Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 24
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
فَمَا كَانَ : سو نہ تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّا : سوائے اَنْ : یہ کہ قَالُوا : انہوں نے کہا اقْتُلُوْهُ : قتل کردو اس کو اَوْ حَرِّقُوْهُ : یا جلا دو اس کو فَاَنْجٰىهُ : سو بچا لیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِنَ النَّارِ : آگ سے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں ہیں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : جو ایمان رکھتے ہیں
37پھر اُس کی قوم کا جواب اِس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا”قتل کردو اِسے یا جلا ڈالو اِس کو۔“38 آخر کار اللہ نے اُسے آگ سے بچا لیا،39 یقیناً اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں۔40
سورة العنکبوت 37 یہاں سے پھر سلسلہ کلام حضرت ابراہیم کے قصے کی طرف مڑتا ہے۔ سورة العنکبوت 38 یعنی حضرت ابراہیم کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے۔ " قتل کردو یا جلا ڈالو " کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر متفق تھا کہ حضرت ابراہیم کو ہلاک کردیا جائے، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تاکہ ہر شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو۔ سورة العنکبوت 39 اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیم کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دیے گئے تھے۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ سے بچا لیا۔ لیکن سورة الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور غیر مضر ہوگئی قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ (آیت 69) " ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر "۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہوجا اور ان کے لیے سلامتی بن جا۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصیتیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر مبنی ہیں، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے۔ معمول کے مطابق آگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کردیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے، کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے، کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ غیر معمولی خرق عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے، کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں، لیکن معمولات کو جنہیں روز مرہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں، اس بات کے لیے ہرگز دلیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ان سے بندھ گئی ہے اور خلاف معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہوسکتا۔ سورة العنکبوت 40
Top