Tafseer-e-Saadi - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اس کو اپنے حق میں برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے ان میں سے جس شخص نے گناہ میں جتنا حصہ لیا اس کے لئے اتنا وبال ہے اور جن نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے اس کو بڑا عذاب ہوگا
آیت (11 چونکہ گزشتہ سطور میں اللہ تعالیٰ نے زنا کے بہتان کی برائی کا عمومی ذکر فرمایا وہ گویا اس بہتان کا مقدمہ ہے جو دنیا کی افضل ترین خاتون ‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنھما پر لگایا گیا۔ یہ آیات کریمہ مشہور قصہء افک کے بارے میں نازل ہوئیں۔ بہتان کا یہ واقعہ تمام صحاح ‘ سنن اور اور مسانید میں صحت کے ساتھ منقول ہے۔ اس تمام قصہ کا حاصل یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کسی غزوہ میں تھے ‘ آپ کے ساتھ آپ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ بنت ابوبکر صدیق ؓ عنھما بھی تھیں۔ ان کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ‘ وہ اس کی تلاش میں رک گئیں ‘ حضرت عائشہ ؓ عنھما کے ساربان آپ کے اونٹ اور ہودج سمیت لشکر کے ساتھ کوچ کر گئے اور ان کو ہودج میں حضرت عائشہ ؓ عنھما کی عدم موجودگی کا علم نہ ہوا اور لشکر کوچ کر گیا۔ حضرت عائشہ ؓ عنھما ہار کی تلاش کے بعد واپس اس جگہ پہنچیں تو لشکر موجود نہ تھا۔ حضرت عائشہ ؓ عنھما کو معلوم تھا کہ جب لشکر والے انہیں مودج میں مفقود پائیں گے تو واپس لوٹیں گے۔ پس انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا اور صفوان بن معطل سلمی ؓ عنھما افاضل صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انہوں نے لشکر کے آخری لوگوں کے ساتھ رات کے آخری حصے میں پڑاؤ کیا اور سوتے رہ گئے تھے۔ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ عنھما کو دیکھا تو پہچان لیا حضرت صفوان ؓ عنھما نے اپنی سواری بٹھائی اور حضرت عائشہ ؓ عنھما کو اس پر سوار کرایا۔ انہوں نے حضرت عائشہ ؓ عنھما سے کوئی بات کی نہ حضرت عائشہ ؓ عنھما نے ان سے کوئی بات کی ‘ پھر وہ حضرت عائشہ ؓ عنھما کی سواری کی مہار پکڑے دوپہر کے وقت جبکہ لشکر بھی پڑاؤ کے لیے اتر اچکا تھا ‘ پڑاؤ میں پہنچ گئے۔ پس جب منافقیر میں سے ‘ جو اس سفر میں حضور ﷺ کے ہمراہ تھے ‘ کسی نے حضرت صفوان ؓ عنھما کو اس حالت میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ عنھما کے ساتھ آتے دیکھا تو اس نے بہتان طرازی کی خوب اشاعت کی ‘ بات پھیل گئی ‘ زبانیں ایک دوسرے سے اخذ کرتی چلی گئیں یہاں تک کہ بض مخلص مومن بھی دھوکہ کھاگئے اور وہ بھی بات پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ پر طویل مدت تک وحی ناز ( علیہ السلام) نہ ہوئی بہت مدت کے بعد حضرت عائشہ ؓ عنھما کو منافقین کے بہتان کا علم ہوا اس پر انہیں شدید صدمہ پہنچا ‘ چناچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عائشہ ؓ عنھما کی براءت میں یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو نصیحت فرمائی اور ان کو مفید وصیتوں سے سرفراز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ان الذین جاء و بال افک ) ” وہ لوگ جو نہایت قبیح جھوٹ گھڑ کر لائے ہیں۔ “ اس سے مراد وہ بہتان ہے جو ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ عنھما پر لگایا گیا۔ (عصبۃ منکم) اے مومنو ! بہتان طرازی کرنے والا گروہ تمہاری ہی طرف منسوب ہے۔ ان میں کچھ لوگ سچے مومن بھی ہیں مگر منافقین کے بہتان کو پھیلانے سے دھوکہ کھا گئے۔ (لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم ) ” تم اس کو اپنے لیے برا مت سمجھو ‘ بلکہ وہ تمہارے بہتر ہے۔ “ کیونکہ یہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ عنھما کی براءت ان کی پاک دامنی اور ان کی تعظیم و توقیر کے اعلان کو متضمن ہے حتیٰ کہ یہ عمومی مدح تمام ازواج مطہرات کو شامل ہے۔ نیز اس میں ان آیات کا بھی بیان ہے بندے جن کے محتاج ہیں اور جن پر قیامت تک عمل ہوتا رہے گا۔ پس یہ سب کچھ بہت بڑی بھلائی ہے۔ اگر بہتان طراز منافقین نے بہتان نہ لگایا ہوتا تو یہ خیر عظیم حاصل نہ ہوتی اور جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لیے سبب پیدا کردیتا ہے ‘ اسی لیے اس کا خطاب تمام مومنین کے لیے عام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اہل ایمان کا ایک دوسرے پر عیب لگانا خود اپنے آپ پر عیب لگانے کے مترادف ہے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان آپس میں محبت و مودت ‘ ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور باہم نرمی کا رویہ رکھنے اور اپنے مصالح میں اکٹھے ہونے کے لحاظ سے جسد و احد کی مانند ہیں اور ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی مانند ہے دونوں ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہیں۔ پس جیسے وہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس کی عزت و آبرو پر عیب نہ لگائے اسی طرح اس کو یہ بھی ناپسند ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی عزت و ناموس پر عیب نہ لگائے جو خود اس کے نفس کی مانند ہے۔ اگر بندہ اس مقام پر نہ پہنچے تو یہ اس کے ایمان کا نقص اور اس میں خیر خواہی کا نہ ہونا ہے۔ (لکل امری منھم ما اکتسب من الاثم) ” ان میں سے ہر آدمی کے لیے وہ گناہ ہے جو اس نے کمایا۔ “ یہ ان لوگوں کے لیے وعید ہے جنہوں نے حضرت عائشہ طاہرہ ؓ عنھما پر بہتان لگایا تھا اور انہیں عنقریب ان کی بہتان طرازی کی سزا دی جائے گی ‘ چناچہ ان میں سے کچھ لوگوں پر نبی اکرم ﷺ نے حد جاری فرمائی (والذی تولی کبرہ ) ” جس نے اس کے بڑے حصے کو سر انجام دیا ہے۔ “ یعنی وہ شخص جس نے بہتان کے اس واقعے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس سے مراد خبیث منافق ‘ عبداللہ بن ابی ابن سلول (لعنہ اللہ) (لعنہ اللہ) ( لہ عذاب عظیم) اس کے لیے بڑا عذاب ہے۔ “ اس سے مراد ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہمیشہ رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کی کہ جب وہ اس قسم کی بات سنیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے ‘ چناچہ فررمایا : ( لو لآ اذسمعتموہ ظن المومنون والمومنت بانفسھم خیر) ” کیوں نہیں ‘ جب سنا تم نے اس ( بہتان) کو گمان کیا مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنی جانوں کے ساتھ بھلائی کا۔ “ یعنی مومنین ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہیں اور وہ ہے اس بہتان سے محفوظ ہونا جو ان منافقین نے گھڑا ہے۔ ان کا ایمان ‘ ان کو اس بہتان طرازی سے روکتا ہے۔ (وقالو) “ اور وہ کہتے یعنی اس حسن ظن کی بنا پر : (سبحنک) اے اللہ ! تو برائی سے پاک اور منزہ ہے تو اپنے محبوب بندوں کو اس قسم کے مبیح امور میں مبتلا نہیں کرتا۔ (ھذا افک مبین ) ” یہ تو کھلا جھوٹ اور بہتان ہے۔ “ اس کا جھوٹ اور بہتان ہونا ‘ سب سے واضح اور سب سے بڑی بات ہے۔ بندہ مومن پر واجب ہے کہ جب وہ اپنے مومن بھائی کے بارے میں کوئی ایسی بات سنے تو اپنی زبان سے اس کی براءت کا اظہار اور اس قسم کا بہتان لگانے والے کی تکذیب کرے۔ (لو لا جاؤ علیہ با ربعۃ شھداء) یعنی یہ بہتان طراز اپنے بہتان پر چار عادل اور متعتبر گواہ کیوں نہیں لائے۔ (فاذ لم یا توا بالشھداء فا ولئک عند اللہ ھم الکذبون ) ” پس جب وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے ہاں وہ جھوٹے ہیں۔ اگرچہ انہیں اپنے بارے میں یقین ہی کیوں نہ ہو مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہ جھوٹے ہیں۔ ( کیونکہ انہیوں نے چار گواہ پیش نہیں کئے) اور اللہ تعالیٰ نے چار گواہوں کے بغیر ایسی بات منہ سے نکالنا حرام قرار دے دیا ہے۔ بناء بریں فرمایا : (فاولئک عند اللہ ھم الکذبون) اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : ( فاولئک ھم الکاذبون) ” وہ جھوٹے ہیں “ یہ سب کچھ مسلمان کی عزت و ناموس کی حرمت کی بنا پر ہے۔ شہادت کے پورے نصاب کے بغیر ‘ اس کی عزت و آبرو پر الزام لگانا جائز نہیں۔ ( ولو لا فضل اللہ علیکم و رحمتہ فی الدینا والاخرہ ) ” اور اگر دنیا و آخرت میں ( تمہارے دینی اور دنیاوی امور میں) تم پر اللہ تعالیٰ کا احسان اور اس کی رحمت سایہ کناں نہ ہوتی “ ( لمسکم فی ما افضتم فیہ ) ” تو ضرور پہنچتا تمہیں اس بات کی وجہ سے جس کا چرچا تم نے کیا۔ “ یعنی جس بہتان طرازی میں تم شریک ہوئے ہو (عذاب عظیم) ” بہت بڑا عذاب۔ “ کیونکہ تم اپنی بہتان طرازی کی بنا پر اس عذاب کے مستحق ہوگئے تھے مگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی بےپایاں رحمت تھی کہ اس نے تمہارے لیے توبہ مشروع کی اور عقوبت کو گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بنایا۔ (اذ تلقو نہ بالسنتکم) اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اسے اپنی زبانوں سے نقل درنقل لے رہے تھے اور پھر یہ واقعہ بڑھا چڑھا کر ایک دوسرے کو سنا رہے تھے۔۔۔۔ حالانکہ وہ باطل قول تھا۔ (وتقولون بافواھکم ما لیس لکم بہ علم) ” اور تم اپنے مونہوں سے ایسی بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں علم ہی نہیں تھا) دونوں امور حرام ہیں ‘ یعنی کلام باطل اور بغیر علم کے بات کرنا (و تحسبونہ ھینا) ” اور تم اس بات کو بہت معمولی سمجھ رہے تھے “ اہل ایمان میں سے جس کسی نے اس کا ارتکاب کیا اسی وجہ سے کیا ‘ بعدازاں اس سے توبہ کی اور اس گناہ سے پاک ہوئے (و ھو عند اللہ عظیم) ” حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات ہے۔ “ اس آیت کریمہ میں بعض گناہوں کو معمولی اور حقیر سمجھ کر ان کا ارتکاب کرنے پر سخت زجرو توبیخ ہے۔ بندے کا گناہوں کو ہلکا شمار کرنا اس کو فائدہ نہیں دیتا اور نہ اس سے گناہ کی سزا میں کمی ہی کی جاتی ہے ‘ بلکہ اس طرح گناہ دگنا چوگنا ہوجاتا ہے اور گناہ میں دوبارہ مبتلا ہونا اس کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔ (ولو لا اذ سمعتموہ) یعنی اے مومنو ! جب تم نے بہتان تراشوں کی یہ باتیں سنیں ( قلتم) تو تم نے اس بہتان کا انکار کرتے ہوئے اور اس کے معاملے کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کیوں نہ کہا ؟ (ما یکون لنا ان نتکلم بھذا) اس واضح بہتان طرازی کے ساتھ کلام کرنا ہمارے لیے مناسب ہے نہ ہمارے لائق کیونکہ مومن کا ایمان اسے مبیح کاموں کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ (ھذا بھتان عظیم) ” یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ “ (یعظکم اللہ ان تعودوالمثلہ) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ( روکتا) ہے کہ تم اہل ایمان پر بدکاری کے بہتان جیسے گناہ کا اعادہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے اور اس بارے میں تمہاری خیر خواہی کرتا ہے۔ ہمارے رب کے مواعظ اور نصائح کتنے اچھے ہیں۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم انہیں قبول کریں ان کے سامنے سر تسلیم خم کریں ‘ ان کی پیروی کریں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمارے سامنے واضح کیا۔ (ان اللہ نعما یعظکم بہ) (النساء 58/4” اللہ تمہیں اچھی نصیحت کرتا ہے۔ “ (ان کنتم مومنین) ” اگر تم مومن ہو۔ “ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ ایمان صادق ‘ صاحب ایمان کو محرمات کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ (ویبین اللہ لکم الایت) ” اور اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں بیان کرتا ہے۔ ” جو احکامات ‘ وعظ و نصیحت ‘ زجرو توبیخ ‘ اور ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان آیات کو خوب اچھی طرح واضح کرتا ہے (واللہ علیم) یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم والا ہے۔ (حکیم) اور اس کی حکمت عام ہے ‘ یہ اس کا علم اور اس کی حکمت ہے کہ اس نے اپنے علم میں سے تمہیں علم سکھایا ‘ اگرچہ یہ علم ہر وقت تمہارے اپنے مصالح کی طرف لوٹتا ہے۔ (ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ) ” جو لوگ بےحیائی پھیلانے کے آرز مند رہتے ہیں۔ “ یعنی جو چاہتے ہیں کہ قبیح امور کی اشاعت اور فواحش کا چلن ہو (فی الذین امنوا لھم عذاب الیم ) ” اہل ایمان میں ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ “ یعنی قلب و بدن کو سخت تکلیف دینے والا عذاب اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ دھوکہ کیا ‘ ان کے لیے برا چاہا اور ان کی عزت و ناموس پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کی۔ صرف فواحش کی اشاعت کی خواہش اور دل میں ان کی چاہت کی بنا پر اتنی بڑی وعید سنائی ہے ‘ تو ان امور پر وعید کا کیا حال ہوگا جو اس سے زیادہ بڑے ہیں۔ مثلاً فواحش کا اظہار اور ان کو نقل کرنا ‘ خواہ فواحش صادر ہوں یا صادر نہ ہوں۔ یہ تمام احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے رحمت اور ان کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے۔ جس طرح اس نے ان کی جان و مال کی حفاظت کی اور ان کو ایسے امور کا حکم دیا جو خالص اور باہمی محبت کا تقاضا ہیں ‘ نیز نہیں حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور وہ کچھ ان کے لیے بھی ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ (واللہ یعلم و انتم لا تعلمون ) ” اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ “ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمہیں تعلیم دی اور تم پر وہ سب کچھ واضح کیا جس سے تم لا علم تھے۔ (ولو لا فضل اللہ علیکم ) ” اور اگر تم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا۔ “ جس نے تمہیں ہر جانب سے گھیر رکھا ہے (ورحمتہ و ان اللہ رؤف رحم) ” اور اس کی رحمت اور یہ کہ اللہ بڑا شفیق اور نہایت مہربان ہے۔ “ تو وہ تمہارے سامنے یہ احکام ‘ مواعظ اور جلیل القدر حکمتیں بیان نہ کرتا نیز وہ اس شخص کو ڈھیل اور مہلت بھی نہ دیتا ‘ جو اس کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہے اور یہ اس کا وصف لازم ہے کہ اس نے تمہارے لیے دنیاوی اور اخروی بھلائی کو ترجیح دی جسے تم شمار نہیں کرسکتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس گناہ کے ارتکاب سے منع کیا ہے وہاں عام طور پر دیگر گناہوں کے ارتکاب سے بھی روکا ہے ‘ چناچہ فرمایا : (یا یھا الذین امنو لا تتبعوا خطوت الشیطن) ” اے ایمان والو ! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ “ یعنی اس کے طریقوں اور اس کے وسوسوں کی پیروی نہ کرو۔ ( خطوات الشیطان) ” شیطان کے نقش قدم “ میں وہ تمام گناہ داخل ہیں جو قلب ‘ زبان اور بدن سے متعلق ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے تمہارے سامنے حکم واضح کیا اور وہ شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے ممانعت ہے۔ اور حکمت ممنوع شدہ چیز میں جو شر ہے اس کے بیان کو کہتے ہیں جو اسے ترک کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کا داعی ہے۔ فرمایا : (ومن یتبع خطوت الشیطن فانہ ) ” اور جو پیروی کرتا ہے شیطان کے قدموں کی ‘ تو بیشک وہ “ یعنی شیطان (یامرو بالفحشاء) ” حکم دیتا ہے فحشاء کا۔ “ (فحشاء) سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو ان کی طرف بعض نفوس کے میلان کے باوجود شریعت اور عقل برا سمجھتی ہے۔ (والمنکر) ” اور منکر کا “ اور (منکر) وہ گناہ ہیں جن کا عقل انکار کرتی ہے۔ پس تمام گناہ جو شیطان کے نقوس پا ہیں وہ اس صفت سے باہر نہیں نکلتے ‘ اہس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کو ان گناہوں کے ارتکاب سے روکنا ان پر اس کی نعمت کا فیضان ہے وہ اس کا شکر ادا کریں اور اس کا ذکر کریں کیونکہ یہ ممانعت رذائل اور قبائح کی گندگی سے ان کی حفاظت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ان پر احسان ہے کہ اس نے بندوں کو گناہوں کے ارتکاب سے روکا جس طرح اس نے ان کو زہر قاتل وغیرہ کھانے سے روکا ہے۔ (ولو لا فضل اللہ علیکم و رحمتہ ما زکی منکم من احد ابدا) ” اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی ‘ تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک نہ ہوتا۔ “ یعنی تم میں سے کوئی بھی شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے سے کبھی نہیں بچ سکتا کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر بندوں کو اپنے نقش قد کی پیروی کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور گناہوں کو ان کے سامنے مزین کرتے رہتے ہیں اور نففس کی حالت تو یہ ہے کہ ہمیشہ برائی کی طرف مائل رہتا ہے ‘ بندے کو برائے کے ارتکاب کا حکم دیتا رہتا ہے اور نقص ہر جہت سے بندے پر غالب ہے اور ایمان قوی نہیں ہے اگر بندے کو ان داعیوں کے حوالے کردیا جائے تو کوئی شخض شخص بھی گناہوں اور برائیوں سے بچ کر اور نیکیوں کے اکتساب کے ذریعے سے پاک نہیں ہوسکتا کیونکہ ” تزکیہ “ طہارت اور بڑھاؤ کا متضمن ہے۔ تم میں سے جس کسی نے اپنا تزکیہ کرلیا تو اس کے موجب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی رحمت ہیں۔ نبی مصطفیٰ ( یہ دعا کیا کرتے تھے : ( اللھم رب نفسی تقواھ وزکھا انت خیر من زکاھ اٰنت ولیھا ومولھا ) ” اے اللہ ! میرے نفس کو تقویٰ عطا کر ‘ اسے پاک کر ‘ تو سب سے اچھا پاک کرنے والا ہے۔ تو اس کا والی اور مولا ہے۔ “ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولکن اللہ یزکی من یشاء) ” اور لیکن اللہ پاک کرتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ “ ہے اسی لیے فرمایا (واللہ سمیع علیم) اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ “ (ولا یتل) یعنی قسم نہ اٹھائیں (اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتو اولی القربی والمسکین والمھجرین فی سبیل اللہ ولیعفوا ولیصفحوا) ” جو تم میں سے بزرگی اور کشادگی والے ہیں ‘ رشتے داروں مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے سے اور چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔ “ واقعہ افک میں ملوث ہونے والوں میں مسطح بن اثاثہ ؓ بھی شامل تھے جو ابوبکر صدیق ؓ کے رشتہ دار تھے ‘ وہ اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والے اور انتہائی نادار تھے۔ مسطح بن اثاثہ ؓ کی بہتان طرازی کی وجہ سے ابوبکر صدیق ؓ نے قسم کھالی کہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے ( جو کہ اس سے وہ کیا کرتے تھے) اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قسم سے روکا جو انفاق فی سبیل اللہ کے منقطع کرنے کو متضمن تھی اور انہیں عفو اور درگزر کرنے کی ترغیب دی اور اللہ نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ ان تقصیر کاروں کو بخش دیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو بخش دے گا۔ پس فرمایا : (الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم ) ” کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ “ یعنی جب تم اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ عفو اور درگزر کا معاملہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو اور درگزر کا معاملہ کرے گا۔ جب ابوبکر صدیق ؓ نے یہ آیت کریمہ سنی تو انہوں نے کہا :” کیوں نہیں اللہ کی قسم ! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ “ چناچہ انہوں نے دوبارہ حضرت مسطح ؓ کی مالی مدد شروع کردی۔ (I) یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے اور بندے کی معصیت کی بنا پر یہ مالی مدد ترک نہیں کرنی چاہیے ‘ نیز جرم کا ارتکاب کرنے والے سے خواہ کتنا ہی بڑا جرم سر زد کیوں نہ ہوا ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے عفو اور درگزر کی ترغیب دی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے عفت مآب عورتوں پر بہتان لگانے والوں کو سخت وعید سناتے ہوئے فرمایا : (ان الذین یرمون المحصنت) ” وہ لوگ جو تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر۔ “ یعنی فسق وفجور سے پاک عورتیں (الغفلت المومنت) بیخبر ‘ مومن عورتوں پر۔ “ یعنی جن کے دلوں میں کبھی بدکاری کا خیال بھی نہیں گزرا (لعنوا فی الدنیا والاخرۃ) ” ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے۔ “ اور لعنت صرف کسی بڑے گناہ پر کی جاتی ہے اور لعنت کو موکد اس طرح کیا گیا ہے کہ اس کا دنیا و آخرت میں ان کو مود قرار دیا گیا ہے (ولھم عذاب عظیم) ” اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے۔ “ یہ عذاب عظیم اس لعنت پر مستزاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے دور کیا اور ان پر اپنا غضب نازل فرمایا۔ یہ عذاب عظیم قیامت کے روز ہوگا (یوم تشھد علیھم السنتھم و ایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون) جس (قیامت کے) روز ہر عضو اپنے اعمال کی گواہی دے گا اور وہ ہسی انہیں قوت گویائی عطا کرے گی جس نے ہر چیز کو گویائی بخشی ہے پس بندے سے گناہوں کا انکار ممکن نہ ہوگا۔ یقیناً وہ ہستی جس نے بندوں کے نفوس ہی میں سے گواہ برپا کئے اس نے بندوں کے ساتھ انصاف کیا۔ (یومئذ یوفیھم اللہ دینھم الحق ) ” اس دن اللہ ان کو حق کے مطابق پوری پوری جزا دے گا۔ “ یعنی ان کے اعمال کا بدلہ حق کے ساتھ ہوگا جو عدل و انصاف پر مبنی ہوگا۔ ان کو اپنے اعمال کی پوری پوری جزا ملے گی اور وہ ان اعمال میں سے کوئی چیز مفقود نہ پائیں گے۔ (ویقولون یویلتنا مال ھذا الکتب لا یغادرصغیرۃ و لا کبیرۃ الا احضھا وٰ وٰجدھوا ما عملو حاضرا لا یظلم ربک احد) (الکھف (49/18:” اور پکار اٹھیں گے ہائے ہماری کم بختی ! یہ کیسی کتاب ہے کہ اس نے چھوٹی اور بڑی کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جو اس میں درج نہ ہوئی ہو اور انہیوں نے جو عمل کئے ان سب کو اپنے سامنے موجود پائیں گے اور تیرا رب ذرہ بھر کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ “ اس عظیم مقام پر انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی حق مبین ہے ‘ انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ واضح حق اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے۔ اس کے تمام اوضاف عظیم حق ہیں ‘ اس کے افعال حق ہیں ‘ اس کی عبادت حق ہے ‘ اس سے ملاقات ہونا حق ہے ‘ اس کا وعدہ و وعید اور اسکا حکم دینی و جزائی حق ہے اور اس کے رسول حق ہیں۔ پس حق صرف اللہ تعالیٰ ہی میں منحصر ہے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ حق ہے۔ (الخبیثت لل خبیثین والخبیثون للخبیثت) یعنی تمام ناپاک مردوزن ‘ تمام ناپاک کلمات اور تمام ناپاک افعال نا پاک شخص کے لائق اور اسی کے مناسب حال ‘ اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں اور تمام پاک مردو زن ‘ پاک کلمات اور پاک افعال پاک شخص کے لائق ‘ اسی کے مناسب حال ‘ اسی سے مقرون اور اسی سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ ایک عام اصول ہے اس سے کوئی چیز باہر نہیں۔ اس کا سب سے بڑا اور اہم اطلاق انبیائے کرام پر ہوتا ہے ‘ انبیائے کرام (علیہ السلام) ‘ خاص طور پر اولوالعزم انبیاء ورسل علیھم السلام اور ان میں بھی خاص طور پر سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جو تمام مخلوق میں علی الاطلاق سب سے زیادہ طیب و طاہر ہیں ‘ کے لائق اور مناسب حال صرف طیبات و طاہرات عورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ بنابریں اس بارے میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ میں جرح و قدح خود رسول اللہ ﷺ کی بیوی ہونے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اس قبیح بہتان سے پاک ہیں۔ تب ان کے بارے میں کیسے قبیح بات کہی جاسکتی ہے جبکہ ان کی اتنی بڑی شان ہے ؟ وہ عورتوں میں ” صدیقہ “ کے مرتبے پر فائز ہیں ‘ عورتوں میں سب سے افضل ‘ سب سے زیادہ عالمہ سب سے زیادہ طیبہ و طاہرہ اور رب العالمین کے رسول ﷺ کی محبوبہ ہیں۔ صرف حضرت عائشہ ؓ عنھما تھیں کہ آپ ان کے لحاف میں ہوتے تو بھی آپ پر وحی نازل ہوجاتی دیگر ازواج مطہرات میں سے کسی اور کو یہ فضیلت حاصل نہ تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس طرح تصریح فرمائی کہ کسی باطل پسند کے لیے کسی بات اور کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رکھی ‘ چناچہ فرمایا : (اولئک مبرون مما یقولون ) ” یہ لوگ پاک ہیں ان باتوں سے جو لوگ (ان کی بابت) کہتے ہیں۔ “ اصولا یہ اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف ہے اور تبعا دیگر مومن ‘ پاک دامن اور بھولی بھالی بیخبر عورتوں کی طرف ہے (لھم مغفرۃ ) ” ان کے لیے بخشش ہے۔ “ جو سارے گناہوں پر حاوی ہوگی (ورزق کریم ) ” اور با عزت رزق “ جو جنت میں رب کریم کی طرف سے صادر ہوگا۔
Top