Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِفَتٰىهُ : اپنے جوان (شاگرد) سے لَآ اَبْرَحُ : میں نہ ہٹوں گا حَتّٰى : یہانتک اَبْلُغَ : میں پہنچ جاؤ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ : دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ اَوْ : یا اَمْضِيَ : چلتا رہوں گا حُقُبًا : مدت دراز
اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے کہا تھا کہ میں اپنی کوشش سے باز آنے والا نہیں جب تک اس جگہ نہ پہنچ جاؤں جہاں دونوں سمندر آ ملے ہیں ، میں تو چلتا ہی رہوں گا
کوئی نبی نبوت ملنے سے پہلے اس بات کو نہیں جانتا کہ وہ نبی ورسول بنایا جائے گا : 64۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات زندگی میں سے اس واقع کو ذکر کیا گیا ہے جس واقعہ کا ذکر آپ کی نبوت کی زندگی سے پہلے کی زندگی کے ساتھ تھا اور آپ ﷺ سے اس کے متعلق جو سوال کیا گیا وہ بھی محض اس لئے تھا کہ یہ بات معلوم ہوجائے کہ آپ ﷺ اللہ کے سچے نبی ورسول ہیں یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے وحی الہی سے اس واقعہ کا ذکر ان کو سنادیا جس طرح آپ ﷺ کو سنایا گیا اس واقعہ کی پوری تفصیل آگے آئے گی اور آیات کے بعد ایک مربوط واقعہ کے طور پر بھی ہم بیان کریں گے لیکن اس کے شروع ہونے سے قبل ہی اتنا عرض کردینا ضروری ہے کہ یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کسی نے پوچھ لیا کہ آپ سے بڑا عالم بھی کوئی دنیا میں موجود ہے تو آپ نے اس کی نفی کردی کہ میرے سے بڑا عالم کوئی بھی دنیا میں موجود نہیں اس لئے آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوئی اور آپ کو خضر کی معیت میں سفر کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر اس قصہ کو بڑے عجیب رنگ میں نقل کیا گیا ہے حالانکہ اس کو بیان کرنے میں بہت حد تک بےاحتیاطی سے کام لیا گیا اور پھر ہوتے ہوتے یہ قصہ اس قدر مشہور ہوا کہ آج بچہ بچہ کی زبان پر جاری ہے ہم اس کی اصل حقیقت کو بھی واضح کریں گے لیکن آیات قرآنی کی ترتیب وار تفسیر بیان کرنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے اور جو کچھ اس میں ملاوٹ کی گئی ہے وہ کھل کر سامنے آجائے ، سب سے پہلے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے قبل ازیں بھی بیان کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ واقعہ نبوت ملنے سے قبل پیش آیا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) سے مصر میں ایک قتل ہوگیا اور اس خوف سے آپ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مصر سے بھاگ کر نکلے تھے اور راستے میں یہ خضر کا واقعہ پیش آیا ہم نے خضر کا نام محض تفسیری بیان کے مطابق لیا ہے اگرچہ اس نام کی صحیح تحقیق نہیں کہ واقعی وہ خضر نامی کوئی شخص تھے ، بہرحال اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) مدین پہنچے اور شعیب (علیہ السلام) کے پاس رہے ، شعیب (علیہ السلام) نے دامادی کا شرف بخشا اور وہاں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد آپ مصر کو آرہے تھے کہ راستے میں نبوت کا پیغام آپ کو سنایا گیا اور اس طرح مصر میں داخل ہونے سے پہلے آپ اللہ کے رسول تھے پھر آپ نے اللہ کے حکم سے مصر سے ہجرت کی اور دوبارہ مصر میں آکر رہائش پذیر نہیں ہوئے اگرچہ آپ کا مدمقابل وقت کا حکمران تھا جس کو بنی اسرائیل کی آنکھوں کے سامنے دریا میں غرق کردیا گیا تھا اور یہ بات بھی اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ کوئی نبی اپنے ہجرت کئے ہوئے مقام پر واپس آکر آباد نہیں ہوتا خواہ وہ علاقہ اس کی دعوت کو قبول ہی کیوں نہ کرلے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ میں مجمع البحرین پر جا کر رہوں گا خواہ مجھے کتنا سفر کرنا پڑے : 65۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب جوان ہوئے اور بنی اسرائیل کی مدد ونصرت میں حصہ لینے لگے تو آپ سے ایک شخص جو فرعون کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا اتفاقا قتل ہوگیا اور اس کے بعد آپ پر حکومت مزید سختی کرنا چاہتی تھی کہ آپ کے ایک خیر خواہ نے شاہی محل سے فیصلہ گاہ سے نکل کر آپ کو اطلاع دی کہ آپ کے پکڑنے کا پروگرام بنایا جارہا ہے اس لئے آپ یہاں سے نکل جائیں تو اچھا ہوگا آپ نے مصر سے نکلنے کا پختہ ارادہ کرلیا اور اس ساتھی کو ساتھ لے جانے کا اصرار کیا اور اس سے کہا کہ زیادہ نہیں تو ؤپ دو دریاؤں کے سنگم تک ضرور میرا ساتھ دیں اس طرح اس کو ساتھ آمادہ کرلیا اور دونوں ساتھی مل کر مصر سے بھاگ گئے اور آپ کے ساتھی نے حسب وعدہ دونوں دریاؤں سے سنگم تک آپ کا ساتھ دیا ، یہاں سے نکلتے وقت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی سے جو الفاظ بیان کئے وہ اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر میں ایسے واقعات پیش آتے رہے جس سے آپ کو احساس تھا کہ یہاں سے نکل جانے کے حالات کسی وقت بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اگر یہاں سے نکلنا ہے تو کس طرف کو جانا مناسب ہے اور اس طرح کی باتوں میں سفر کے راستہ اور حالات کے متعلق گفتگو اپنے خاص خاص ساتھیوں سے ہوتی رہتی تھی جس میں اس راستے کی طرف جانے کے مشورے ہوتے ہیں جس طرف کو وہ فی الواقعہ نکلنے پر جب مجبور ہوئے تو نکل کھڑے ہوئے اور اپنے نکلتے وقت ہی وہ راز کی بات اپنے ساتھی سے کھول دی اور منزل کی طرف اور سمت متعین کرکے یہاں سے نکلے اگرچہ منزل کا آخری مقام آپ کے ذہن میں ابھی نہیں ہوگا ۔ اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ شکل و صورت کے ساتھ باطنی خوبیوں میں معروف تھے اور آپ کی خداداد قابلیت جو انبیاء کرام (علیہم السلام) میں فطری ہوتی ہے سے لوگ ایک حد تک متاثر تھے اگرچہ یہ بات ابھی آپ کو بھی معلوم نہ تھی کہ آنے والے وقت میں ‘ میں اللہ کا نبی یا رسول بنایا جانے والا ہوں اور (حقبا) کا لفظ اس جگہ تاکید کے لئے مبالغہ کے طور پر بولا گیا ہے جس طرح ایسا مبالغہ ہر زمانہ میں اور ہر زبان میں عام طور پر بولا جاتا ہے ۔ :
Top