Al-Qurtubi - Yaseen : 69
وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهٗ١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّ قُرْاٰنٌ مُّبِیْنٌۙ
وَمَا عَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے نہیں سکاھیا اس کو الشِّعْرَ : شعر وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور نہیں شایان لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنْ : نہیں هُوَ : وہ (یہ) اِلَّا : مگر ذِكْرٌ : نصیحت وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ : اور قرآن واضح
اور ہم نے ان (پیغمبر) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایان ہے یہ تو محض نصیحت اور صاف صاف قرآن (پراز حکمت) ہے
اس آیت میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے حال کی خبردی اور کفار کے قول کا رد کیا ہے کہ آپ ﷺ شاعر ہیں اور قرآن شعر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وما علمنہ الشعر وما یتبغی لہ ‘ اسی طرح رسول اللہ ﷺ شعر نہیں کہتے تھے اور نہ موزوں کلام کیا کرتے تھے تھے جب آپ کوئی مثال بیان کرنے کے لئے کوئی مصرعہ کہنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس نے کے وزن کو توڑ دیتے آپ صرف معانی کی حفاظت کا اہتمام کرتے تھے اس کی مثال یہ ہے کہ ایک روز آپ ﷺ نے (3) طرقہ کا شعر پڑھا : ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا ویاتیک من لم تزودہ بالاخبار (4) زمانہ تیرے لئے وہ چیز ظاہر کر دے گا جس سے تونا واقف تھا اور تیرے لئے وہ خبریں لے آئے گا جس کو تو نے زادراہ نہ دیا۔ ایک روز آپ ﷺ نے یہ شعر پڑھا : الم تریانی کلما جئت طارقا وجدت بھا و ان لم تطیب طیبا (5) ایک روز آپ نے یہ شعر پڑھا : اتجعل نھبی و نھب العبید بین الاقرع و عیینہ (6) نبی کریم ﷺ نے شاید ہی کبھی صحیح شعر پڑھا ہے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ کا شعر پڑھا : یبیت یجا فی جنبہ ‘ عن فراشہ اذا استثقلت بالمشرکین المضاجمع (1) اس کا پہلو بستر سے الگ تھلگ رات گزارتا ہے جب کہ بستر مشرکین سے بوجھل ہوجاتے ہیں۔ حضرت حسن بن ابی الحسن نے کہا نبی کریم ﷺ نے کہا : کفی بالاسلام والشیب للمرء نا ھیا (2) اسلام اور بڑھاپا انسان کو خبردار کرنے کے لئے کافی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ شاعر نے تو کہا ہے : ہریرہ ودع ان تجھزت غادیا کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا حضرت ابوبکر یا حضرت عمر نے عرض کی : میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ ‘ خلیل بن احمد سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ کے ہاں شعر سب سے مرغوب کلام تھا لیکن آپ ﷺ شعر کہتے نہیں تھے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ کبھی کبھی صحیح وزن سے کلام کرنا اس امر کو ثابت نہیں کرتا کہ آپ ﷺ شعر جانتے تھے اس طرح آپ نثر میں سے ایسا کلام کرتے تھے جو موزوں ہوتا جس طرح یوم حنین اور دوسرے مواقع پر فرمایا۔ ھل انت الا اصبع دمیت و فی سبیل اللہ مالقیب (3) تو محض ایک انگلی ججو خون آلود ہوئی تو نے اللہ کی راہ میں دشمن سے ملاقات نہیں کی۔ اور آپ ﷺ کا یہ کہنا : انا النبی لا کذب انا اب عبدالمطلب (4) میں نبی ہوں کوئی جھوٹ نہیں میں ابن عبدالمطلب ہوں۔ آپ قرآن کی آیات اور ہر کلام میں اس طرح کا انداز اپناتے نہ وہ شعر ہوتا اور نہ ہی اس کے معنی میں ہوتا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لن تنا لوا البر حتی تنفقو مما تحبون) آل عمران (92: اللہ تعالیٰ کا فرمان : نصر من اللہ و فتح قریب۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : و جفان کالجواب و قدور رسیت) سبا : (13 اس کے علاوہ کئی اور آیات ہیں۔ ابن عربی نے ان میں سے آیات کا ذکر کیا ہے ان پر گفتگو کی اور وزن سے خارج کیا کہا : ابو الحسن اخفش نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد انا النبی لا کذب کے بارے میں کہا : یہ شعر نہیں خلیل نے کتاب ” العین “ میں کہا : جو سجع دو جزئوں میں ائے وہ شعر نہیں ہوتا ان سے یہ روایت کیا گیا ہے کہ یہ منسوک الجرجز (1) میں سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ منھوک الرجز میں سے نہیں ہوتا مگر جب لا کذب اور عبدالمطلب کی باء پر وقف کیا جائے کسی کو یہ معلوم نہیں نبی کریم ﷺ نے کیسے کیا۔ ابن عربی نے کہا : غالب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے لاکذب کی باء کو مرفوع کہا اور عبدالمطلب کی باء کو اضافت کی وجہ سے مکسور پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : بعض نے کہا روایت اعراجب کے ساتھ ہیق جب روایت اعراب کے ساتھ ہو تو وہ شعر نہیں ہوگا کیونکہ وہ جب پہلے بیت کی باء کو فتحہ دیں یا ضمہ دیں یا تنوین دیں اور دوسرے مصرے کی باء کو کسرہ دیں تو وہ شعر کے وزن سے نکل جائے گا۔ بعض نے کہا : یہ وزن شعر کا نہیں یہ بڑے لوگوں کا مکابرہ ہے کیونکہ عربوں کے اشعار میں اس وزن پر خلیل اور دوسرے علماء نے روایت کیسے ہیں جہاں تک نبی کریم ﷺ کا یہ قول ہے ھل انت الاصبع دمیت (2) ایک یہ کیا گیا ہے کہ یہ بحر سریع میں سے ہے یہ اس وقت ہوگا جب تو دمیت کی تاء کو کسرہ دے اگر اسے ساکن پڑھا جائے تو کسی صورت میں بھی شعر نہیں ہوگا کیونکہ اس حقیقت پر دونوں کلمے فعول کا وزن ہوتا ہے جب کہ فعول کا کوئی دخل نہیں شاید نبی کریم ﷺ نے اسے تاء ساکنہ یا تاء متحرکہ کی اتباع کے بغیر کہا ہو۔ انفعال کی صورت میں اعتماد اس پر ہوگا کہ اسے شعر تسلیم کرلیا جائے اور اعتراض ساقط ہوجاتا ہے اس پر پھر بھی لازم نہیں آتا کہ نبی کریم ﷺ شعر کا علم رکھتے تھے اور نہ یہ لازم اتا ہے کہ آپ شاعر تھے بیت نزر کی شکل اختیار کرنا اور رجز وغیرہ کے دو قافیوں کا پانا اس امر کو ثابت نہیں کرتا کہ اس کا قائل شعر کو جانتا ہے۔ اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسے شاعر نہیں کہتے جس طرح کوئی آدمی ایک دفعہ کپڑا سی لے تو اسے خیاط نہیں کہتے ابو اسحاق زجاج نے کہا کہ وہ علمنہ الشعر کا معنی ہے کہ ہم نے اسے شاعر نہیں بنایا یہ اس کے مانع نہیں کہ آپ ﷺ کو شاعر کہیں۔ نحاس نے کہا : اس بارے میں جو گفتگو کی گئی ہے یہ اس میں سے بہترین گفتگو ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے یہ خبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعر کی تعلیم نہیں دی مگر اس کی خبر نہیں دی کہ آپ شعر نہ کہیں یہی کلام کا ظاہر معنی ہے اس میں ایک واضح قول کیا گیا ہے قول کرنے والے نے یہ گمان کیا گیا کہ یہ اہل لغت کا اجماع ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء نے کہا ہے : جس نے کوئی موزوں کلام کیا جس کے ساتھ وہ شعر کا قصد نہیں کرتا تھا تو وہ شعر نہیں ہوتا وہ شعر کے موافق ہوتا ہے ‘ یہ واضح قول ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے جس چیز کی نفی کی ہے وہ شعر اس کے اضاف قوافی کے علم کی نفی ہے اور اس کے ساتھ متصف ہونے کی نفی کی ہے۔ سرور دو عالم ﷺ اس کے ساتھ متصف نہ تھے کیا تم دیکھتے نہیں کہ قریش آپس میں مشورہ کرتے تھے کہ موسم حج کے موقع پر جب عرب ان کے پاس ائیں گے تو وہ انہیں کیا کہیں گے ؟ بعض نے کہا : ہم کہیں گے وہ شاعر ہے ‘ ان میں سے بعض ذہین لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! عرب تم کو جھٹلا دیں گے کیونکہ وہ شعر کی اصناف کو خوب سمجھتے ہیں اللہ کی قسم ! ان کا کلام تو شعروں میں سے کسی کے بھی مشابہ نہیں اور نہ ہی ان کا قول شعر ہے۔ حضرت انیس جو حضرت ابوذر کے بھائی تھے کہا : تحقیق میں نے ان کے کلام کو اصناف پر پیش کیا تو یہ ثابت نہیں ہوتا تھا کہ وہ شعر ہے ‘ اسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت انیس عربوں کے عمدہ شاعر تھے۔ اسی طرح عتبی بن ربیعہ نے جب رسول اللہ ﷺ سے گفتگو کی تو کہا : اللہ کی قسم ! وہ شعر نہیں ‘ وہ کہانت نہیں ‘ وہ جادو نہیں جس کی وضاحت سوہ فصلت میں انشاء اللہ آئے گی اس کے علاوہ بھی عرب کے فصحاء اور بلغاء نے یہی کہا ہے۔ زبان پر جو کلام مزوں جاری ہوتا ہے اسے شعر نہیں کہتے اس موزوں کلام کو شعر سمار کیا جاتا ہے جو شعر کے وزن پر ہو اور شعر کا قصد بھی کیا جائے کوئی کہنے والا کہتا ہے : ایک بزرگ نے ہمیں بیان کیا ینادی یا صاحب الکسائی۔ اے شعر شمار نہیں کیا جاتا۔ ایک آدمی اپنی مرض میں یوں ندا کیا کرتا تھا : اذھبو ابی الی الطبیب وقولو قداکتوی یہ کوئی شعر نہیں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ ابن قاسم نے ام مالک سے روایت نقل کی ہے کہ ان سے شعر کہنے کے بارے میں پوچھا گیا فرمایا : زیادہ شعر نہ کہا کرو اس کا عیب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وما علمنہ الشعروما ینبغی لہ ‘ کہا : مجھے یہ خبری پہنچی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعرمی کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے پاس شعراء کو جمع کرو اور ان سے شعر کے بارے میں پوچھو کیا ان کے ہاں شعر کی پہچان باقی ہے ؟ حضرت ابو موسیٰ نے لبید کے حاضر کیا کہا : اس نے انہیں جمع کیا اور ان سے پوچھا انہوں نے کہا : ہم شعر پہچانتے ہیں اور ہم شعر کہتے ہیں انہوں نے لبید سے سوال کیا تو لبید نے کہا : جب سے میں نے اللہ تعالیٰ کے کلام : الم۔ ذلک الکتب لا ریب فیہ سنا میں نے شعر نہیں کہا۔ ابی عربی نے کہا : یہ آیت شعر کا عیب نہیں جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان : وما کنت تتلوا من قلبہ من کتب ولا تخطہ ‘ بیمینک) عنکبوت (48: کتاب کے عیب میں سے نہیں ہے جب امیت خط کے عیب میں سے نہیں اسی طرح نبی کریم ﷺ سے شعر کی نفی شعر کا عیب نہیں۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ مامون نے ابو علی منقرمی سے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ تو امی ہے تو شعر صحیح نہیں کہہ سکتا اور تو غلط کرجاتا ہے۔ اس نے کہا : اے امیر المومنین ! جہاں تک غلطی کا تعلق ہے بعض اوقات سبت لسانی سے ایسا ہوجاتا ہے جہاں تک امی ہونے اور شعر کو تور دینے کا تعلق ہے تو رسول اللہ ﷺ بھی تو نہیں لکھتے تھے اور شعر درست نہیں پڑھتے تھے تو مامون نے کہا : میں نے تجھ سے تین عیبوں کے بارے میں پوچھا تھا تو نے چوتھے کا اضافہ کردیا ہے وہ جہالت ہے اے جاہل ! جہاں تک نبی کریم ﷺ میں اس وصف کا تعلق ہے وہ فضیلت ہے جب کہ تجھ میں اور تیرے جیسے دوسرے افراد میں نقص ہے ‘ نبی کریم ﷺ کو اس سے روکا گیا تھا تاکہ آپ ﷺ سے ایک تہمت کو ختم کیا جائے شعر اور کتاب میں کسی عیب کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ مسئلہ نمبر -4 شعر کہنا آپ کے لئے مناسب نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے نبی کریم ﷺ کی علامت میں سے ایک علامت بنایا ہے تاکہ جن کی طرف آپ ﷺ کو معبوث کیا گیا ہے انہیں اشتباہ نہ ہو تو اس سے یہ کمان پیدا نہ ہو کہ آپ قرآن پر اس لئے قوی تھے کیونکہ آپ کو شعر کہنے کی قوت حاصل ہے ملحد کو اس بنا پر اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں کہ قرآن حکیم اور رسول اللہ ﷺ کے کلام میں وزن اتفاقا پایا جا رہا ہے کیونکہ جس کا وزن شعر کے وزن کے موافق ہے جب کہ شعر کا قصد نہیں کیا تو وہ شعر نہیں ہوتا تو عام لوگوں میں سے جو بھی موزوں کلام کرتا وہ شعر ہوتا ہے جب کہ لوگ اسے شاعر نہیں کہتے ‘ جس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے زجاج نے کہا : اس کا معنی ہے کسی کا شعر دہرانا اور اپنی جانب سے شعر کہنا آپ ﷺ کے لئے آسان نہیں رسول اللہ ﷺ جو تم پر تلاوت کرتے ہیں وہ ذکر اور قران حکیم ہے۔ حیا سے مراد دل کا زندہ ہے یہ قتادہ کا قول ہے۔ ضحاک نے کہا : حیا سے مراد دانشمند ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے تاکہ آپ ﷺ اسے ڈرائیں جو اللہ تعالیٰ کے علم میں مومن ہے۔ تعبیر اس صورت میں ہوگی جب تاء کے ساتھ قرأت ہو اور خطاب نبی کریم ﷺ کو ہو۔ باقی قراء نے اسے یاء کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں فعل اللہ تعالیٰ کی ذات کے کی طرف لوٹے گا یا فعل نبی کریم ﷺ یا قرآن حکیم کی طرف منسوب ہوگا۔ ابن سمیقع سے لینذر مروی ہے۔ و یحق القول علی الکفرین۔ یعنی کافروں پر قرآن کے ذریعے حجت ثابت ہوچکی ہے۔
Top