Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاوٴں کو ہم اپنے اُوپر لے لیں گے۔17 حالانکہ اُن کی خطاوٴں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اُوپر لینے والے نہیں ہیں،18 وہ قطعاً جھُوٹ کہتے ہیں
سورة العنکبوت 17 ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہوتی ہے تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب اپنی گردن پر لے لیں گے۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ، روایات میں متعدد سرداران قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتدا جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے۔ چناچہ حضرت عمر کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن امیہ بن خلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا۔ سورة العنکبوت 18 یعنی اول تو یہی ممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے۔ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہہ دے کہ حضور، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ ارتداد کی راہ اختیار کی تھی، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔
Top