Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
جَعَلْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں بنایا
اُمَّةً
: امت
وَّسَطًا
: معتدل
لِّتَكُوْنُوْا
: تاکہ تم ہو
شُهَدَآءَ
: گواہ
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
وَيَكُوْنَ
: اور ہو
الرَّسُوْلُ
: رسول
عَلَيْكُمْ
: تم پر
شَهِيْدًا
: گواہ
وَمَا جَعَلْنَا
: اور نہیں مقرر کیا ہم نے
الْقِبْلَةَ
: قبلہ
الَّتِىْ
: وہ کس
كُنْتَ
: آپ تھے
عَلَيْهَآ
: اس پر
اِلَّا
: مگر
لِنَعْلَمَ
: تاکہ ہم معلوم کرلیں
مَنْ
: کون
يَّتَّبِعُ
: پیروی کرتا ہے
الرَّسُوْلَ
: رسول
مِمَّنْ
: اس سے جو
يَّنْقَلِبُ
: پھرجاتا ہے
عَلٰي
: پر
عَقِبَيْهِ
: اپنی ایڑیاں
وَاِنْ
: اور بیشک
كَانَتْ
: یہ تھی
لَكَبِيْرَةً
: بھاری بات
اِلَّا
: مگر
عَلَي
: پر
الَّذِيْنَ
: جنہیں
ھَدَى
: ہدایت دی
اللّٰهُ
: اللہ
وَمَا كَانَ
: اور نہیں
اللّٰهُ
: اللہ
لِيُضِيْعَ
: کہ وہ ضائع کرے
اِيْمَانَكُمْ
: تمہارا ایمان
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
بِالنَّاسِ
: لوگوں کے ساتھ
لَرَءُوْفٌ
: بڑا شفیق
رَّحِيْمٌ
: رحم کرنے والا
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔ اور جس قبلہ پر تم تھے ہم نے اس کو صرف اس لیے ٹھہرایا تھا کہ ہم الگ کردیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھرجانے والے ہیں۔ بیشک یہ بات بھاری ہے مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ ہدایت نصیب کرے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے، اللہ تو لوگوں کے ساتھ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
كَذٰلِكَ کا اشارہ اوپر والے معاملہ کی طرف ہے یعنی جس طرح ہم نے قبلہ کے معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے پیدا کردہ پیچ و خم اور مشرق و مغرب کے چکر سے تمہیں نکال کر صراط مستقیم کی طرف تمہاری رہنمائی کی، اسی طرح ہم نے تم کو یہودیت اور نصرانیت کی پگڈنڈیوں سے بچا کر دین کی بیچ شاہراہ پر قائم رہنے والی امت بنایا تاکہ رسول تم پر اللہ کے دین کی گواہی دیں اور تم خلق خدا پر اللہ کے دین کی گواہی دو۔“ امت وسط ”: وَسَط لفظ وَلَد کی طرح مذکر اور مونث، واحد اور جمع سب کے لیے آتا ہے، اس کے معنی ہیں وہ شے جو دو طرفوں کے درمیان بالکل وسط میں ہو۔ یہیں سے اس کے اندر بہتر ہونے کا مفہوم پیدا ہوگیا اس لیے کہ جو شے دو کناروں کے درمیان ہوگی وہ نقطہ توسط و اعتدال پر ہوگی اور یہ اس کے بہتر ہونے کی ایک فطری دلیل ہے۔ امت مسلمہ کو امت وسط کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ امت ٹھیک ٹھیک دین کی اس بیچ شاہراہ پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خلق کی رہنمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے کھولی ہے اور جو ابتدا سے ہدایت کی اصلی شاہراہ ہے۔ یہود و نصاری اللہ کے نبیوں میں تفریق کر کے اس شاہراہ سے ہٹ گئے اور انہوں نے یہودیت و نصرانیت کی پگ ڈنڈیاں نکال لیں، اسی طرح وہ اصل قبلہ سے منحرف ہو کر مشرق و مغرب کے جھگڑوں میں پڑگئے۔ لیکن یہ امت ان کج پیچ کی راہوں میں بھٹکنے کے بجائے دین کی اصلی راہ پر قائم ہے۔ اس کا کلمہ تفریق کے بجائے وحدت کا کلمہ ہے جس کا حوالہ اوپر ان الفاظ میں گزر چکا ہے قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ (بقرہ : 136) تم کہہ دو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہم پر اتاری گئی اور اس چیز پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور اس چیز پر ایمان لائے جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی جانب سے ملی۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ اسی طرح اس امت نے قبلہ کے معاملہ میں مشرق و مغرب کے جھگڑے میں پڑنے کے بجائے اس قبلہ ابراہیمی کی پیروی کی جو حضرت ابراہیم ؑ کے عہد مبارک سے برابر تمام نبیوں اور رسولوں کا قبلہ رہا۔ چناچہ بیت المقدس کی تعمیر بھی، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے اسی کو قبلہ قرار دے کر ہوئی لیکن یہود نے بر بنائے تعصب اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔ دین کے معاملہ میں امت مسلمہ کی یہی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن میں دوسری جگہ اس امت کو خیر امت (بہترین امت) کہا گیا ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ جو چیز ٹھیک نقطہ اعتدال و توسط پر ہوگی وہ لازما بہترین بھی ہوگی۔ یہ امت چونکہ امت وسط ہے اس وجہ سے یہ خیر امت بھی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود کا دین بہت سخت اور نصاری کا دین بہت نرم ہے۔ اسلام ان دونوں کے درمیان ایک معتدل دین ہے اس وجہ سے اس دین معتدل کی حامل امت کو امت وسط قرار دیا گیا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے یہود و نصاری دونوں کا دین ایک ہی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی امت پر تورات کی پابندی اسی طرح واجب قرار دی تھی جس طرح اس کی پابندی یہود پر اجب تھی۔ اگر انہوں نے اس سے الگ کوئی تعلیم دی ہے تو اس کی نوعیت تورات سے جدا کسی مستقل تعلیم کی نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت صرف حکمت دین اور روح دین کی ہے۔ یہود اپنی دنیا پرستی کی وجہ سے دین کی اصل حقیقتوں سے ہٹ کر صرف رسوم وقیود کے غلام اور الفاظ و کلمات کے پرستار بن کے رہ گئے تھے، حضرت مسیح ؑ نے ان کو حکمت دین سے آشنا کیا۔ انجیل تورات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ تورات ہی کے رموز و حقائق کی طرف ایک حکیمانہ توجہ دلاتی ہے۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (تا کہ تم لوگوں پر اللہ کے دین کے گواہ بنو اور رسول تمہارے اوپر اللہ کے دین کا گواہ بنے)۔ یہ امت وسط کے فریضہ منصبی اور اس کے قیام کی ضرورت کا بیان ہے۔ اوپر کی تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو رہنمائی کے منصب پر مامور کیا تھا انہوں نے خدا کے میثاق کو توڑ دیا، اس کی شریعت میں تبدیلیاں کردیں، اس کی صراط مستقیم گم کردی، اس کے مقرر کیے ہوئے قبلہ سے منحرف ہوگئے اور جن شہادتوں کے وہ امین بنائے گئے تھے ان کو انہوں نے چھپایا، ایسے حالات میں عالم انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت اگر کوئی ہوسکتی تھی تو یہی ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی امت برپا کرے جو خدا کی سیدھی راہ پر قائم ہو، جو اللہ کے رسول کے ذریعہ سے اصل دین کی حامل بنے اور پھر رہتی دنیا تک لوگوں کے سامنے اس دین کی گواہی دے۔“ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو ”سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ شہادت علی الناس کا جو فرض آنحضرت ﷺ پر بحیثیت رسول کے تھا آپ کے بعد آپ کی امت کی طرف منتقل ہوا اور اب یہ اس امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دور، ہر ملک اور ہر زبان میں لوگوں پر اللہ کے دین کی گواہی دے، اگر وہ اس فرض میں کوتاہی کرے گا تو اس دنیا کی گمراہیوں کے نتائج بھگتنے میں دوسروں کے ساتھ وہ بھی برابر کی شریک ہوگی۔ ہمارے ارباب تاویل نے عام طور پر اس شہادت کو آخرت سے متعلق مانا ہے کہ یہ امت گمراہوں کے خلاف انبیاء کی تائید میں آخرت میں شہادت دے گی کہ ان گمراہوں کو اللہ کا دین پہنچ چکا تھا، اس کے باوجود انہوں نے گمراہی کی یہ روش اختیار کی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس تخصیص و تحدید کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس امت کو شہداء اللہ ہونے کا یہ مرتبہ آخرت میں بھی حاصل ہوگا لیکن آخرت میں یہ مرتبہ اسی وجہ سے حاصل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس کو اس منصب پر سرفراز فرمایا ہے۔ جو امت اس دنیا میں دین حق کی گواہ ہے، ظاہر ہے کہ وہی آخرت میں بھی اس پوزیشن میں ہوگی کہ گواہی دے کہ لوگوں کو اللہ کا دین ٹھیک ٹھیک پہنچایا یا نہیں۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ : جعل کا لفظ وسیع معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی جائز ٹھہرانے اور مشروع قرار دینے کے بھی ہیں مثلاً اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ (مائدہ :103) اور خدا نے بحیرہ، سائبہ اور وسیلہ کو مشروع نہیں کیا۔ عَلِمَ یَعْلَمُ کے معنی جس طرح جان لینے اور معین کرلینے کے ہیں اسی طرح اس کے معنی ممیز کردینے، چھانٹ کر الگ کردینے اور ظاہر کردینے کے بھی ہیں۔ مثلاً وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ (محمد :31) اور ہم تمہیں جانچیں گے یہاں تک کہ ظاہر کردیں تمہارے اندر سے ان لوگوں کو جو جہاد کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ (ال عمران : 142) کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے اندر سے ان لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جنہوں نے جہاد کیا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو تمہیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی تھی تو اس لیے نہیں کہ یہی تمہارا مستقل قبلہ ہے بلکہ یہ اجازت ایک عارضی اور وقتی اجازت تھی اور مقصود اس اجازت سے یہ تھا کہ پھر اس قبلہ کی تبدیلی تمہارے لیے امتحان کی ایک کسوٹی بنے اور اس کے ذریعہ سے یہ ظاہر کردیا جائے کہ تمہارے اندر کتنے آدمی ایسے ہیں جو فی الواقع رسول کے پیرو ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو رسول سے زیادہ اپنی پچھی روایات کے پرستار ہیں اور وہ پھر مڑ کر اپنے قدم دین ہی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب نماز کا حکم ہوا تو آپ نے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔ شروع میں حضور کا طریقہ یہ تھا کہ جن معاملات میں آپ کے سامنے وحی الٰہی کی کوئی واضح رہنمائی نہ ہوتی ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقہ پر عمل کرتے چناچہ قبلہ کے معاملے میں بھی آپ نے یہی کیا۔ جب تک آپ مکہ میں رہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نمازوں کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں سامنے ہوتے لیکن جب آپ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو سمت کے تبدیل ہوجانے کے وجہ سے بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا امکان باقی نہیں رہا۔ قدرتی طور پر خانہ کعبہ سے یہ انقطاع آپ کے قلب مبرک پر شاق گزرا اور آپ کو اس بارے میں وحی الٰہی کا انتظار رہنے لگا۔ لیکن حکمت الٰہی اس بات کی مقتضی ہوئی کہ ابھی کچھ عرصہ تک آپ اور بیت المقدس ہی کی طرف نماز پڑھیں۔ چناچہ ہجرت کے بعد بھی 16، 17 مہینے آپ بیت المقدس ہی کی طرف نمازیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ غزوہ بدر سے کم وبیش دو ماہ پہلے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے عرصہ تک بیت المقدس کے قبلہ پر قائم رکھنے اور پھر اس سے ہٹا کر خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دینے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس طرح اس نے مسلمانوں کو ایک امتحان میں ڈال کر ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کیا ہے تاکہ مدینہ آنے کے بعد جو خاص قسم کے عناصر اہل کتاب میں سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں وہ اس امتحان سے گزر کر یا تو اسلام کی طرف یک سو ہوجائیں یا چھٹ کر ان سے الگ ہوجائیں۔ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۔ یعنی یہ قبلہ کی تبدیلی ہے تو ایک سخت امتحان اس لیے کہ اس طرح کے معاملات میں جن کا تعلق دین سے ہو اور دین کی بھی ایک بنیادی چیز سے، آدمی فطری طور پر جذباتی اور روایت پرست بن جایا کرتا ہے، ان میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی اس کو سخت گراں گزرتی ہے، لیکن دین میں اصلی چیز جس کا وزن ہے وہ خدا اور رسول کی کامل اطاعت اور اخلاص ہے۔ اس وجہ سے ان تعصبات پر جو اخلاص کے لیے حجاب بنے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء وقتاً فوقتاً ضرب لگاتے رہے ہیں۔ انبیاء اور ادیان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی کی آمد پر امتوں کو اس قسم کے امتحانوں سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے، اسی سنت کے تقاضے سے ہر نبی کے زمانے میں دین کے رسوم و ظواہر میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں تاکہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوسکے۔ جو لوگ اپنے قومی اور گروہی تعصبات کی پھندوں میں گرفتار ہوچکتے ہیں ان کا کھوٹ ان امتحانوں سے ظاہر ہوجاتا ہے، وہ خدا اور رسول کی ہدایت اختیار کرنے کے بجائے اپنی روایات پر اڑ جاتے ہیں لیکن جن کے اندر اخلاص کی روح موجود ہوتی ہے وہ اپنے اس اخلاص کے فیض سے اللہ کی ہدایت قبول کرنے کی توفیق پاتے ہیں۔ چناچہ قبلہ کی اس تبدیلی کا رد عمل بھی اسی طرح کا ہوا جو لوگ اپنے پچھلے تعصبات میں لپٹے ہوئے محض کسی وقتی مصلحت کے تحت اسلام کی صفوں میں آ گھسے تھے اس تبدیلی کے بعد وہ پھر پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے برعکس جو لوگ محض اللہ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ اسلام میں آئے تھے ان کے لیے اس تبدیلی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کے نہایت وسیع دروازے کھول دیے۔ ایک اہم سوال کا جواب : یہ بات کہ“ اللہ کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے، وہ تو لوگوں کے معاملہ میں نہایت مہربان ہے ”یہاں ایک نہایت اہم سوال کا جواب ہے جو از خود پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب قبلہ کی تبدیلی خود قرآن کے اپنے بیان کے مطابق بھی ایک سخت امتحان ہے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس قسم کے سخت امتحان میں کیوں ڈالنا پسند فرمایا، جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس امتحان میں ناکام رہ جانے کے سبب سے اپنے ایمان ہی کھو بیٹھیں۔ قرآن نے اس شبہ کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح کے امتحانوں میں اس لیے نہیں ڈالتا کہ لوگ اپنے ایمان ضائع کر بیٹھیں بلکہ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی رافت و رحمت کے مظہر ہیں۔ انہی امتحانوں سے بندوں کی صلاحیتیں نشوونما پاتی ہیں۔ انہی کے ذریعہ سے ان کی وہ قوتیں اور صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں جن کے خزانے قدرت نے ان کے اندر ودیعت کیے ہیں۔ انہی کے ذریعے سے ان کے کھرے اور کھوٹے، ان کے مخلص اور منافق اور ان کے سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے۔ یہ امتحان نہ ہو تو اچھے اور برے، خام اور پختہ، گہر اور پشنیر میں کوئی فرق ہی نہ رہ جائے۔ ہر مدعی کو اس کے دعوے میں سچا ماننا پڑے اور ہر کاذب کی باتوں کی تصدیق کرنی پڑے، یہاں تک کہ آخرت میں بھی کسی کو انعام یا کسی کو سزا دینے کے لیے کوئی حجت و دلیل باقی نہ رہ جائے۔ مزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کارخانہ کائنات کا سارا حسن و جمال اور اس کی ساری حکمت و برکت اللہ تعالیٰ کی اسی سنت ابتلا کے اندر مضمر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بالکل بےحکمت اور بےمصلحت بلکہ کھلنڈرے کا ایک کھیل کے رہ جائے۔ زبان کا یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء میں سے رؤوف اور رحیم کا حوالہ دیا ہے۔ رؤوف رافت سے ہے جس کے اندر دفع شر غالب ہے اور رحیم رحمت سے ہے جس کے اندر اثباتِ خیر کا پہلو نمایاں ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہی دنوں پہلو اللہ تعالیٰ کی اس سنت ابتلاء او امتحان میں ملحوظ ہیں جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے یعنی بندوں کو خرابیوں اور کمزوریوں سے پاک کر کے فضائل و محاسن سے آراستہ کرنا۔ یہاں ان اشارات پر ہم کفایت کرتے ہیں، آگے مختلف مقامات پر یہ سنت اللہ مختلف پہلوؤں سے زیر بحث آئے گی۔ عام طور پر مفسرین نے اس آیت کو اس سیاق میں لیا ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد لوگوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ پہلے ہی قبلہ کے دوران میں وفات پا چکے ان کا کیا بنے گا۔ ان کی نمازیں قبول ہوں گی یا نہیں ؟ یہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک نہ تو اس سوال کے پیدا ہونے کی کوئی وجہ تھی اور نہ اس کے جواب دینے کی ضرورت تھی۔ اصل حقیقت وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔
Top