Al-Qurtubi - At-Talaaq : 4
وَ الّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ١ؕ وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ اَمْرِهٖ یُسْرًا
وَ الّٰٓئِیْ يَئِسْنَ : اور وہ عورتیں جو مایوس ہوچکی ہوں مِنَ الْمَحِيْضِ : حیض سے مِنْ نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں میں سے اِنِ ارْتَبْتُمْ : اگر شک ہو تم کو فَعِدَّتُهُنَّ : تو ان کی عدت ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ : تین مہینے ہے وَ الّٰٓئِیْ لَمْ : اور وہ عورتیں ، نہیں يَحِضْنَ : جنہیں ابھی حیض آیا ہو۔ جو حائضہ ہوئی ہوں وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ : اور حمل والیاں اَجَلُهُنَّ : ان کی عدت اَنْ : کہ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ : وہ رکھ دیں اپنا حمل وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰهَ : اور جو ڈرے گا اللہ سے يَجْعَلْ لَّهٗ : وہ کردے گا اس کے لیے مِنْ اَمْرِهٖ : اس کے کام میں يُسْرًا : آسانی
اور تمہاری (مطلقہ) عورتیں جو حیض سے ناامید ہوچکی ہوں اگر تم کو (انکی عدت کے بارے میں) شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے۔ اور جن کو ابھی حیض نہیں آنے لگا (انکی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (یعنی بچہ جننے) تک ہے۔ اور جو خدا سے ڈرے گا خدا اس کام میں سہولت کر دے گا
اس میں سات مسائل ہیں : جن کو حیض کا خون نہیں آتا ان کی عدت مسئلہ نمبر 1 ۔ واتی یئس من المحیض من نسائکم جب طلاق اور رجعت کا امر ان عورتوں کے بارے میں واضح فرما دیا جن کو حیض آتا ہے تو انہوں نے حیض والی عورتوں کی عدت کو پہچان لیا اس میں ان عورتوں کی عدت کو بیان کیا جو خون نہیں دیکھتیں۔ ابو عثمان عمر بن سالم نے کہا : جب سورة بقرہ میں ان عورتوں کی عدت کا حکم نازل ہوا جن کو طلاق دی گئی اور جن کا خاوند فوت ہوگیا تھا تو حضرت ابی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! کچھ لوگ کہتے ہیں، عورتوں میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں کچھ ذکر نہیں ہوا، وہ چھوٹی عمر کی اور حاملہ عورتیں ہیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی : وائی یئس۔ مقاتل نے کہا : جب اللہ تعالیٰ کے فرمان والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ : 228) کا ذکر ہوا تو خلاد بن نعمان نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اس عورت کی عدت کیا ہے جس کو حیض نہیں آتا ؟ اس عورت کی عدت کیا ہے جس کا حیض آنا منقطع ہوچکا ہو اور حاملہ کی عدت کیا ہے ؟ تو یہ آیت واتی یئس من المحیض من نسائکم نازل ہوئی یعنی جو عورتیں حیض کے آنے سے مایوس ہوگئیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت معاذ بن جبل نے ایسی بوڑھی عورت کی عدت کے بارے میں پوچھا جو حیض سے مایوس ہوچکی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مجاہد نے کہا : یہ آیت مستحاضہ کے بارے میں وارد ہوئی جو نہیں جانتی کہ یہ حیض کا خون ہے یا بیماری کا خون ہے (1) ۔ ارتیاب کا معنی مسئلہ نمبر 2 ۔ ان ارتبتم یعنی تمہیں شک ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمہیں یقین ہو۔ یہ اضداد میں سے ہے۔ وہ (ارتیاب) شک و یقین ہو جس طرح ظن ہوتا ہے۔ طبری کا اختیار ہے کہ معنی یہ ہوا اگر تمہیں شک ہو کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے بارے کیا حکم ہے (2) ۔ زجاج نے کہا : اگر تم اس کے حیض میں شک کرو جبکہ اس کا حیض ختم ہوچکا ہے اور وہ ان عورتوں میں سے ہے جن کو حیض آتا ہے۔ قشیری نے کہا : اس میں غوروفکر کی گنجائش ہے کیونکہ جب ہم شک کریں گے کیا اس کی عمر مایوسی کو پہنچ چکی ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اس کی عدت تین ماہ ہے۔ ایک قول کے مطابق مایوسی کی عمر میں معتبر دنیا میں عورت کی عادت کی سب سے لمبی عدت ہے۔ ایک قول ہے : اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا عمومی معمول ہے۔ مجاہد نے کہا : خطاب دعوت نکاح دینے والوں کو ہے یعنی اگر تمہیں علم نہ ہو کہ مایوس عورت اور جسے حیض نہیں آتا اس کی عدت کتنی ہے تو اس کی عدت یہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے اگر تمہیں شک ہو کہ یہ خون جو ظاہر ہوا ہے وہ بڑھاپے کی وجہ سے ہے، معروف حیض کا ہے یا استحاضہ کا ہے تو عدت تین ماہ ہوگی۔ عکرمہ اور قتادہ نے کہا : مراد وہ عورت ہے جس کا حیض معین دنوں میں نہیں آتا کبھی مہینے کے شروع میں آتا ہے اور کبھی کئی مہینوں میں ایک دفعہ آتا ہے (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سورت کے اول حصہ سے متعلق ہے۔ معنی ہے تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اگر تمہیں عدت کے ختم ہونے میں شک ہو۔ اس بارے میں جو قول کئے گئے ہیں ان میں سے یہ سب سے صحیح ہے۔ شک والی عورت کو کتنا رکنا چاہئے مسئلہ نمبر 3 وہ عورت جس کو شک ہو وہ عقد نکاح نہ کرے یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کو شک سے پاک کرلے۔ وہ عورت عدت سے خارج نہ ہوگی مگر اس شک کے ختم ہونے کے بعد ہی خارج ہوگی۔ مرتابہ عورت کے بارے میں ایک قول یہ کیا گیا ہے : جس کا حیض آنا بند ہوگیا ہو وہ نہیں جانتی کہ وہ خون آنا کب ختم ہوا تھا وہ ایک سال اس وقت سے انتظار کرے گی جس وقت سے اس کے خاوند نے اسے طلاق دی تھی۔ سال میں سے نو ماہ استبراء رحم کے ہوں گے اور تین ماہ عدت کے ہوں گے۔ اگر خاوند نے اسے طلاق دی تو اسے ایک حیض آیا یا دو حیض آنے پر ناامیدی کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا تو وہ نو ماہ انتظار کرے گی پھر تین ماہ اس وقت سے انتظار کرے گی جس دن وہ حیض سے پاک ہوئی تھی۔ پھر وہ نکاح کے خواہش مند افراد کے لئے حلال ہوجائے گی۔ امام شافعی نے یہ قول عراق میں کیا۔ اس قول پر قیاس کرتے ہوئے ایسی عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ استبراء رحم کے لئے نو ماہ کے بعد چار ماہ دس دن اور لونڈی نو ماہ کے بعد دو ماہ پانچ دن عدت گزارے گی۔ امام شافعی سے یہ قول بھی مروی ہے : اس کی عدت اقراء ہی ہوں گے یہاں تک کہ سن ایاس کو پہنچ جائے : یہ امام نخعی، ثوری اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ ابو عبید نے اہل عراق سے اسے حکایت کیا ہے۔ اگر عورت جو ان ہو تو یہ چوتھا مسئلہ ہے جس کا ذکر آ رہا ہے۔ جو ان عورت کو حیض کا خون نہ آنے کی صورت میں حکم مسئلہ نمبر 4 ۔ اس کے بارے میں انتظار کیا جائے گا۔ یہ حاملہ ہے یا حاملہ نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہوجائے تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی۔ اگر حمل ظاہر نہ ہو تو امام مالک نے کہا : وہ عورت جس کو حیض نہ آتا ہو جبکہ وہ جو ان ہو اس کی عدت ایک سال ہے، یہی قول امام احمد اور اسحاق کا ہے۔ انہوں نے یہ حضرت عمر بن خطاب اور دوسروں سے روایت کیا ہے۔ اہل عراق کی رائے ہے : اس کی عدت تین حیض ہے جبکہ زندگی میں اسے ایک دفعہ خون آیا ہو اگرچہ وہ بیس سال رکی رہے مگر جب وہ بڑھاپے میں اس عمر تک جا پہنچے جس میں وہ حیض سے مایوس ہوجائے تو مایوسی کے وقت کے بعد اس کی عدت تین ماہ ہوگی۔ ثعلبی نے کہا : یہ امام شافعی کے مذہب سے زیادہ صحیح ہے۔ اس پر جمہور علماء کا نقطہ نظر ہے۔ یہی قول حضرت ابن مسعود ؓ اور آپ کے اصحاب سے مروی ہے۔ ال کیا نے کہا : یہی حق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آئسہ کی عدت تین ماہ بنائی ہے جبکہ جس کے بارے میں شک ہو وہ آئسہ نہیں۔ مرض کی وجہ سے حیض نہ آنے کی صورت میں حکم مسئلہ نمبر 5 ۔ جس کا حیض مرض کی وجہ سے متاخر ہوگیا ہو تو امام مالک، ابن قاسم اور عبد اللہ بن اصبغ نے کہا : وہ نو ماہ عدت گزارے گی پھر تین ماہ عدت گزارے گی۔ اشہب نے کہا : وہ دودھ پلانے والی کی طرح ہے۔ وہ دودھ چھڑانے کے بعد حیض کی صورت میں یا سال بھر عدت گزارے گی۔ حبان بن منقذ نے اپنی بیوی کو طلاق دی جبکہ وہ دودھ پلا رہی تھی۔ وہ ایک سال تک رکی رہی۔ اسے دودھ پلانے کی وجہ سے حیض نہ آتا، پھر حضرت حبان بیمار ہوئے تو انہیں خوف ہوا کہ وہ اس کی وارث بن جائے گی تو حضرت حبان نے جھگڑا حضرت عثمان کی خدمت میں پیش کیا جبکہ حضرت عثمان غنی ؓ کے پاس حضرت علی شیر خدا اور حضرت زید موجود تھے۔ دونوں نے کہا : ہماری رائے ہے کہ وہ وارث بنے گی کیونکہ وہ حیض سے مایوس نہیں اور نہ ہی بچی ہے۔ حضرت حبان فوت ہوگئے تو ان کی بیوی ان کی وارث بنی اور پھر وفات کی عدت گزاری۔ مرض و دودھ کے علاوہ حیض نہ آنے کی صورت میں حکم مسئلہ نمبر 6 ۔ اگر مرض یا دودھ پلانے کے علاوہ کسی اور سبب سے متاخر ہوا وہ ایک سال انتظار کرے گی جس میں حیض نہ ہو، پہلے نو ماہ پھر تین ماہ جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے۔ اگر اسے حمل کا شک نہ ہو تو وہ حلال ہوجائے گی۔ اگر اسے حمل کا شک ہو تو وہ چار سال، پانچ سال یا سات سال انتظار کرے گی جس طرح ہمارے علماء کی مختلف روایات ہیں۔ ان میں سے مشہور پانچ سال ہیں۔ اگر وہ ان کو گزارے تو وہ عورت حلال ہوجائے گی۔ اشہب نے کہا : وہ کبھی بھی حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ اس سے شک منقطع ہوجائے (1) ۔ ابن عربی نے کہا : یہ قول صحیح ہے کیونکہ جب یہ جائز ہے کہ بچہ پانچ سال تک ماں کے پیٹ میں رہے تو یہ بھی جائز ہے کہ وہ دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ رہے۔ امام مالک سے اسی کی مثل مروی ہے (٭) ۔ مستحاضہ کی عدت مسئلہ نمبر 7 ۔ وہ عورت جس کا حیض استحاضہ کی وجہ سے مجہول ہوگیا اس کے بارے میں تین قول ہیں۔ ابن مسیب نے کہا : وہ ایک سال عدت گزارے گی، یہ لیث کا قول ہے۔ لیث نے کہا : مطلقہ کی عدت اور جس کا خاوند فوت ہوجائے جب وہ مستحاضہ ہو تو اس عورت کی عدت ایک سال ہے۔ یہ ہمارے علماء کا مشہور قول ہے خواہ اسے اپنے استحاضہ کے خون سے حیض کے خون کا علم ہو، اسے امتیاز ہو یا نہ ہو۔ امام مالک کے نزدیک اس کی عدت تمام صورتوں میں ایک سال ہے۔ نو ماہ رحم کو پاک کرنے کے اور تین ماہ عدت کے۔ امام شافعی کے اقوال میں سے ایک قول یہ ہے : اس کی عدت تین ماہ ہے، یہ تابعین اور متاخرین کی ایک جماعت کا قول ہے۔ ابن عربی نے کہا : میرے نزدیک یہ صحیح ہے۔ ابو عمر نے کہا : مستحاضہ عورت کا خون ختم ہوجاتا ہو، اس کو حیض کے آنے اور اس کے ختم ہونے کا علم ہو تو وہ تین حیض عدت گزارے گی۔ یہ نظر و فکرکے اعتبار سے صحیح ہے اور قیاس و اثر میں سب سے مضبوط ہے۔ واتی لم یحضن مراد چھوٹی عمر کی بیوی ہے۔ ایسی بیویوں کی عدت تین ماہ ہے۔ خبر مضمر ہے کیونکہ انہیں عادۃً حیض نہیں آتا اس لئے ان کی عدت مہینے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے احکام کو عادات پر جاری کیا ہے (2) ، وہ مہینوں کے اعتبار سے عدت گزارے گی۔ جب وہ خون دیکھے ایسے عرصہ میں جس میں عورتیں حیض کا احتمال رکھتی ہیں تو اصل پائے جانے کی وجہ سے عدت حیض کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ جب اصل پایا جائے تو بدل کے لئے حکم باقی نہیں رہے گا جس طرح عمر رسیدہ عورت کو جبض حیض کی صورت میں عدت گزار رہی تھی، پھر اس کا خون ختم ہوگیا تو عدت مہینوں کی طرف لوٹ جائے گی۔ اس پر اجماع ہے۔ واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن اس میں دو مسئلے ہیں : مطلقہ حاملہ اور متوفیٰ عنہازوجہا حاملہ کی عدت مسئلہ نمبر 1 ۔ واولات الاحمال اجلھن ان کی عدت وضع حمل (بچہ کی پیدائش) ہے، اگرچہ یہ حکم مطلقہ میں ظاہر ہے کیونکہ اس کلام کا عطف اسی پر ہے اور کلام اسی طرف راجع ہے تاہم جس کا خاوند فوت ہوجائے اس میں بھی حکم اسی طرح ہے کیونکہ آیت عام ہے اور حضرت سبیعہ کی حدیث بھی اسی کے موافق ہے اس بارے میں گفتگو سورة بقرہ آیت 174 میں گزر چکی ہے۔ وضع حمل سے مراد کیا ولد ہے یا جما خون اور لوتھڑا بھی مسئلہ نمبر 2 ۔ جب عورت کا وضع حمل ہوجائے وہ جما ہوا خون ہو یا گوشت کا لوتھڑا ہو، وہ عورت حلال ہوجائے گی (یعنی وہ عقد نکاح کرسکتی ہے) امام شافعی اور امام ابوحنیفہ نے کہا : وہ حلال نہیں ہوگی مگر جب وہ رحم سے نکلنے والی چیز ولد ہو (1) ۔ اس بارے میں گفتگو سورة بقرہ اور سورة رعد میں گزر چکی ہے۔ الحمد للہ۔ ومن یتق اللہ یجعل لہ من امرہ یسرا۔ ضحاک نے کہا : جو طلاق سنت میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا، اللہ تعالیٰ رجوع میں اس کے لئے آسانی پیدا فرما دے گا ( 2) ۔ مقاتل نے کہا : جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے اجتناب میں ڈرتا رہا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی طاعت کی توفیق دے کر معاملہ کو آسان کر دے گا۔ ذلک امر اللہ یعنی جو احکام ذکر کئے گئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا امر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف نازل کئے ہیں اور تمہارے لئے واضح کئے ہیں۔ ومن یتق اللہ جو اس کی طاعت بجالاتا ہے یکفر عنہ سیاتہ وہ ایک نماز سے دوسری نماز اور ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کی غلطیوں کو معاف فرما دیتا ہے۔ ویعظم لہ اجرا۔ اور آخرت میں اس کو عظیم اجر سے نوازے گا۔
Top