Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 22
وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١۪ۖ وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْا١ؕ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَا يَاْتَلِ : اور قسم نہ کھائیں اُولُوا الْفَضْلِ : فضیلت والے مِنْكُمْ : تم میں سے وَالسَّعَةِ : اور وسعت والے اَنْ يُّؤْتُوْٓا : کہ (نہ) دیں اُولِي الْقُرْبٰى : قرابت دار وَالْمَسٰكِيْنَ : اور مسکینوں وَالْمُهٰجِرِيْنَ : اور ہجرت کرنیوالے فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ میں وَلْيَعْفُوْا : اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں وَلْيَصْفَحُوْا : اور وہ در گزر کریں اَلَا تُحِبُّوْنَ : کیا تم نہیں چاہتے ؟ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ : کہ اللہ بخشدے لَكُمْ : تمہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور تم میں سے آسودہ حال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانا چاہئے کہ وہ قرابت داروں،27 مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ (صدقہ وغیرہ) نہ دیں گے۔ انھیں چاہئے کہ وہ ان کو معاف کردیں اور ان سے درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کردے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
27 حضرت عائشہ ؓ کے مفصل بیان والی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ مسطح بن اثاثہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چناچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چناچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا : پروردگار ! ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے چناچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے۔ 27۔ ا گویا اس آیت میں مسلمانوں کو ایک بڑا بلند اصول مدنظر رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے یعنی کسی کو معاف کرتے وقت انھیں یہ نہ سوچنا چاہئے کہ کس کا میرے ساتھ برتاؤ کیسا رہا ہے۔ بلکہ اس لئے معاف کرنا چاہئے کہ اللہ انھیں معاف فرمائے گا۔ اور یہ ایسی ضرورت ہے جس کی ہر شخص کو ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ دوری قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے امداد تو جاری کردی۔ مگر کیا قسم کا کفارہ بھی ادا کیا تھا ؟ اس بات کا یہاں ذکر تک نہیں آیا۔ لہذا بعض علماء کا خیال ہے کہ اچھے کام کو اختیار کرلینا ہی قسم کا کفارہ ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال ہے اور سورة مائدہ میں قسموں کے کفارہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے اور دلیل مزید کے طور پر درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں : حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ : آپ نے فرمایا : میں تو اللہ کی قسم ! جو اللہ چاہے جب کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں۔ پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر معلوم ہوتا ہے وہ کرلیتا ہوں (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الاستشناء فی الایمان) لہذا بہتر صورت یہی ہے کہ ایسی قسم کا کفار بھی ادا کردیا جائے۔ 28 یعنی جنہیں ایسی گندی باتوں کا خیال بھی نہ ہو۔ ان کا ذہن ہی ایسی باتوں کی طرف منتقل نہ ہوتا ہو۔ کہ بدچلنی کیا چیز ہے اور یہ کیسے کی جاتی ہے یعنی وہ سیدھی سادی اور پاک فطرت عورت جو بدچلن عورتوں کے چلتروں اور ان کی باتوں تک سے ناواقف ہوتی ہیں اور صحیحین کے مطابق ایسی بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی سخت ہے کیونکہ جس پر بہتان باندھا گیا ہے وہ کوئی عام مومنہ نہیں۔ بلکہ اللہ کے رسول کی بیوی اور مومنوں کی ماں ہے۔ لہذا ایسے تہمت لگانے والے منافقین پر دنیا میں بھی لعنت برستی رہے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان منافقوں پر جو لعنت برستی رہی اور ہر دم ذلیل و خوار ہوتے رہے وہ سب نے دیکھ لیا اور آخرت میں یہ لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔
Top