Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 165
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
رُسُلًا : رسول (جمع) مُّبَشِّرِيْنَ : خوشخبری سنانے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈرانے والے لِئَلَّا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ حُجَّةٌ : حجت بَعْدَ الرُّسُلِ : رسولوں کے بعد وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
یہ سب رسول (لوگوں کو) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تھے تاکہ ان رسولوں کے آنے کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی حجت 219 باقی نہ رہے۔ اور اللہ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے
219 کائنات میں انسان کی حیثیت اور اللہ کی طرف سے اتمام حجت :۔ اللہ تعالیٰ نے فطرتاً انسان کو اتنی عقل عطا کی ہے کہ وہ اللہ اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرسکے انسان اتنا تو جانتا ہی ہے کہ کوئی چیز اس کے خالق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر کوئی چیز مدتہائے دراز سے ایک مربوط نظام کے تحت حرکت کر رہی ہے تو لازماً وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس چیز کی نگہداشت کرنے والی بھی کوئی ہستی ضروری موجود ہے کیونکہ کوئی چیز خواہ کتنی ہی مضبوط ہو، کچھ مدت کے بعد بگڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اور اگر اس بگاڑ کو بر وقت درست نہ کردیا جائے تو با لآخر تباہ ہوجاتی ہے۔ لہذا اگر یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہوتی تو کب کی فنا ہوچکی ہوتی لیکن چونکہ سب انسان ایک جیسی عقل کے مالک نہیں ہوتے لہذا اللہ تعالیٰ نے رسول بھیج کر انسان کو تمام حقائق سے مطلع فرما دیا کہ انسان کی اس پوری کائنات میں حیثیت کیا ہے ؟ اسے یہاں رہ کر کیا کردار ادا کرنا ہے اور اگر وہ اس کردار کو ادا کرنے میں کامیاب رہا تو اس کی اخروی زندگی میں اسے اس کا کیا کچھ اجر ملے گا اور اگر ناکام رہا تو اسے اخروی زندگی میں کیا کچھ دکھ اور مصائب برداشت کرنا ہوں گے اور رسول بھیجنے کا یہ طریقہ اس لیے جاری کیا کہ قیامت کے دن کوئی شخص اللہ کے حضور یہ نہ کہہ سکے کہ مجھے تو ان حقائق کا علم ہی نہ تھا لہذا میں معذور ہوں۔ اور یہ انبیاء اور رسل دنیا میں اس کثرت سے آئے اور اپنے بعد نازل شدہ کتابیں چھوڑ گئے کہ عالم انسانی پر کوئی ایسا دور نہیں آیا جبکہ کوئی نبی یا اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کوئی کتاب دنیا میں موجود نہ ہو، جو انسان کی ان حقائق تک رہنمائی نہ کرتی ہو۔ پھر بھی اگر انسان اس کی طرف توجہ ہی نہ کرے یا اللہ کی تعلیمات کا انکار کر دے تو اس کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہوگا۔ اس آیت سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ چکا ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو ان لوگوں تک بھی پہنچا دیں، جن تک یہ پیغام ابھی تک نہ پہنچا ہو۔ کیونکہ ایسے علماء ہی حقیقتاً انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔
Top