Tafseer-e-Saadi - Yaseen : 77
اَوَ لَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَ : نہیں دیکھا الْاِنْسَانُ : انسان اَنَّا خَلَقْنٰهُ : کہ ہم نے پیدا کیا اس کو مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے فَاِذَا : پھر ناگہاں هُوَ : وہ خَصِيْمٌ : جھگڑالو مُّبِيْنٌ : کھلا
کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا
آیت 77 ان آیت کریمہ میں، منکرین قیامت کے شبہات اور ان کے مکمل، بہترین اور واضح جواب کا ذکر کیا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (اولم یر الانسان) کیا قیامت کا منکر اور اس میں شک کرنے والا انسان اس معاملے پر غور نہیں کرتا جو اسے قیامت کے وقوع کے بارے میں یقین کامل عطا کرے اور وہ معاملہ اس کی تخلیق کی ابتدا ہے (من نطفۃ) ” نطفے سے “ پھر آہستہ آہستہ مختلف مراحل میں منتقل ہوتا ہے حتی کہ بڑا ہو کر جو ان ہوجاتا ہے اور اس کی عقل کا مل اور درست ہوجاتی ہے (فاذا ھو خصیم مبین) ’ دتو یکایک وہ صریح جھگڑا لو بن بیٹھتا ہے۔ “ اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے نطفے سے اس کی تخلیق کی ابتد ا کی۔ اسے ان دو حالتوں کے تفاوت پر غور کرنا چاہیے اور اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ہستی جو اسے عدم سے وجود میں لائی ہے زیادہ قدرت رکھتی ہے کہ اس کے مرنے اور ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جانے کے بعد اسے دوبارہ زندہ کرے۔ (وضرب لنا مثلاً ) ” اور اس نے ہمارے لئے مثال بیان کی۔ “ کسی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس قسم کی مثال بیان کرے اور وہ ہے خالق کی قدرت کا مخلوق کی قدرت کے ساتھ قیاس کرنا، نیز یہ قیاس کرنا کہ جو چیز مخلوق کی قدرت سے بعید ہے وہ خالق کی قدرت سے بھی بعید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا : (قال) یعنی اس انسان نے کہا : (من یحی العظام وھی رمیم) یعنی کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان ہڈیوں کو زندہ کرے گی ؟ یہ استفہام انکاری ہے یعنی کوئی ہستی ایسی نہیں ہے جو ان ہڈیوں کے بوسیدہ اور معدوم ہوجانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کرسکے۔ شبہ اور مثال کا یہی پہلو ہے کہ یہ معاملہ بشر کی قدرت سے بہت بعید ہے۔ یہ قول جو انسان سے صادر ہوا ہے اس کی غفلت پر مبنی ہے، نیز وہ اپنی تخلیق کی ابتدا کو بھول گیا ہے۔ اگر وہ اپنی تخلیق پر غور کرتا کہ کیسے اس کو پیدا کیا گیا جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا تو وہ اعادہ تخلیق کو پاتا اور یہ مثال بیان نہ کرتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اعادہ تخلیق کے محال ہونے کے شبے کا کافی اور شافی جواب دیتے ہوئے فرمایا : (قل یحیھا الذی انشاھا اول مرۃ) ” کہہ دیجیے کہ ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا “ یعنی وہ مجرد اپنے تصور ہی سے کسی شب ہے کے بغیر، یقینی طور پر معلوم کرسکتا ہے کہ وہ ہستی جس نے اسے پہلی مرتبہ وجود بخشا، وہ دوسری مرتبہ اس کے اعادے پر قادر ہے۔ جب تصور کرنے والا تصور کرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے یہ اعادہ تخلیق بہت معمولی نظر آتا ہے۔ (وھوبکل خلق علیھم) ” اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات عالیہ میں سے دوسری دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم اس کی تمام مخلوقات کا، ان کے تمام احوال کا، تمام اوقات میں احاطہ کئے ہوئے ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ مردوں کے اجسا دخا کی میں سے کیا چیز کم ہو رہی ہے اور کیا چیز باقی ہے۔ وہ غائب اور شاہد ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم علم کا اقرار کرلیتا ہے تو اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تو مردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرنے سے زیادہ عظیم اور زیادہ جلیل ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری دلیل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” جب وہ سرسبز درخت سے، جو مکمل طور پر گیلا ہوتا ہے، خشک آگ نکال سکتا ہے، حالانکہ ان دونوں میں سخت تضاد اور تخالف ہے، تو وہ اسی طرح مردوں کو ان کی قبروں سے دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے چوتھی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” یعنی کیا جس ہستی نے آسمانوں اور زمین کی وسعت اور عظمت کے باوجود کو تخلیق فرمایا (آیت) ” وہ ان کو بعینہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ (بلی) ” کیوں نہیں “ وہ ان کو دوبارہ وجود بخشنے پر قادر ہے، کیونکہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسان کی تخلیق سے زیادہ مشکل اور زیادہ بڑی ہے (وھو الخلق العلیم) یہ پانچویں دلیل خاص ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے تمام مخلوقات کو، خواہ پہلے گزر چکی ہوں یا آنے والی، چھوٹی ہوں یا بڑی، سب کی سب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور قدرت کے آثار ہیں۔ جب وہ کسی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کی نافرمانی نہیں کرسکتی۔ مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کرنا اس کی تخلیق کے آثار کا ایک حصہ ہے، سا لئے فرمایا : (آیت) ” بلا شبہ اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے۔ “ (شیاً ) شرط کے سیاق میں نکرہ ہے، اس لئے ہر چیز کو شامل ہے (ان یقول لہ کن فیکون) ” تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہوجا، تو وہ ہوجاتی ہے۔ “ یعنی وہ کس رکاوٹ کے بغیر اسی وقت ہوجاتی ہے۔ (فسبحن الذی بیدہ ملکوت کل شیء) یہ چھٹ دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا مالک ہے۔ عالم علوی اور عالم سفلی کی تمام چیزیں اس کی ملکیت اور اس کے غلام ہیں، وہ اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں، وہ ان کے اندر اپنے احکام کوفی وقدری، احکام شرعی اور احکام جزائی کے ذریعے سے تصرف کرتا ہے۔ ان کی موت کے بعد انہیں دوبارہ زندہ کرے گا تاکہ وہ اپنی ملکیت کامل سے ان پر اپنا حکم جزائی نافذ کرے۔ بنا بریں فرمایا : (والیہ ترجعون) کسی شک و شب ہے کے بغیر، تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، کیونکہ قطعی اور واضح دلائل وبراہین نہایت تواتر کے ساتھ اس پر دلالت کرتے ہیں۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفا اور نور بنایا۔
Top