Taiseer-ul-Quran - Al-Ankaboot : 17
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ١ؕ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں تَعْبُدُوْنَ : تم پرستش کرتے ہو مِنْ : سے دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْثَانًا : بتوں کی وَّتَخْلُقُوْنَ : اور تم گھڑتے ہو اِفْكًا : جھوٹ اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک وہ جن کی تَعْبُدُوْنَ : پرستش کرتے ہو مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ مالک نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے رِزْقًا : رزق کے فَابْتَغُوْا : پس تم تلاش کرو عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس الرِّزْقَ : رزق وَاعْبُدُوْهُ : اور اس کی عبادت کرو وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لَهٗ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف تُرْجَعُوْنَ : تمہیں لوٹ کر جانا ہے
اللہ کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو وہ تو محض 26 بتوں کے تھان ہیں اور تم جھوٹ گھڑتے ہو 27 اور جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہیں رزق دینے 28 کا اختیار نہیں رکھتے۔ لہذا اللہ سے رزق مانگو، اس کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو تم اسی کی طرف ہی لوٹائے 29 جاؤ گے۔
26 قرآن میں بتوں کے لئے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں (1) صنم (ج الاصنام) کے معنی وہ بت ہیں جو قابل انتقال اور قابل فروخت ہوں خواہ یہ پیتل یا لوہے یا چاندی کے ہوں یا لکڑی کے یا پتھر کے اور صناعہ الاصنام بمعنی بت تراشی کا فن جیسے حضرت ابراہیم کا باپ آذر بت تراش بھی تھا اور بت فروش بھی۔ (2) نصب ایسے بتوں یا مجسموں کو کہتے ہیں جنہیں کسی جگہ پوجا پاٹ کے لئے نصب کردیا گیا ہو۔ جیسے مشرکین مکہ کے بت لات و منات، عزی اور ھبل وغیرہ تھے (3) اوثان (وثن کی جمع) ومن کا تعلق زیادہ تر مقامات سے ہوتا ہے۔ یعنی آستانے وغیرہ خواہ وہاں بت نصب ہوں یا نہ ہوں۔ بعض دفعہ بعض مخصوص مقامات پر پتھروں، درختوں، ستاروں یا دریاؤں وغیرہ سے الٰہی صفات کا عقیدہ رکھ کر ان کی پرستش شروع کردی جاتی ہے۔ اور ایسے مقامات بسا اوقات کسی بزرگ یا ولی سے یا کسی بت سے منصوب ہوتے ہیں اور حضرت ابراہیم نے جو اوتانا کا ذکر کیا تو اس سے مراد قوم ابراہیم کے بت خانے ہیں جن میں بت از خود شامل ہوں۔ 27 یعنی تم لوگ بت نہیں گھڑتے بلکہ جھوٹ کا پلندہ گھڑتے ہو۔ اور ان بتوں اور بت خانوں سے تم کئی قصے اور کہانیاں خود گھڑ کر ان سے منسوب کردیتے ہو۔ مثلاً اگر فلاں آستانے پر مہینہ میں ایک دفعہ دودھ کا چڑھاوا نہ چڑھایا جائے تو جانور بیمار پڑجاتے ہیں یا مرجائے ہیں۔ یا فلاں آستانے کی گستاخی یا توہین کا انجام اس قدر خطرناک ہوتا ہے یا فلاں بت خانے یا مزار پر حاضری دینے سے رزاق میں فراوانی ہوجاتی ہے۔ لہذا تم جو ان بتوں کو گھڑتے ہو تو ساتھ ہی جھوٹ کے پلندے بھی گھڑتے ہو۔ ورنہ صرف بت گھڑنے کا تمہیں کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ 28 اس آیت اور اس سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم نے شرک کے ابطال پر تین دلائل قوم کے سامنے رکھے۔ ایک یہ کہ یہ بت تمہارے اپنے گھڑے ہوئے ہیں۔ گویا تم اللہ کی مخلوق ہو اور یہ تمہاری مخلوق ہیں۔ اور الٰہ کی سب سے اہم صفت یہ ہے کہ وہ خالق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتی اور یہ بت تو مخلوق در مخلوق ہیں یہ الٰہ کیسے بن گئے ؟ دوسری دلیل یہ ہے کہ ان بتوں کے نفع یا نقصان سے متعلق تمہیں ہی داستانیں اور قصے کہانیاں تراشنا پڑتی ہیں۔ اگر تمہارے ان قصے کہانیوں کو ان سے علیحدہ کردیا جاوے تو باقی یہ پتھر کے پتھر یا بےجان مادے ہی رہ جاتے ہیں اور ایسے مادے الٰہ کیسے ہوسکتے ہیں۔ ؟ تیسری دلیل یہ کہ یہ تمہیں رزق کیا دیں گے۔ رزق تو تم خود ان کے آگے چڑھاؤں اور نذروں نیازیوں کی صورت میں رکھتے ہو۔ چاہو تو تم ان کے آگے رزق رکھ دو چاہے اٹھا لو۔ چاہے ان کے اوپر کل دو ۔ لہذا ایسے غلط عقائد ان سے منسوب نہ کرو۔ اور رزق مانگنا ہے تو اللہ سے مانگو اور جس کا کھاؤ اسی کے گنا گاؤ۔ اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر بجا لاؤ۔ 29 یعنی بالآخر تم نے اللہ کی طرف پلٹنا ہے اور تمہارا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ان بتوں کی طرف نہ تم نے پلٹنا ہے نہ تمہارا انجام ان کے ہاتھ میں ہے لہذا تمہیں عبادت تو اس کی کرنا چاہئے جو تمہاری عاقبت کو سنوار سکتا ہے۔ اور رزق بھی اس سے مانگنا چاہئے۔
Top