Taiseer-ul-Quran - An-Noor : 44
یُقَلِّبُ اللّٰهُ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ
يُقَلِّبُ اللّٰهُ : بدلتا ہے اللہ الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَعِبْرَةً : عبرت ہے لِّاُولِي الْاَبْصَارِ : آنکھوں والے (عقلمند)
اللہ ہی رات اور دن کا ادل بدل کرتا رہتا ہے۔ بلاشبہ اہل نظر کے لئے ان نشانیوں میں 72 عبرت کا سامان ہے۔
72 رات اور دن کا باری باری آنا بھی اللہ کی معرفت کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ جسے اللہ نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیاروں کی گردش کا ایسا مربوط نظام بنادیا ہے جس سے دن اور رات باری باری آتے رہتے ہیں۔ کسی مقام پر ایک ہی وقت راتیں بڑھ رہی ہیں تو دوسرے مقام پر اسی وقت چھوٹی ہو رہی ہیں۔ پھر اسی نظام سے ہر مقام پر موسموں میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جو مختلف قسم کی اجناس اور نباتات کے پکنے میں ممدو ثابت ہوتی ہے۔ فصلوں کے پکنے اور موسم میں ایک گہرا تعلق ہے غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام اس قدر محیرالعقول اور کثیر الفوائد ہے کہ جتنا بھی اس میں غور کیا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا سکہ انسان کے دل میں بیٹھتا جاتا ہے۔ موجودہ نظریہ کے مطابق یہ سب نتائج زمین کی محودی گردش اور سورج کے گرد سالانہ گردش سے حاصل ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر زمین جیسے عظیم الجثہ کرے کو آخر کس ہستی نے مجبور کیا ہے کہ وہ سورج کے گرد اپنے محور پر ساڑھے چھ ڈگری کا زاویہ بناتے ہوئے چھیاسٹھ ہزار چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی رہے اور ہمیشہ گھومتی رہے اور اس گردش میں سرمو بھی فرق نہ آنے دے ؟ پھر بروقت اس کڑی نگرانی بھی رکھے ہوئے ہے (فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ ۝) 59 ۔ الحشر :2)
Top