت رکھنا جید اور عمدہ ہے، کیونکہ کبھی انا سے الف کو حذف کردیا جاتا ہے پس وہ اسے بطور عوض لائے ہیں۔ فرمایا : اور حضرت ابی کی قرأت میں لکن أنا ھو اللہ ربی ہے۔ اور ابن عامر اور مسیلی نے نافع اور رویس سے اور انہوں نے یعقوب سے لکنا حالت وقف اور حالت وصل دونوں میں ثبات الف کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور شاعر کا قول ہے : أنا سیف العشیرۃ فاعرفونی حمیدا قد تذریت السناما اور اعشی نے کہا ہے : فکیف أنا و انتحال القوانی بعد المشیب کفی ذاک عارا اور حالت وقف میں الف کا ثابت رکھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ھو اللہ ربی، ھو ضمیر قصہ اور شان اور امر ہے، جیسا کہ قول باری تعالیٰ ہے : فاذا ھی۔۔۔۔۔۔ کفروا (الانبیاء : 97) اور قول باری تعالیٰ ہے : قل ھو اللہ احد۔ (الاخلاص) (ان میں ھی اور ھو ضمیر قصہ و شان ہیں) ولا اشرک بربی احد اس کا مفہوم اس پر دلیل ہے کہ دوسرا بھائی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اشتراک کرتا تھا اور کسی اور کی عبادت کرتا تھا۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے اس سے یہ ارادہ کیا ہو کہ میں غن اور فقر کو نہیں دیکھتا مگر اسی کی طرف سے، اور میں یہ جانتا ہوں کہ اگر وہ کسی دنیا دار کی دنیا کو سلب کرنا چاہے تو وہ اس پر قادر ہے اور وہی ہے جس نے مجھے فقر و افلاس دیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس نے یہ ارادہ کیا ہو کہ تیرے دوبارہ زندہ کئے جانے کے انکار کا انجام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر قدرت نہیں رکھتا، اور یہ رب سبحانہ و تعالیٰ کو عاجز قرار دیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالیٰ کو عاجز قرار دیا تو اس نے اسے مخلوق کے مشابہ قرار دیا، تو یہی شرک کرنا ہے۔
Top