Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک بیچ کی امت بنایا تکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول تم پر گواہی دینے والا بنے۔ اور جس قبلہ پر تم تھے ہم نے اس کو صرف اس لیے ٹھہرایا تھا کہ ہم الگ کردیں ان لوگوں کو جو رسول کی پیروی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے جو پیٹھ پیچھے پھرجانے والے ہیں۔ بیشک یہ بات بھاری ہے مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ ہدایت نصیب کرے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنا چاہے، اللہ تو لوگوں کے ساتھ بڑا مہربان اور رحیم ہے۔
كَذٰلِكَ کا اشارہ اوپر والے معاملہ کی طرف ہے یعنی جس طرح ہم نے قبلہ کے معاملہ میں یہود و نصاریٰ کے پیدا کردہ پیچ و خم اور مشرق و مغرب کے چکر سے تمہیں نکال کر صراط مستقیم کی طرف تمہاری رہنمائی کی، اسی طرح ہم نے تم کو یہودیت اور نصرانیت کی پگڈنڈیوں سے بچا کر دین کی بیچ شاہراہ پر قائم رہنے والی امت بنایا تاکہ رسول تم پر اللہ کے دین کی گواہی دیں اور تم خلق خدا پر اللہ کے دین کی گواہی دو۔“ امت وسط ”: وَسَط لفظ وَلَد کی طرح مذکر اور مونث، واحد اور جمع سب کے لیے آتا ہے، اس کے معنی ہیں وہ شے جو دو طرفوں کے درمیان بالکل وسط میں ہو۔ یہیں سے اس کے اندر بہتر ہونے کا مفہوم پیدا ہوگیا اس لیے کہ جو شے دو کناروں کے درمیان ہوگی وہ نقطہ توسط و اعتدال پر ہوگی اور یہ اس کے بہتر ہونے کی ایک فطری دلیل ہے۔ امت مسلمہ کو امت وسط کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ امت ٹھیک ٹھیک دین کی اس بیچ شاہراہ پر قائم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خلق کی رہنمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے کھولی ہے اور جو ابتدا سے ہدایت کی اصلی شاہراہ ہے۔ یہود و نصاری اللہ کے نبیوں میں تفریق کر کے اس شاہراہ سے ہٹ گئے اور انہوں نے یہودیت و نصرانیت کی پگ ڈنڈیاں نکال لیں، اسی طرح وہ اصل قبلہ سے منحرف ہو کر مشرق و مغرب کے جھگڑوں میں پڑگئے۔ لیکن یہ امت ان کج پیچ کی راہوں میں بھٹکنے کے بجائے دین کی اصلی راہ پر قائم ہے۔ اس کا کلمہ تفریق کے بجائے وحدت کا کلمہ ہے جس کا حوالہ اوپر ان الفاظ میں گزر چکا ہے قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَمَآ اُنْزِلَ اِلٰٓى اِبْرٰھٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ڮ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ (بقرہ : 136) تم کہہ دو کہ ہم تو اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر جو ہم پر اتاری گئی اور اس چیز پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور اس چیز پر ایمان لائے جو موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی جانب سے ملی۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔ اسی طرح اس امت نے قبلہ کے معاملہ میں مشرق و مغرب کے جھگڑے میں پڑنے کے بجائے اس قبلہ ابراہیمی کی پیروی کی جو حضرت ابراہیم ؑ کے عہد مبارک سے برابر تمام نبیوں اور رسولوں کا قبلہ رہا۔ چناچہ بیت المقدس کی تعمیر بھی، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے اسی کو قبلہ قرار دے کر ہوئی لیکن یہود نے بر بنائے تعصب اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی۔ دین کے معاملہ میں امت مسلمہ کی یہی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن میں دوسری جگہ اس امت کو خیر امت (بہترین امت) کہا گیا ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ جو چیز ٹھیک نقطہ اعتدال و توسط پر ہوگی وہ لازما بہترین بھی ہوگی۔ یہ امت چونکہ امت وسط ہے اس وجہ سے یہ خیر امت بھی ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود کا دین بہت سخت اور نصاری کا دین بہت نرم ہے۔ اسلام ان دونوں کے درمیان ایک معتدل دین ہے اس وجہ سے اس دین معتدل کی حامل امت کو امت وسط قرار دیا گیا۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک اصل دین کا تعلق ہے یہود و نصاری دونوں کا دین ایک ہی ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی امت پر تورات کی پابندی اسی طرح واجب قرار دی تھی جس طرح اس کی پابندی یہود پر اجب تھی۔ اگر انہوں نے اس سے الگ کوئی تعلیم دی ہے تو اس کی نوعیت تورات سے جدا کسی مستقل تعلیم کی نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت صرف حکمت دین اور روح دین کی ہے۔ یہود اپنی دنیا پرستی کی وجہ سے دین کی اصل حقیقتوں سے ہٹ کر صرف رسوم وقیود کے غلام اور الفاظ و کلمات کے پرستار بن کے رہ گئے تھے، حضرت مسیح ؑ نے ان کو حکمت دین سے آشنا کیا۔ انجیل تورات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ تورات ہی کے رموز و حقائق کی طرف ایک حکیمانہ توجہ دلاتی ہے۔ لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (تا کہ تم لوگوں پر اللہ کے دین کے گواہ بنو اور رسول تمہارے اوپر اللہ کے دین کا گواہ بنے)۔ یہ امت وسط کے فریضہ منصبی اور اس کے قیام کی ضرورت کا بیان ہے۔ اوپر کی تفصیلات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو رہنمائی کے منصب پر مامور کیا تھا انہوں نے خدا کے میثاق کو توڑ دیا، اس کی شریعت میں تبدیلیاں کردیں، اس کی صراط مستقیم گم کردی، اس کے مقرر کیے ہوئے قبلہ سے منحرف ہوگئے اور جن شہادتوں کے وہ امین بنائے گئے تھے ان کو انہوں نے چھپایا، ایسے حالات میں عالم انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت اگر کوئی ہوسکتی تھی تو یہی ہوسکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسی امت برپا کرے جو خدا کی سیدھی راہ پر قائم ہو، جو اللہ کے رسول کے ذریعہ سے اصل دین کی حامل بنے اور پھر رہتی دنیا تک لوگوں کے سامنے اس دین کی گواہی دے۔“ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ ہو ”سے یہ بات واضح طور پر نکلتی ہے کہ شہادت علی الناس کا جو فرض آنحضرت ﷺ پر بحیثیت رسول کے تھا آپ کے بعد آپ کی امت کی طرف منتقل ہوا اور اب یہ اس امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر دور، ہر ملک اور ہر زبان میں لوگوں پر اللہ کے دین کی گواہی دے، اگر وہ اس فرض میں کوتاہی کرے گا تو اس دنیا کی گمراہیوں کے نتائج بھگتنے میں دوسروں کے ساتھ وہ بھی برابر کی شریک ہوگی۔ ہمارے ارباب تاویل نے عام طور پر اس شہادت کو آخرت سے متعلق مانا ہے کہ یہ امت گمراہوں کے خلاف انبیاء کی تائید میں آخرت میں شہادت دے گی کہ ان گمراہوں کو اللہ کا دین پہنچ چکا تھا، اس کے باوجود انہوں نے گمراہی کی یہ روش اختیار کی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس تخصیص و تحدید کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس امت کو شہداء اللہ ہونے کا یہ مرتبہ آخرت میں بھی حاصل ہوگا لیکن آخرت میں یہ مرتبہ اسی وجہ سے حاصل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اس کو اس منصب پر سرفراز فرمایا ہے۔ جو امت اس دنیا میں دین حق کی گواہ ہے، ظاہر ہے کہ وہی آخرت میں بھی اس پوزیشن میں ہوگی کہ گواہی دے کہ لوگوں کو اللہ کا دین ٹھیک ٹھیک پہنچایا یا نہیں۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ : جعل کا لفظ وسیع معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی جائز ٹھہرانے اور مشروع قرار دینے کے بھی ہیں مثلاً اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلا سَائِبَةٍ وَلا وَصِيلَةٍ (مائدہ :103) اور خدا نے بحیرہ، سائبہ اور وسیلہ کو مشروع نہیں کیا۔ عَلِمَ یَعْلَمُ کے معنی جس طرح جان لینے اور معین کرلینے کے ہیں اسی طرح اس کے معنی ممیز کردینے، چھانٹ کر الگ کردینے اور ظاہر کردینے کے بھی ہیں۔ مثلاً وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ (محمد :31) اور ہم تمہیں جانچیں گے یہاں تک کہ ظاہر کردیں تمہارے اندر سے ان لوگوں کو جو جہاد کرنے والے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں۔ أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ (ال عمران : 142) کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی اللہ نے تمہارے اندر سے ان لوگوں کو ظاہر نہیں کیا جنہوں نے جہاد کیا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ جو تمہیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی تھی تو اس لیے نہیں کہ یہی تمہارا مستقل قبلہ ہے بلکہ یہ اجازت ایک عارضی اور وقتی اجازت تھی اور مقصود اس اجازت سے یہ تھا کہ پھر اس قبلہ کی تبدیلی تمہارے لیے امتحان کی ایک کسوٹی بنے اور اس کے ذریعہ سے یہ ظاہر کردیا جائے کہ تمہارے اندر کتنے آدمی ایسے ہیں جو فی الواقع رسول کے پیرو ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو رسول سے زیادہ اپنی پچھی روایات کے پرستار ہیں اور وہ پھر مڑ کر اپنے قدم دین ہی کی طرف چلے جاتے ہیں۔ یہ بات یہاں ملحوظ رہے کہ آنحضرت ﷺ کو جب نماز کا حکم ہوا تو آپ نے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا۔ شروع میں حضور کا طریقہ یہ تھا کہ جن معاملات میں آپ کے سامنے وحی الٰہی کی کوئی واضح رہنمائی نہ ہوتی ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقہ پر عمل کرتے چناچہ قبلہ کے معاملے میں بھی آپ نے یہی کیا۔ جب تک آپ مکہ میں رہے روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نمازوں کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں سامنے ہوتے لیکن جب آپ نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تو سمت کے تبدیل ہوجانے کے وجہ سے بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا امکان باقی نہیں رہا۔ قدرتی طور پر خانہ کعبہ سے یہ انقطاع آپ کے قلب مبرک پر شاق گزرا اور آپ کو اس بارے میں وحی الٰہی کا انتظار رہنے لگا۔ لیکن حکمت الٰہی اس بات کی مقتضی ہوئی کہ ابھی کچھ عرصہ تک آپ اور بیت المقدس ہی کی طرف نماز پڑھیں۔ چناچہ ہجرت کے بعد بھی 16، 17 مہینے آپ بیت المقدس ہی کی طرف نمازیں پڑھتے رہے، یہاں تک کہ غزوہ بدر سے کم وبیش دو ماہ پہلے قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے عرصہ تک بیت المقدس کے قبلہ پر قائم رکھنے اور پھر اس سے ہٹا کر خانہ کعبہ کو قبلہ قرار دینے کی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس طرح اس نے مسلمانوں کو ایک امتحان میں ڈال کر ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کیا ہے تاکہ مدینہ آنے کے بعد جو خاص قسم کے عناصر اہل کتاب میں سے مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں وہ اس امتحان سے گزر کر یا تو اسلام کی طرف یک سو ہوجائیں یا چھٹ کر ان سے الگ ہوجائیں۔ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۔ یعنی یہ قبلہ کی تبدیلی ہے تو ایک سخت امتحان اس لیے کہ اس طرح کے معاملات میں جن کا تعلق دین سے ہو اور دین کی بھی ایک بنیادی چیز سے، آدمی فطری طور پر جذباتی اور روایت پرست بن جایا کرتا ہے، ان میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی اس کو سخت گراں گزرتی ہے، لیکن دین میں اصلی چیز جس کا وزن ہے وہ خدا اور رسول کی کامل اطاعت اور اخلاص ہے۔ اس وجہ سے ان تعصبات پر جو اخلاص کے لیے حجاب بنے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء وقتاً فوقتاً ضرب لگاتے رہے ہیں۔ انبیاء اور ادیان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی کی آمد پر امتوں کو اس قسم کے امتحانوں سے گزرنا پڑا ہے۔ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے، اسی سنت کے تقاضے سے ہر نبی کے زمانے میں دین کے رسوم و ظواہر میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں تاکہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوسکے۔ جو لوگ اپنے قومی اور گروہی تعصبات کی پھندوں میں گرفتار ہوچکتے ہیں ان کا کھوٹ ان امتحانوں سے ظاہر ہوجاتا ہے، وہ خدا اور رسول کی ہدایت اختیار کرنے کے بجائے اپنی روایات پر اڑ جاتے ہیں لیکن جن کے اندر اخلاص کی روح موجود ہوتی ہے وہ اپنے اس اخلاص کے فیض سے اللہ کی ہدایت قبول کرنے کی توفیق پاتے ہیں۔ چناچہ قبلہ کی اس تبدیلی کا رد عمل بھی اسی طرح کا ہوا جو لوگ اپنے پچھلے تعصبات میں لپٹے ہوئے محض کسی وقتی مصلحت کے تحت اسلام کی صفوں میں آ گھسے تھے اس تبدیلی کے بعد وہ پھر پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے برعکس جو لوگ محض اللہ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت کے جذبے کے ساتھ اسلام میں آئے تھے ان کے لیے اس تبدیلی نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور رحمت کے نہایت وسیع دروازے کھول دیے۔ ایک اہم سوال کا جواب : یہ بات کہ“ اللہ کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ وہ تمہارے ایمان کو ضائع کرے، وہ تو لوگوں کے معاملہ میں نہایت مہربان ہے ”یہاں ایک نہایت اہم سوال کا جواب ہے جو از خود پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جب قبلہ کی تبدیلی خود قرآن کے اپنے بیان کے مطابق بھی ایک سخت امتحان ہے تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس قسم کے سخت امتحان میں کیوں ڈالنا پسند فرمایا، جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اس امتحان میں ناکام رہ جانے کے سبب سے اپنے ایمان ہی کھو بیٹھیں۔ قرآن نے اس شبہ کا ازالہ اس طرح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح کے امتحانوں میں اس لیے نہیں ڈالتا کہ لوگ اپنے ایمان ضائع کر بیٹھیں بلکہ یہ امتحان اللہ تعالیٰ کی رافت و رحمت کے مظہر ہیں۔ انہی امتحانوں سے بندوں کی صلاحیتیں نشوونما پاتی ہیں۔ انہی کے ذریعہ سے ان کی وہ قوتیں اور صلاحیتیں بروئے کار آتی ہیں جن کے خزانے قدرت نے ان کے اندر ودیعت کیے ہیں۔ انہی کے ذریعے سے ان کے کھرے اور کھوٹے، ان کے مخلص اور منافق اور ان کے سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے۔ یہ امتحان نہ ہو تو اچھے اور برے، خام اور پختہ، گہر اور پشنیر میں کوئی فرق ہی نہ رہ جائے۔ ہر مدعی کو اس کے دعوے میں سچا ماننا پڑے اور ہر کاذب کی باتوں کی تصدیق کرنی پڑے، یہاں تک کہ آخرت میں بھی کسی کو انعام یا کسی کو سزا دینے کے لیے کوئی حجت و دلیل باقی نہ رہ جائے۔ مزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس کارخانہ کائنات کا سارا حسن و جمال اور اس کی ساری حکمت و برکت اللہ تعالیٰ کی اسی سنت ابتلا کے اندر مضمر ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ سارا کارخانہ بالکل بےحکمت اور بےمصلحت بلکہ کھلنڈرے کا ایک کھیل کے رہ جائے۔ زبان کا یہ نکتہ بھی ملحوظ رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء میں سے رؤوف اور رحیم کا حوالہ دیا ہے۔ رؤوف رافت سے ہے جس کے اندر دفع شر غالب ہے اور رحیم رحمت سے ہے جس کے اندر اثباتِ خیر کا پہلو نمایاں ہے۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہی دنوں پہلو اللہ تعالیٰ کی اس سنت ابتلاء او امتحان میں ملحوظ ہیں جس کی طرف یہ آیت اشارہ کر رہی ہے یعنی بندوں کو خرابیوں اور کمزوریوں سے پاک کر کے فضائل و محاسن سے آراستہ کرنا۔ یہاں ان اشارات پر ہم کفایت کرتے ہیں، آگے مختلف مقامات پر یہ سنت اللہ مختلف پہلوؤں سے زیر بحث آئے گی۔ عام طور پر مفسرین نے اس آیت کو اس سیاق میں لیا ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد لوگوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جو لوگ پہلے ہی قبلہ کے دوران میں وفات پا چکے ان کا کیا بنے گا۔ ان کی نمازیں قبول ہوں گی یا نہیں ؟ یہ اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک نہ تو اس سوال کے پیدا ہونے کی کوئی وجہ تھی اور نہ اس کے جواب دینے کی ضرورت تھی۔ اصل حقیقت وہی ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔
Top