Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 22
سَیَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا بِالْغَیْبِ١ۚ وَ یَقُوْلُوْنَ سَبْعَةٌ وَّ ثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا یَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ١۫۬ فَلَا تُمَارِ فِیْهِمْ اِلَّا مِرَآءً ظَاهِرًا١۪ وَّ لَا تَسْتَفْتِ فِیْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا۠   ۧ
سَيَقُوْلُوْنَ : اب وہ کہیں گے ثَلٰثَةٌ : تین رَّابِعُهُمْ : ان کا چوتھا كَلْبُهُمْ : ان کا کتا وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہیں گے خَمْسَةٌ : پانچ سَادِسُهُمْ : ان کا چھٹا كَلْبُهُمْ : ان کا کتا رَجْمًۢا : بات پھینکنا بِالْغَيْبِ : بن دیکھے ۚ وَيَقُوْلُوْنَ : اور کہیں گے وہ سَبْعَةٌ : سات وَّثَامِنُهُمْ : اور ان کا آٹھواں كَلْبُهُمْ : ان کا کتا قُلْ : کہ دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِعِدَّتِهِمْ : ان کی گنتی (تعداد) مَّا يَعْلَمُهُمْ : انہیں نہیں جانتے ہیں اِلَّا : مگر صرف قَلِيْلٌ : تھوڑے فَلَا تُمَارِ : پس نہ جھگڑو فِيْهِمْ : ان میں اِلَّا : سوائے مِرَآءً : بحث ظَاهِرًا : ظاہری (سرسری) وَّ : اور لَا تَسْتَفْتِ : نہ پوچھ فِيْهِمْ : ان میں مِّنْهُمْ : ان میں سے اَحَدًا : کسی
کچھ لوگ کہتے ہیں غار والے تین آدمی تھے چوتھا ان کا کتا تھا ، کچھ لوگ کہتے ہیں پانچ تھے ، چھٹا ان کا کتا تھا ، یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں ، بعض کہتے ہیں سات تھے آٹھواں ان کا کتا تھا اے پیغمبر اسلام : ﷺ کہہ دے ان کی اصل گنتی تو میرا پروردگار ہی جانتا ہے ان کا حال بہت کم لوگوں کے علم میں آیا ہے ، تو لوگوں سے اس بارے میں بحث نہ کر مگر صرف اس حد تک کہ صاف صاف بات ہو اور ان لوگوں میں سے کسی سے اس بارے میں دریافت نہ کر
اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں بھی لوگوں کے مختلف نظریئے ہیں : 25۔ یہ لوگوں کی کہانیوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہماری زبان میں کہتے ہیں کہ جتنے منہ اتنی باتیں مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو آتا ہے کوئی نہ کوئی بات کہہ دیتا ہے کوئی اس کا سرپیر ہو یا نہ ہو اور اس طرح ایک بنتے بنتے معلوم نہیں کہ کچھ ہی بن جاتا ہے یہی کچھ اصحاب کہف کے بارے میں بھی ہوا کہ جو کسی کے منہ میں آیا اس نے کہہ دیا اور ہوتے ہوتے ان کے متعلق کئی ایک باتیں مشہور ومعروف ہوگئیں اس طرح ان کی تعداد کے متعلق بھی لوگوں کے مختلف بیان دیئے کسی نے کہا ان کی تعداد تین تھی اور چوتھا ان کے ساتھ کتا تھا پھر تعداد میں اختلاف ہوتا رہا کبھی پانچ اور کبھی چھ لیکن جتنی تعداد بھی بتائی گئی کتے کا ذکر بھی ساتھ ہوتا رہا اور پھر یہ بحث اٹھی کہ آیا کتا ساتھ کیوں تھا ؟ پھر اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئیں اور مختلف ثبوت دیئے گئے اور پھر اس سے بھی آگے بات بڑھی تو یہ بحث چل نکلی کہ یہ کتا جنت میں جائے گا یا نہیں تو ہمارے مفسرین میں سے کتنے تھے جنہوں نے اس کے ثبوت بھی فراہم کئے کہ ان کا کتا یقینا جنت میں جائے گا پھر اس کو ثابت کرنے کے لئے اونٹنی اور کسی کا گھوڑا ‘ کسی کی گائے اور کسی کی بکری کی روایات بھی بیان کی گئیں ۔ قرآن کریم نے چھ کی تعداد کو لوگوں کے منہ سے بیان کرنے کے بعد ایک جملہ بیان کیا کہ یہ لوگ غیب میں پتھر پھینکتے ہیں اور اس کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھوایں ان کا کتا تھا تو ہمارے مفسرین نے تعداد چھ تک بیان کرنے والوں کو تیر تکے مارنے والے قرار دیا اور خود اس بات کو پکا کرلیا اور اس پر جم گئے کہ ان کی تعداد سات تھی اور آٹھواں کتا تھا اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے بڑی وضاحت سے یہ فرمایا کہ ” اے پیغمبر اسلام ! آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ ان کی اصل گنتی تو میرا پروردگار ہی خوب جانتا ہے کیونکہ ان کا اصل حال بہت کم لوگوں کو معلوم تھا اور یہ سارے بحثیں ان کے زمانہ سے بہت بعد کی ہیں اور وقت کے ساتھ ان بحثوں میں اضافے ہوتے رہتے ہیں اور کمی کا احتمال بھی رہتا ہے پھر ان کی تعداد معلوم ہوجانے سے کچھ فائدہ اور نقصان بھی نہیں ہے اس لئے بحث برائے بحث سے آخر فائدہ ؟ نبی اعظم وآخر ﷺ کو ہدایت کہ آپ ﷺ کسی سے سوال و جواب حتی المقدور نہ کریں : 26۔ دراصل یہ صرف ایک واقعہ جو اس جگہ بیان کیا گیا ہے فقط اس کے متعلق نہیں بیان کیا گیا کہ متعلق بحث نہ کریں بلکہ فرمایا یہ جارہا ہے کہ ایسی باتوں کے متعلق بحث در بحث چلانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اس لئے اس طرح کی بےسروپا باتوں میں الجھنا مناسب نہیں ہوتا کیونکہ جن لوگوں کی یہ عادت ہوجاتی ہے وہ وقت گزاری کے لئے خواہ مخواہ کے قصے سنتے اور سناتے رہتے ہیں جن کا ماحصل ذہنی عیاشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا حالانکہ ایسی باتیں عقل وفکر والے لوگ زیر بحث ہی نہیں لاتے ، ان کی تعداد خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو اصل غرض تعداد سے نہیں بلکہ ان نظریات سے ہے جن نظریات کے باعث ان کو یہ کلفت اٹھانا پڑی ۔ جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کی توحید اور انسانی اخلاق وکردار کے ساتھ ہے لیکن کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بال کی کھال اتارتے رہتے ہیں اور اس طرح کی چھوٹی بڑی باتوں میں الجھے رہتے ہیں اور بڑے بڑے کاموں کی طرف کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اس لئے نبی اعظم وآخر ﷺ کے ذریعے سے آپ ﷺ کی امت کو درس دیا جا رہا ہے کہ بیکار بحثوں میں الجھ کر وقت ضائع نہ کیا کرو ۔ کام کی بات جو زندگی کے لئے مفید ہو اور دوسروں کے لئے سبق آموز ہو اور صرف اتنی ہی بات جو عزم وجزم سے کی جاسکے ورنہ کام کے وقت کام اور کام اور بات کے وقت فقط کام کی بات ۔
Top