Al-Qurtubi - Al-Kahf : 62
فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتٰىهُ اٰتِنَا غَدَآءَنَا١٘ لَقَدْ لَقِیْنَا مِنْ سَفَرِنَا هٰذَا نَصَبًا
فَلَمَّا : پھر جب جَاوَزَا : وہ آگے چلے قَالَ : اس نے کہا لِفَتٰىهُ : اپنے شاگرد کو اٰتِنَا : ہمارے پاس لاؤ غَدَآءَنَا : ہمارا صبح کا کھانا لَقَدْ لَقِيْنَا : البتہ ہم نے پائی مِنْ : سے سَفَرِنَا : اپنا سفر هٰذَا : اس نَصَبًا : تکلیف
جب آگے چلے تو (موسی نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لئے کھانا لاؤ اس سفر سے ہم کو بہت تکان ہوگئی ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتنا غدآء نا۔ اس میں ایک مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ سفر میں زادراہ ساتھ لینا، یہ جاہل صوفیاء پر رد ہے جو بیابانوں اور میدان میں بغیر زاد راہ کے جاتے ہیں یہ گمان کرتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السللام کے نبی تھے اور اہل زمین میں سے اس کے کلیم تھے۔ انہوں نے اپنے رب کی معرفت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کے باوجود زادراہ ساتھ لیا۔ صحیح بخاری میں ہے (1) یمن کے کچھ لوگ حج کرتے تھے اور زادراہ ساتھ نہیں لے جاتے تھے، اور کہتے تھے : ہم توکل کرنے والے ہیں۔ پھر جب حرم میں پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرتے تو اللہ تعالیٰ وتزودوا کا ارشاد نازل فرمایا، یہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زادراہ میں اختلاف ہے کہ وہ کیا تھا ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : وہ زنبیل میں نمکین مچھلی تھی، صبح و شام وہ اس سے کھاتے تھے جب وہ دریا کے ساحل پر چٹان تک پہنچ گئے تو نوجوان نے ٹوکری کو رکھ دیا، مچھلی پر دریا کے چھینٹے پڑے تو اس نے ٹوکری میں حرکت کی، ٹوکری الٹی ہوگئی اور مچھلی سرنگ بنا کر چلی گئی۔ نوجوان حضرت موسیٰ علیہ السللام سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول گیا۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ مچھلی حضرت خضر علیہ اللسلام کی جگہ کی دلیل تھی کیونکہ حدیث میں ارشاد ہوا تھا : اپنے ساتھ ایک ٹوکری میں مچھلی اٹھائو جہاں وہ تم سے گم ہوجائے وہ وہاں ہوگا۔ اس بنا پر مچھلی کے علاوہ کوئی زادراہ ہوگا۔ یہ ہمارے شیخ ابوالعباس نے ذکر کیا ہے اور اس کو اختیار کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ( 2): میرے باپ نے کہا میں نے ابوالفضل جوہری کو اپنے وعظ میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مناجات کے لیے گئئے تو وہ چالیس دن رہے اور انہیں کھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی جب وہ انسانوں کی طرف چلے تو انہیں دن کے وقت بھوک محسوس ہوئی۔ نصباً کا معنی تھکن ہے۔ النصب کا معنی تھکن اور مشقت ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے یہاں مراد بھوک ہے۔ اس میں دلیل ہے کہ جو انسان کو تکلیف اور مرض ہو تو اس کو بتانا جائز ہے، یہ مقام رضا کے منافی نہیں ہے اور نہ قضا کو تسلیم کرنے کے منافی ہے، لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب اکتاہٹ اور ناراضگی کی بناء پر نہ ہو۔ وما انسنیہ الا الشیطن ان اذکرہ ان اور فعل مصدر کی تاویل میں ہیں۔ یہ انسنیہ کی ضمیر سے بدل اشتمال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے، یہ اسم ضمیر سے ظاہر بدل ہے، یعنی ما انسانی ذکرہ الا الشیطان، اور حضرت عبداللہ کے مصحف میں وما انسانیہ أن اذکرہ الا الشیطان ہجے۔ یہ یوشع نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول پر عذر پیش کرنے کے لیے کہا جو انہوں نے کہا تھا کہ میں تجھ سے بات نہیں کروں گا مگر یہ کہ تم مجھے بتائو جہاں تجھ سے مچھلی جدا ہوگئی تھی میں نے تجھے کوئی بڑی تکلیف نہیں دی۔ اس قول کی وجہ سے یوشع نے معذرت خواہانہ کلام کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واتخذ سبیلہ فی البحر عجبا یہ بھی احتمال کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یوشع نے کہا ہو یعنی مچھلی نے اپنا راستہ بنا لیا لوگوں کے لیے تعجب والی بات ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خبر کی تکمیل سے ہے، پھر تعجب کو علیحدہ اپنی طرف سے بیان کیا ہو کہ اس امر پر تعجب ہے۔ تعجب اس لیے ہے کہ مچھلی مر چکی تھی اور اس کی بائیں جانب کھائی گئی تھی پھر اس کے بعد زندہ ہوگئی تھی۔ ابو الشجاع نے کہا : طبری کی کتاب میں، میں نے اس کو دیکھا اتیت بہ (اسے لایا ا گیا) ۔ وہ مچھلی کی ایک طرف تھی اور ایک آنکھ تھی اور دوسری طرف میں کچھ بھی نہیں تھا۔ ابن عطیہ نے کہا : میں نے اس کو دیکھا جس جانب کچھ نہیں تھا۔ اس پر باریک پردہ تھا جس کے نیچے کوئی کانٹا نہیں تھا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ واتخذ سبیلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں : اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق خبر دی کہ اس نے مچھلی کے دریا میں راستہ بنانے پر تعجب کیا یا مچھی کے متعلق خبر دی کہ اس نے لوگوں کے تعجب کے لیے راستہ بنایا۔ بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے قصص میں مروی ہے کو وہ مچھلی زندہ ہوگئی تھی کیونکہ اسے چشمہ کا پانی لگا تھا جسے عین الحیاۃ کہا جاتا ہے، وہ قانی جس چیز کو لگتا ہے وہ زنجہ ہوجاتی ہے۔ ” التفسیر “ میں ہے کہ علا امت یہ تھی کہ مچھلی زندہ ہوگئی تھی۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سفر سے تھک کر چٹان کے پاس سستانے کے لیے گئے تو اس کے قریب آب حیات تھا وہ پانی مچھلی کو لگا تو وہ زندہ ہوگئی (1) ۔ ترمذی نے اپنی حدیث میں کہا سفیان نے کہا لوگوں کا خیال ہے کہ اس چٹان کے پاس آبِ حیات کا چشمہ تھا وہ کسی چیز کو نہیں لگتا مگر وہ زندہ ہوجاتی ہے۔ فرمایا : اس مچھلی سے کھایا گیا تھا، جب اس پر پانی کے قطرے پڑے تو زندہ ہوگئی۔ صاحب کتاب العروس نے ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آبِ حیات سے وضو کیا تو آپ کی داڑھی سے ایک قطرہ مچھلی پر گرا تو وہ زندہ ہوگئی۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشتا اد ہے : ذلک ما کنا نبع یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نوجوان کو مچھلی اور اس کے گم ہونے کے متعلق بتایا کہ وہ جگہ تو تھی جس کو طلب کر رہے تھے وہ شخص جس کے لیے ہم آئے ہیں وہ وہاں ہے۔ پھر وہ دونوں اپنے قدموں کے نشان دیکھتے ہوئے آئے تاکہ راستہ بھول نہ جائیں۔ بخاری میں ہے (2): ان دونوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو دریا کے درمیان سبز جائے نماز پر کپڑا لپیٹ کر سویا ہوا پایا انہوں نے چادر کی طرف قدموں کے نیچے اور ایک طرف سر کے نیچے کی ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر سلام کیا تو انہوں نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا : یہ تمہاری زمین کا اسلام ہے ؟ تو کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : میں موسیٰ ہوں۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا : حضرت موسیٰ بنی اسرائیل ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ہاں حضرت خضر (علیہ السلام) نے پوچھا : کیا کام ہے ؟ موسیٰ نے کہا : میں اس لیے آیا ہوں تاکہ آپ مجھے وہ علم سکھائیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ ثعلبی نے کتاب (العرائس) میں کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور نوجون نے حضرت خضر (علیہ السلام) کو پانی کی سطح پر سبز جائے نماز پر سویا ہوا پایا وہ سبز کپڑا اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر سلام کیا تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا : یہ ہماری زمین کا سلام کہاں ہے ؟ پھر اپنا سر اٹھایا اور سیدھے بیٹھ گئے اور کہا : اے بنی اسرائیل کے نبی ! وعلیک السلام۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضرعلیہ السلام سے کہا : تجھے میرے متعلق کیسے خبر ہوئی ؟ اور تجھے کس نے بتایا کہ ہے میں بننی اسرائیل کا نبی ہوں ؟ حضرت خضرعلیہ السلام نے کہا : جس نے آپ کو میرے متعلق بتیا ہے اور میری طرف جس نے تمہاری راہنمائی کی ہے۔ پھر کہا : اے موسیٰ تجھے تو ببنی اسرائیل میں مشغولیت تھی۔ حضرت موسیٰ نے کہا : مریے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ میں آپ کی پیروی کروں اور اور آپ سے وہ علمم سیکھوں جو آپ کو اس نے سکھایا ہے۔ پھر دونوں باتیں کرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ ایک پرندہ آیا اس نے اپنی چونچ میں پانی اٹھایا۔ آگے حدیث ذکر کی جیسا ا کہ آگے آئے گی (1) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہیفوجدا عبداً من عبادنآ۔ العبد سے مراد جمہور کے قول پر حضرت خضر (علیہ السلام) ہیں۔ اور احادیث کا مقتضا بھی یہی ہے۔ انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے اس نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی حضرت خضر نہیں تھے بلکہ کوئی دوسرا عالم تھا، یہ قول قشیری نے حکایت کیا ہے۔ فرمایا : ایک قوم نے کہا : وہ عبد صالح تھا۔ صحیح یہ ہے کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے، اس کے متعلق نبی کریم ﷺ سے خبر مروی ہے۔ مجاہد نے کہا : حضرت خضر (علیہ السلام) کو خضر اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جب نماز پڑھتے تھے تو ان کا ارد گرد کا علاقہ سر سبز ہوجاتا تھا۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے (2) فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : خضر (علیہ السلام) کو خضر اس لیے کہا جا اتا ہے کہ وہ سفیدزمین پر بیٹھتے تھے تو اس کے نیچے سبز ہو کر لہلہانے لگتی تھی “۔ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔ حدیث میں الفروۃ کا لفظ آیا ا ہے جس کا معنی سطح زمین سے ہے، یہ خطابی وغیرہ کا قول ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) نبی ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ عبد صالح تھے، نبی نہیں تھے۔ آیت ان کی نبوت کی گواہی دیتی ہے کیونکہ ان کے افعال کے راز وحی سے معلوم ہو سکتے ہیں، کیونکہ انسان نہ سیکھتا ہے اور نہ ہی اتباع کرتا ہے مگر اس کی جو اس سے بلند مرتبہ ہوتا ہے۔ اور یہ جائز نہیں کہ نبی سے وہ بلند مرتبہ ہو جو نبی نہیں ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ فرشتہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیاوہ ان سے علم باطن حاصل کریں جو اسے حاصل ہے۔ پہلا قول صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اتینۃ رحمۃ من عندنا اس آیت میں رحمت سے مراد نبوت ہے۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد نعمت ہے۔ و علمنہ من لدنا علما۔ یعنی ہم نے اسے اپنی جناب سے علم غیب سکھایا۔ ابن عطیہ نے کہا : حضرت خضرعلیہ السلام کا علم، علم معرفت تھا جو ان کی طرف وحی کیا گیا تھا، ان کے افعال کو احکام کے ظواہر کا رنگ نہیں دیا جاتا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا علم، علم احکام اور علم فتویٰ لوگوں کے ظاہر اقوال اور افعال کے متعلق تھا (3) ۔
Top