Taiseer-ul-Quran - An-Nisaa : 166
لٰكِنِ اللّٰهُ یَشْهَدُ بِمَاۤ اَنْزَلَ اِلَیْكَ اَنْزَلَهٗ بِعِلْمِهٖ١ۚ وَ الْمَلٰٓئِكَةُ یَشْهَدُوْنَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًاؕ
لٰكِنِ : لیکن اللّٰهُ : اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے بِمَآ : اس پر جو اَنْزَلَ : اس نے نازل کیا اِلَيْكَ : آپ کی طرف اَنْزَلَهٗ : وہ نازل ہوا بِعِلْمِهٖ : اپنے علم کے ساتھ وَالْمَلٰٓئِكَةُ : اور فرشتے يَشْهَدُوْنَ : گواہی دیتے ہیں وَكَفٰي : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
بلکہ اللہ تو یہ گواہی دیتا ہے کہ اس نے جو کچھ آپ کی طرف اتارا ہے اپنے علم کی بنا 220 پر اتارا ہے اور فرشتے بھی یہی 221 گواہی دیتے ہیں اگرچہ اللہ کی گواہی ہی بہت کافی ہے
220 قرآن علم الہی کا خزانہ ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ قرآن علم الہیٰ کا مخزن ہے۔ وحی کے ذریعہ انسان کو ایسی باتوں کا علم ہوا جنہیں معلوم کرنے کا اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا مثلاً دشمنوں کی سازشوں کی بروقت اطلاع، مسلمانوں کی بروقت امداد، ہنگامی پس منظر میں احکام الہی کا فوری نزول، مستقبل کے متعلق بہت سی پیشین گوئیاں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ مثلاً روم کا ایران پر غلبہ، دین اسلام کی تمام ادیان پر سر بلندی، قیامت سے پہلے اور مابعد کے حالات نشر و حشر اور جنت دوزخ سے متعلق معلومات وغیرہ۔ اور اسی وحی الہیٰ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک مبتدی اور ایک منتہی دونوں ہی قرآن سے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق فیض یاب ہوتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ جوں جوں انسان آیات الہی میں غور کرتا ہے نئے نئے حقائق اس کے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اور یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے نازل فرمایا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت لامحدود ہے اسی طرح اس کے کلام کی پہنائیاں اور حقائق بھی لامحدود ہیں۔ 221 فرشتوں کی گواہی اس لحاظ سے قابل اعتبار ہے کہ وہ مدبرات امر ہیں اور کائنات کے جملہ امور اللہ کے اذن سے انہی کے ہاتھوں سر انجام پا رہے ہیں اور اللہ کا کلام بھی انہی کے ذریعہ نازل ہوتا ہے۔ اگرچہ فرشتوں کی گواہی کی بھی ضرورت نہیں بلکہ اللہ کی گواہی ہر لحاظ سے کافی ہے کیونکہ وہ ہر چیز کا خالق اور اس کا منتظم ہے اور فرشتے تو اسی کے حکم کے پابند ہیں۔
Top