Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 165
رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا
رُسُلًا : رسول (جمع) مُّبَشِّرِيْنَ : خوشخبری سنانے والے وَمُنْذِرِيْنَ : اور ڈرانے والے لِئَلَّا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ حُجَّةٌ : حجت بَعْدَ الرُّسُلِ : رسولوں کے بعد وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَزِيْزًا : غالب حَكِيْمًا : حکمت والا
(سب) پیغمبروں کو (خدا نے) خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے (بنا کر بھیجا تھا) تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کو خدا پر الزام کا موقع نہ رہے اور خدا غالب حکمت والا ہے
رسلا مبشرین ومنذرین اللہ نے بھیجے پیغمبر خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے۔ لئلا یکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل تاکہ پیغمبروں کے بھیجنے کے بعد اللہ کے خلاف لوگوں کو کوئی عذر باقی نہ رہے یعنی قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا کہ ہم اس کے کہنے پر چلتے۔ حضرت مغیرہ ؓ کی روایت ہے کہ سعد بن عبادہ ؓ نے کہا اگر میں کسی کو اپنی بیوی کے پاس دیکھ لوں تو تلوار کی دھار سے اس کو ضرور قتل کر دوں۔ اس قول کی اطلاع رسول اللہ ﷺ : کو پہنچی تو فرمایا کیا تم کو سعد کی غیرت سے تعجب ہوتا ہے۔ خدا کی قسم میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت والا ہے اللہ کی اسی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس نے کھلی چھپی فحش کاریاں حرام کردی ہیں اور اللہ سے زیادہ کسی کو (گناہ گار کی) عذر خواہی پسند نہیں اسی لئے اس نے ڈرانے والے اور بشارت دینے والے پیغمبر بھیجے اور اللہ سے زیادہ کسی کو اپنی تعریف پسند نہیں اسی لئے اللہ نے جنت کا وعدہ کیا۔ رواہ البخاری وغیرہ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ثبوت ہے اس امر کا کہ پیغمبروں کو بھیجے بغیر کسی کو عذاب نہیں دے گا جیسا کہ دوسری آیت میں اس نے خود فرمایا ہے وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً حنفیہ کہتے ہیں کہ (آیت وَمَاکُنَّا معذبین سے مراد عذاب دنیوی کی نفی ہے یعنی جب تک اللہ کسی پیغمبر کو ہدایت کے لئے نہیں بھیج دیتا اور پھر لوگ اس سے سرکشی نہیں کرتے اللہ دنیوی عذاب نہیں بھیجتا) (1) [ یا اس آیت میں نفی عذاب سے مراد ہے بداعمالی اور بد اطواری پر عذاب دینے کی نفی یعنی آخرت میں کسی کی بداعمالی موجب عذاب اس وقت تک نہ ہوگی جب تک اللہ نے اس کے پاس پیغمبر کو نہ بھیج دیا ہو۔ رہا عدم توحید اور شرک کا مواخذہ اس کی نفی اس جگہ نہیں ہے۔] احکام امر و نہی پر عذاب اللہ کی طرف سے اسی وقت ہوگا جب پیغمبر آکر امر و نہی بیان کردیں (کیونکہ پیغمبر کے بغیر کسی کو معلوم نہیں کہ اللہ کا کیا حکم ہے اور کس چیز کی ممانعت ہے) البتہ نفس توحید کا اقرار و اعتراف پیغمبروں کے آنے پر موقوف نہیں۔ اندرونی اور بیرونی تمام آیات الوہیت توحید پر دلالت کر رہی ہیں اور ان کو سمجھنے کے لئے عقل کافی ہے۔ واللہ اعلم۔ وکان اللہ عزیز اور اللہ غالب ہے یعنی اس کے ارادہ پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ حکیما حکمت والا ہے۔ تدبیر نبوت۔ ہر نبی کو خاص قسم کی وحی اور مخصوص معجزات و فضیلت عطا کرنا اور خاتم المرسلین کو قیامت تک آنے والی تمام قوموں کی ہدایت کے لئے بھیجنا اور ہر نبی کو جو کچھ عطا فرمایا وہ سب ان کو عطا فرمانا اسی کی حکمت کے زیر اثر ہے۔ ابن اسحاق (رح) اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی حضور ﷺ نے ان سے فرمایا تم بلاشبہ جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں یہودیوں نے جواب دیا ہم کو تو اس کا علم نہیں۔ بغوی نے لکھا ہے کہ مکہ کے کچھ سردار رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا محمد ﷺ ہم نے یہودیوں سے تمہارے اور تمہارے اوصاف کے متعلق دریافت کیا کہ ان کی کتاب میں اس کا ذکر ہے یا نہیں یہودیوں نے جواب دیا کہ ہم (اپنی کتاب میں) اس امر سے واقف نہیں اس پر مندرجۂ ذیل آیات کا نزول ہوا۔
Top